اسلام کی تبلیغ کریں، جبر مسلط نہ کریں


جہاں تک مسالک پر چلنے یا اس کے مطابق عبادات یا عمل کرنے کی بات ہے، کہا یہی جاتا ہے کہ اپنا مسلک بے شک نہ چھوڑو لیکن کسی دوسرے کے مسلک کو بھی نہ چھیڑو۔ اگر امن و امان کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ معاشرے میں انتشار اور بے چینی کا سب سے بڑا سبب ہی ”اختلاف“ ہوا کرتا ہے۔ اب مسالک ہوں یا مذاہب، ان کا ہونا ہی ”اختلاف“ کی دلیل ہے۔

اختلاف موجود ہونے کا تعلق صرف مذاہب یا مسالک ہی سے وابستہ نہیں بلکہ زندگی میں پیش آنے والے کسی بھی سلسلے سے ہو سکتا ہے اور جب یہ اختلاف کسی بھی وجہ سے شدت اختیار کر جاتا ہے تو پھر جنگ و جدل کی سی کیفیت پیدا ہو جایا کرتی ہے اور جب جنگ کی آگ ایک مرتبہ بھڑک اٹھے تو یہ سمندر یا دریاؤں کے پانی سے نہیں انسانی خون سے ہی سرد ہوا کرتی ہے۔

کوئی بھی انسانی معاشرہ ایسا نہیں جہاں افراد کے درمیان اختلاف نہ پایا جاتا ہو اور یہ بھی نہیں کہ یہ اختلاف کبھی شدت بھی اختیار نہ کرتا ہو لیکن ہر معاشرے میں ایسے افراد ضرور ہوتے ہیں جو ہر مرتبہ بڑھتی ہوئی خلیجوں کو پاٹتے رہنے میں کامیاب ہوتے رہتے ہیں اور ماحول کے درجہ حرارت کو معمول پر لانے میں اپنا کردار خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

آج کل ساری دنیا میں سب سے زیادہ سلگتا ہوا مسئلہ مسلمانوں کا اپنے دین میں ”سخت مزاج“ ہونا شمار کیا جا رہا ہے اور ان کے اس استقلال کی وجہ سے، اقوام عالم ان کے لئے دو اصطلاحات ”شدت پسندی اور دہشت گردی“ استعمال کر رہی ہیں۔ مسلمانان عالم کا اپنے دین پر ثابت قدمی سے جمے رہنے اور اپنے دینی اصولوں سے کسی صورت انحراف نہ کرنے کو اقوام عالم نے جن دو اصطلاحات سے جوڑا ہے اگر ان پر غور کیا جائے تو نہ صرف یہ کہ یہ دونوں بے حقیقت ثابت ہوں گی بلکہ اقوام عالم، مسلمانوں سے کہیں زیادہ شدت پسند، غیر منصف، جابر، ظالم اور دہشت گرد دکھائی دیں گی اور اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ سامنے آئے گی کہ وہ فی زمانہ دنیا کے تمام مسلمانوں اور مسلمان ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور عسکری قوت کے لحاظ سے بہت آگے اور مضبوط ہیں۔

طاقت خواہ جسمانی ہو یا آپس کے اتحاد کی ہو یا علم کی ہو یا عسکری، قوموں اور ملکوں کو مغرور کر دیا کرتی ہے اور پھر اس کے نزدیک فرمان وہی ہوتا ہے جو وہ کہے، حکم وہی گنا جاتا ہے جو وہ جاری کرے، انصاف وہی ہوتا ہے جو وہ کسی کے پلڑے میں ڈالے اور اعتدال وہی ہوتا ہے جس کو وہ قرار دے دے۔

ہر وہ قوم اور ملک جو مذکورہ صفات سے محروم ہوتا ہے، ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ان درندوں کے سامنے ”اعتدال“ پسندی کا مظاہرہ کرے۔ اس کو سمجھا دیا جاتا ہے ہم خواہ تمہاری روایات کی تضحیک کریں، اللہ کی اتاری ہوئی کتابوں کو نذر آتش کریں، تمہاری عبادت گاہوں کو مسمار کریں، تمہارے اکابرین کا مذاق اڑائیں، تمہارے پیغمبروں کی بگڑی ہوئی شکلیں بنا کر ان کو (نعوذ باللہ) بدترین مخلوق کی صورت میں پیش کریں یا دنیا میں جہاں، جس جگہ اور جس وقت تمہارا خون بہائیں، تمہیں ذرہ برابر بھی چوں و چرا نہیں کرنی۔

پاکستان کے مسلمان حکمرانوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ ان کو اقوام عالم کی شدت پسندی بالکل بھی دکھائی نہیں دیتی۔ کیا مسلمان ممالک پر قابض ہو جانا، میانمار کے مسلمانوں کا قتل عام، ایغور کے مسلمانوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک، کشمیریوں پر بھارتی مظالم اور فلسطینیوں پر ظلم و زیادتی دکھائی نہ دینا جیسے واقعات کیا اقوام عالم کی اعتدال پسندی شمار کیے جانے کے قابل ہیں۔

ہمارے اکابر اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول ﷺ اور رسول کے پیارے ساتھیوںؓ سے محبت کرنے والوں کو یہ درس دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ شدت پسندی کا مظاہرہ نہ کریں۔ پاکستان کے محبان اسلام و رسول کو سمجھایا جا رہا ہے کہ آپ کو اس بات کا حق تو ہے کہ آپ اپنا دین و مسلک نہ چھوڑیں لیکن آپ کو اس بات کا کوئی حق نہیں کہ اپنے دین و مسلک کو کسی پر ”امپوز“ کریں۔

تھوڑی دیر کے لئے یہ بات مان بھی لی جائے کہ دین ”جبر“ کی تعلیم نہیں دیتا تو کیا بنا ”جبر“ (امپوز) ، پاکستان وجود میں آ سکتا تھا۔ کیا دنیا میں اسلام نافذ کیا جا سکتا تھا۔ کیا کفار کے چڑھ چڑھ کر آنے والے لشکروں کا مقابلہ کیا جا سکتا تھا۔ کیا 65 کی جنگ جیتی جا سکتی تھی اور کیا دنیا کے کسی بھی ملک میں انسانوں کے اپنے ہاتھوں بنائے قوانین پر عمل کروا کر ملک کی امن و امان کی صورت حال کو قابو میں رکھا جا سکتا تھا۔

جس جبر (امپوز) کو منع کیا گیا ہے وہ جبراً کسی کو اپنے مذہب میں شامل کرنا ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے ورنہ صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ”تم (ص) اسے نافذ کرو خواہ یہ انکار کرنے والوں کو کتنا ہی گراں گزرے“ ۔

ہم سوال کرتے ہیں کہ ریاست کی ”رٹ“ کسے کہتے ہیں، قانون پر عمل کرانا کس چڑیا کا نام ہے، یہ کرفیو کیا ہوتا ہے، یہ دفعہ 144 کیوں لگائی جاتی ہے، یہ جیلوں کو افراد سے کیوں بھرا جاتا ہے، یہ سولیاں کیا کہانیاں سنا رہی ہوتی ہیں اور ان سب سے بڑھ کہ کسی کو غدار کہہ دینا اور جماعتوں کو کالعدم قرار دے دینا کیا ہوتا ہے۔ کیا یہ سب جبر (امپوز) نہیں۔ بات بہت سیدھی سی ہے اور وہ یہ ہے کہ بنا جبر کسی بھی ملک کے نظام کو قابل عمل بنایا ہی نہیں جا سکتا لہٰذا ہر جبر جبر نہیں کہلایا جا سکتا۔

جب دنیا کا ہر ملک اپنے بنائے ہوئے آئین و قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے ہر قسم کا ریاستی جبر روا رکھنا ظلم و زیادتی تصور نہیں کرتا تو ایک ایسا قانون جو خالق حقیقی نے اپنی مخلوق (انسانوں ) کے لئے نازل کرنے کے بعد یہ فرما دیا ہے کہ ”تم (ص)“ پر فرض ہے کہ اسے نافذ کرو خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی برا لگے، تو پاکستان کے کسی حاکم اور کسی طاقتور ادارے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ان دیوانوں کو شدت پسندوں یا دہشت گردوں میں شمار کرے۔

یاد رہے کہ جو جو طاقتیں بھی ایسا کر رہی ہیں انہیں اس بات کا فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ کن کے ساتھ کھڑی ہیں، فرماں برداروں کے ساتھ یا انکار کرنے والوں کے ساتھ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments