موہنجو دڑو کے کنگ پریسٹ کی اداسی


موئن جو دڑو کے کنگ پریسٹ یا مہا پروہت کی مورتی کو ہم بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں، یہ مورتی وادی سندھ کی پانچ ہزار سال قدیم تہذیب و تمدن کی گواہ ہے۔

کنگ پریسٹ نے موئن جو دڑو، ہڑپہ، مہر گڑھ، ڈھول ویرا اور راکھی گڑھی سمیت وادی سندھ کی تہذیب کا عروج و زوال دیکھا ہے۔ مجھے اکثر کنگ پریسٹ کی نیم خوابیدہ آنکھوں میں خاموشی اور اداسی نظر آئی ہے۔ تنہائی میں سوچا تو یہ خاموشی اور اداسی مجھے اپنا وہم محسوس ہوئی۔

میں نے موئن جو دڑو کی گلیوں میں جانے سے پہلے اکثر کنگ پریسٹ کی ادھ کھلی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی۔ داڑھی والے چہرے پر ایک عجب نور دیکھا، کاندھے پراجرک سے مشابہ تین پتیوں والی چادر اوڑھ کر وہ پرسکون نظر آئے۔ کبھی کبھی جب کھنڈرات لوگوں سے خالی ہو جاتے تو میں ان کے پاس چلا جاتا۔ دیرتک انہیں دیکھتا رہتا۔ ایک بار کنگ پریسٹ نے پلکیں مچکائیں۔ میں چونک گیا۔ میری حیرانی کی حد نہ رہی۔ اس دن کے بعد مجھے جب بھی موقع ملا، میں ان کے پاس چلا جاتا۔

آج شام میں ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا۔ وہ مجھے افسردہ دکھائی دیے۔ آنکھیں میچے ، چپ چاپ، گہری سوچ میں گم۔ پھر انہوں نے پہلی بار سرگوشی کی۔

”آپ کچھ کہہ رہے ہیں۔ میں سن نہیں پا رہا ہوں۔ ؟“ میں نے حیرانی سے کہا۔

مجھے لگا وہ حالیہ تین افراد کی طرف سے لعنتیں بھیجنے کے واقعے کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے افسردہ بھی ہیں۔

” کیا آپ حالیہ واقعے سے دکھی ہیں؟“ میں نے پوچھا۔

” کون سا ۔ وہ لعنت بھیجنے والی تصویر۔ نہیں نہیں۔ وہ تو ایک تصویر بن گئی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں، مجھے اس پر افسوس نہیں لیکن جو مقدمہ درج ہوا جس میں توہین اور مذہبی جذبات مجروح ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یہ زیادہ ہو گیا۔“ انہوں نے کہا۔

”یہ حرکت توہین کے زمرے میں آتی ہے۔ انہوں نے صرف آپ کی ہی نہیں بلکہ ہماری قدیم تہذیب و تمدن کی توہین و تذلیل کی ہے۔“ میں نے کہا۔

” کس کس پر مقدمات درج کرو گے۔ ویسے یہ کوئی تذلیل نہیں ہے۔ یہ ایک سوچ ہے جس پر بندش نہیں لگائی جا سکتی۔“ کنگ پریسٹ گویا ہوئے۔

” ایسی سوچ کو سختی سے ختم کیا جا سکتا ہے!“ میں نے کہا۔
” نہیں اس طرح ختم نہیں کر سکتے۔ اس کے عوامل تلاش کرو۔“ انہوں نے کہا۔
” آپ ہی بتا دیں۔ وہ کون سے عوامل ہیں۔ ؟“ میں نے پوچھا

”میرے خیال میں تین چار وجوہات ہیں۔ اول جہالت، دوم آتنک واد، سوم ایسی سوچ جس نے جڑیں اپنی مٹی کے بجائے کہیں اور جوڑ رکھیں ہیں اور چہارم عدم برداشت۔“

کنگ پریسٹ ایک لمحے کے لئے خاموش ہوئے اور پھر کہنے لگے۔ ”جب تک جہالت ختم نہیں ہو گی، علم و شعور نہیں آئے گا۔ تب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔“

” آپ ٹھیک کہتے ہوں گے ۔ لیکن یہ گھٹیا حرکت کرنے والوں کو سزا ضرور ملنی چاہیے۔“ میں نے کہا۔

” میں یا سمبھارا ( ڈانسنگ گرل) ہم ایک علامت ہیں۔ اس لعنت سے ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ ویسے لعنت کی سزا لعنت ہی ہو سکتی ہے ناں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہونا چاہیے۔“ کنگ پریسٹ نے کہا۔

میں ان کی بات سن کر خاموش ہو گیا۔ مجھے یوں چپ دیکھ کر وہ کہنے لگے۔

”سابق سوویت یونین یاد ہے ناں۔ لینن گراڈ سمیت روس اورسابق فیڈریشن میں جہاں جہاں لینن کے مجسمے تھے ان کو گرا دیا گیا۔ کیا اس عمل سے لینن کی شخصیت پر کوئی خراب اثر پڑا۔ افغانستان کے صوبے بامیان میں گوتم بدھ کے بڑے بڑے مجسمے طالبان نے توڑ دیے۔ کیا اس عمل سے بدھا کی شان میں کمی واقع ہوئی۔ چلو باقی دنیا کو چھوڑو لاہور کے کنگا رام اسپتال کے باہر جو سر گنگارام کی مورتی لگی تھی ، اس کو توڑ کر ہٹا دیا گیا۔ کیا اس عمل سے سر گنگا رام کی شخصیت فراموش ہو گئی؟“ کنگ پریسٹ نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی۔

میں ان کی باتیں سن کر خاموش ہو گیا۔ کوئی دلیل نہیں سوجھ رہی تھی۔ مجھے یوں الجھا ہوا دیکھ کر وہ بولے۔

” یہ سلسلہ جو شروع ہوا ہے۔ یہ اگر بڑھ گیا تو۔ ؟ اس بار تین لوگ تھے اگلی بار اگر بھیڑ آ گئی تو پھر کیا کرو گے؟“ کنگ پریسٹ نے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ میں ان کی بات پر غور کرنے لگا۔ مجھے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ میں کیا کہوں۔ کیونکہ جو کنگ پریسٹ نے کہا تھا یہ بعید تو نہیں! ”

” مجھے یوں الجھا ہوا دیکھ کر وہ خود ہی بول پڑے“ اگر اس طرح کے واقعات دوبارہ ہوں تو مجھے ہٹا دینا۔ ویسے بھی پاکستان میں بتوں کی ضرورت نہیں۔ ”

” مطلب اور کچھ نہیں ہو سکتا ؟“ میں نے مایوسی سے کہا۔

میری بات کا کوئی جواب نہیں ملا۔ کنگ پریسٹ کی طرف دیکھا تو وہ آنکھیں موند چکے تھے۔ سورج غروب ہو چکا تھا اور گیروا رنگ شفق پر ہلکا ہلکا نمایاں تھا۔ میں کنگ پریسٹ کو سلام کر کے کھنڈرات سے نکل آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments