آگ ابھی بجھی نہیں


دنیا بھرمیں ماہ رمضان کا آغازدعاؤں، نعمتوں اور رحمتوں سے ہوا۔ لیکن پاکستان میں خیر سے اس بابرکت ماہ کا آغاز دے مار ساڑھے چار، ڈنڈے، گولیوں، مظاہروں، گرفتاریوں اور تحفظ ناموس رسالت کے نام پر جنم لینے والی جماعت کے امیر کو گرفتار کرنے کے بعد مذہبی جماعت کو کالعدم قرار دے کر کیا گیا۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے والے وزیرداخلہ (جو کہ سال دوہزارسترہ میں فیض آباد میں دیے جانے والے دھرنے کی حمایت میں پیش پیش تھے) نے سوشل میڈیا بند کرنے پر معافی بھی مانگ لی، مذاکرات کے بعد کالعدم قرار دی گئی جماعت کے سربراہ کو رہا بھی کر دیا گیا اور فرانس کے وزیر کے خلاف قرارداد لانے کی ہامی بھی بھر لی گئی۔

ارے بھئی! یہ ہی سب کچھ کرنا تھا تو اتنا اودھم مچانے کی کیا ضرورت تھی؟ بقول وزیراعظم کے فرانس کے ساتھ سفارتی تعقات ختم کرنے سے پاکستان کو نقصان ہو گا، یورپی یونین سے تجارتی تعلقات ختم ہو جائیں گے، فیٹف کی تلوار ہمارے سر پر لٹک رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو کیا یہ بات حکومت کو اس وقت نہیں پتا تھی جب تحریک لبیک سے فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے؟ اور جب وزیراعظم کے مطابق دو ماہ سے ٹی ایل پی سے مذاکرات چل ہی رہے تھے تو پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ گھبرا کر آپ نے تحریک کے امیر کو ہی گرفتار کر لیا۔

یہ ہی نہیں کارکنوں کے خلاف آپریشن کیا، گولیاں چلائیں، گرفتاریاں کیں، قیمتی جانیں ضائع کیں، عوام کو اذیت میں ڈالا، سوشل میڈیا بند کیا۔ اور وہ جو کہتے تھے کہ حکومت منت سماجت نہیں کرتی، ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا، قانون اور ریاست سے بڑھ کر کچھ نہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پھر کیا ہوا وہی ہوا جو کل سب نے دیکھا یعنی کالعدم قرار دینے کے بعد ٹی ایل پی کے پھر ترلے کیے گئے، فرانس کے سفیر کو نکالنے کی قرارداد کا معاہدہ بھی سامنے آ گیا۔

گزشتہ پانچ چھے روز کے دوران ہم نے دیکھا کہ ملک میں ریاست اور حکومت نام کی کوئی شے دھونڈنے سے بھی نظر نہیں آئی۔ جس طریقے سے اس سارے معاملے پر حکومت نے ردعمل دیا اور اس کا جو نتیجہ نکلا ، وہ ہمارے سامنے ہے اور یقیناً آنے والے دنوں میں ہمیں مزید بھگتنا پڑے گا۔ نااہل حکومتی وزراء کی غلط پالیسیوں کے ملک میں جو تماشا لگا، وہ نہ صرف ہمارے لیے بلکہ حکومت اور ریاست کے لمحۂ فکریہ ہے۔

جس طرح اس پورے معاملے کو الجھایا گیا، اس میں سب سے بڑا جرم موجودہ حکومت کا ہے۔ ابھی تو بیس اپریل آنے میں کئی روز باقی تھے۔ صرف ایک اعلان پر حکومت نے ایسی جماعت کے سربراہ کو گرفتار کر لیا جو اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مذہبی مکتب فکر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں ستر فیصد عوام بریلوی مکتب فکر کو فالو کرتے ہیں۔ اور اس مکتب فکر کی بھی سب سے زیادہ ڈائنامک جماعت ٹی ایل پی ہے۔

ایک طرف حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو قومی دھارے میں لانے کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف جب ایک جماعت جو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے، انتخابات میں ووٹ لے کر پارلیمنٹ کا حصہ بنی ہے اور اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرتی ہے تو اس کے سربراہ کو گرفتار کر کے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جماعت کو کالعدم قرار دیتے ہیں۔ لگتا ہے ہمارے بھولے وزیرداخلہ دہائیوں سے قانون ساز اسمبلی کا حصہ ہونے کے باوجود ملک کے آئین اور قانون سے تاحال بے خبر ہیں کہ کسی بھی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے لیے آئین میں طریقہ کار موجود ہے۔

اس طرح تو اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ریاست اپنے دشمن خود پیدا کر رہی ہے جیسا کہ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا کہ ماڈل ٹاؤن اور لال مسجد میں کیے گئے آپریشنز کے نتائج دہائیوں تک ملک میں خودکش حملوں کی صورت میں بھگتنا پڑے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔

حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ ٹی ایل پی نہ وہ جماعت ہے اور نہ ہی وہ مکتب فکر کہ جس کے خلاف ردالفساد اور ضرب عضب جیسے آپریشن کر کے معاملہ رفع دفع ہو جائے بلکہ اب اگر معاملہ بڑھا تو یہ صرف ٹی ایل پی نہیں بلکہ غیرعلانیہ طور پر نہ صرف پورا بریلوی مکتب فکر بلکہ پاکستان میں رہنے والا ایک عام مسلمان بھی ان کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ کیونکہ اب معاملہ ناموس رسالت کا ہے جو کہ ہر مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے۔

اگر حکومت سمجھتی ہے کہ وقتی طور پر ٹی پی ایل کو دبا لینے سے یا پھر وقتی طور پر مذاکرات سے معاملات حل ہو جائیں گے تو حکومت یہ بات یاد رکھے کہ آگ ابھی بجھی نہیں ہے۔ گزشتہ چند روز میں جو ہوا وہ ایک ٹریلر تھا، فلم تو ابھی باقی ہے سرکار! کیونکہ ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ حکومت کی جانب سے کیا گیا تھا۔ وعدہ خلافی کی صورت میں تحریک لبیک کی جانب سے جو کچھ ردعمل دیا گیا تو اس کے لیے حکومت کو یاد رکھنا ہو گا کہ ان عناصر کی پرورش اور ذہن سازی کی ذمہ دار بھی خود ریاست ہی ہے۔

اب یہ حکومت اور ریاست ہی کی ذمہ داری ہے کہ اپنے پروان چڑھائے گئے عناصر کو اس ذہن اور تربیت کی مطابق افہام و تفہیم سے حل کرے۔ ورنہ آگ کو آگ سے بجھانے کی کوشش پورے ملک کو آگ میں دھکیل سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments