نارسائی کا دکھ


فریدہ کوآج ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا، وہ اپنے بھتیجے کی شادی پر آئی تھی۔ اس کا شوہر اور بچے واپس جا چکے تھے، لیکن بھائی کے بے حد اصرار پر وہ کچھ دنوں کے لیے رک گئی تھی۔ ویسے بھی گھر داری کے جھمیلوں سے فرصت کہاں ملتی ہے، اس لئے اس نے بھی سوچا کچھ دن فرصت میں گزار لوں۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد وہ کمرے میں آ کر لیٹ گئی تھی، گھر کی ملازمہ بشیراں اس کے پاؤں دبا رہی تھی، اور وہ سکون سے آنکھیں موندھے لیٹی ہوئی تھی۔

تھوڑی دیر بعد باہر برآمدے سے شبو میراثن کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی، وہ بھابھی کو بتا رہی تھی، بی بی جی غضب ہو گیا، ساتھ والے گاؤں کے چوہدری وقار کا انتقال ہو گیا ہے ، انہیں اچانک دل کا دورہ پڑا لیکن ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئے۔ فریدہ ایک دم اٹھ کے بیٹھ گئی، ایسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے کانوں میں ابلتا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہو، اس نے بشیراں کو باہر جانے کو کہا اور دروازے کی چٹخنی لگا دی۔

اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، اور وہ اپنی درہم برہم ہوتی سانسوں کے ساتھ بے یقینی کے عالم میں کمرے میں ادھر سے ادھر چکر لگا رہی تھی۔ اس کے کانوں ایک ہی نام کی گونج سنائی دے رہی تھی، چوہدری وقار اس دنیا میں نہیں رہا، اس نام نے اس کے آسودہ وجود میں ایک طوفان برپا کر دیا تھا، وہ یہ نام کیسے بھول سکتی تھی جو پچھلے پچیس سالوں کے گزرتے روز و شب میں مدھم پڑ گیا تھا، لیکن اس کے دل و دماغ سے مٹا نہیں تھا۔

اس نام کے ساتھ جڑے وہ اذیت ناک لمحے تروتازہ ہو کر اس وقت اس کے سامنے یوں کھڑے تھے جیسے کل کی بات ہو۔ جن لمحوں میں اس کا دل ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گیا تھا، اور اپنے زخمی اور کرچی کرچی وجود کو سمیٹنے میں کئی سال لگ گئے تھے۔ جس دکھ اور درد کو تھپکیاں دے دے کر وہ اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں چھپا چکی تھی، وہ آج پھر اس کو لہولہان کر رہے تھے۔ وہ دوبارہ لیٹ گئی تھی، اس نے اپنی آنکھیں زور سے موندھ رکھی تھیں، وہ سب کچھ بھول جانا چاہتی تھی، لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سوچوں کے دھارے پر بہتی ہوئی کئی سال پیچھے چلی گئی تھی۔

وہ کتنا خوبصورت دن تھا، کیسی حسین گھڑیاں تھیں، جب اس کو دلہن بنایا جا رہا تھا، ہاتھوں میں لگی پیا نام کی مہندی دیکھ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں جگنو چمک رہے تھے، اس کا دل پیا ملن کے گیت گا رہا تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا، جس کو اس نے دل و جان سے چاہا تھا وہ آج اس کا ہونے جا رہا تھا۔ چوہدری وقار سے اس کی ملاقات اپنے خاندان کی کسی شادی پر ہوئی تھی، اور وہ اس گوری چٹی الہڑ مٹیار کو دیکھتے ہی دل ہار بیٹھا تھا۔

وہ بھی من ہی من میں اسے اپنا مان چکی تھی، برادری ایک ہونے کی وجہ سے رشتہ طے ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ فریدہ کا باپ اگر گاؤں کا چوہدری تھا تو وقار کا باپ بھی گاؤں کا نمبردار تھا، اس خوش اسلوبی سے، بڑی دھوم دھام کے ساتھ منگنی کی رسم ادا کر دی گئی۔ اور فریدہ کا سسر جلد ہی شادی کی تاریخ طے کرنے کا کہہ گیا، فریدہ بہت خوش تھی اس نے جو چاہا اسے پا لیا تھا۔ جلد ہی شادی کی تاریخ مقرر کر دی گئی۔ فریدہ اور اس کی بڑی بہن کی شادی ایک دن ہی رکھی گئی تھی۔ دونوں بہنیں بہت خوش تھیں اور زور و شور سے شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔

آخرکار شادی کا دن آ گیا، انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے والی تھیں۔ دونوں بہنوں کو دلہن بنایا جا رہا تھا، آج فریدہ پہ ٹوٹ کے روپ آیا تھا، باہر شادیانے بج رہے تھے، دونوں باراتیں پہنچ چکیں تھیں اور بڑی شان و شوکت کے ساتھ باراتیوں کا استقبال کیا جا رہا تھا۔ شہنائی کی گونج نے فریدہ کے دل میں ہلچل مچا دی تھی، اس کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی حالانکہ اب تو ہجر کی گھڑیاں وصل میں بدلنے والی تھیں، پھر نجانے یہ بیقراری کیوں تھی۔ سکھیاں سہیلیاں دونوں بہنوں کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں دونوں بہنوں کا نکاح ہونے والا تھا۔

اچانک باہر صحن سے سے کسی کے اونچا اونچا بولنے کی آوازیں آنے لگیں، کمرے میں موجود سب باہر سے آتی آوازوں کی طرف متوجہ ہو گئے، فریدہ کی بھابھی کی آواز سنتے ہی گویا سب کو سانپ سونگھ گیا، وہ کسی کو بتا رہی تھی، کہ فریدہ کے سسر اور فریدہ کے باپ کا حق مہر پر اختلاف ہو گیا ہے اور بات بڑھتے بڑھتے تو تکار تک جا پہنچی ہے۔ اللہ خیر کرے اور بات ادھر ہی ختم ہو جائے۔ فریدہ کو ایسا لگا جیسے کوئی انہونی ہونے والی ہے، اس کو ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے اور اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس کی بہن اور سہیلیاں سب اس کو تسلی دے رہے تھے، گھبراؤ نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔

اور پھر وہ ہو گیا جو کسی کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا۔

اختلافات اس نہج تک جا پہنچے کہ فریدہ کے باپ نے نکاح نہ کرنے اور بارات واپس لے جانے کا حکم صادر کر دیا۔ پھر پوری برادری کی منت سماجت اور ترلے اس ضد اور انا کے سامنے ماند پڑ گئے۔ فریدہ کے سسرال والوں کی معافیاں بھی کسی کام نہ آئیں، لڑکے کا باپ بھی اکڑ گیا اور فریدہ کے باپ کو برملا کہہ دیا، میں واپس تو جا رہا ہوں، لیکن اپنے بیٹے کا بیاہ آج ہی کروں گا تم دیکھ لینا۔ ہر طرف عجیبب سا سناٹا چھا گیا تھا، لوگ سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔

فریدہ پہ سکتہ طاری ہو گیا تھا، اس کا پورا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔ گھر کی سب عورتیں اسے سنبھالنے میں لگیں تھیں، اس کی تو دنیا لٹ گئی تھی، وصل کی گھڑیاں قریب آتے آتے نہ ختم ہونے والے ہجر میں بدل گئیں تھیں۔ بڑی بہن کے سسرال والے اصرار کر رہے تھے کہ نکاح جلدی شروع کریں تاکہ وہ وقت پہ واپس پہنچ جائیں۔ لیکن فریدہ کا باپ چوہدری نور محمد کچھ اور ہی سوچ رہا تھا، وہ بڑی بیٹی کے سسر کو ایک کونے میں لے جا کر بڑی رازداری کے ساتھ کوئی بات کر رہا تھا۔

پھر ان دونوں نے مل کر وہ فیصلہ کیا، کہ جس نے بھی سنا وہ انگشت بدنداں رہ گیا۔ چوہدری نور محمد نے فیصلہ سنایا، کہ اب میری بیٹی فریدہ کا نکاح بڑی بیٹی کے منگیتر سے ہو گا، اگر وقار کا باپ اس کی شادی آج ہی کرے گا تو فریدہ کی شادی بھی آج ہی ہو گی، یہ کیسی انہونی تھی، کیسا ظلم تھا، کیسی سزا تھی جو ایک باپ اپنی دوسری بیٹی کے لیے سنا رہا تھا جو دلہن بنی بیٹھی تھی، جس نے منگنی کے بعد اس انجان شخص کو اپنا سب کچھ مان لیا تھا۔

ایک بیٹی کی آنکھوں سے تو اس کے خوبصورت خواب نوچ کے پھینک چکا تھا اور اب دوسری بیٹی کا تماشا بنانے کے درپے تھا۔ فریدہ اور اس کی بہن پر یہ خبر قیامت بن کر ٹوٹی تھی، فریدہ جو پہلے ہی ہوش و حواس کھو چکی تھی، اب اس ظلم پر نوحہ کناں تھی، ہر آنکھ اشکبار تھی، تھوڑی دیر پہلے جس گھر میں شادیانے بج رہے تھے وہاں ایک سکوت طاری تھا، فریدہ کی ماں بھی بلک بلک کر رو رہی تھی، فریدہ کے باپ کے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھی یہ ظلم مت کرو، لیکن باپ نے تو فیصلہ سنا دیا تھا، لڑکے والے بھی راضی ہو گئے تھے، باپ نے بیٹیوں کے پاس آ کر بڑی سنگدلی سے کہہ دیا، کہ جو میں نے کہا ہے ویسے ہی ہو گا ورنہ تم لوگ میرا مرا ہوا منہ دیکھو گے، بس پھر ہمیشہ کی طرح بیٹیوں نے اپنے سب اختیارات باپ کے قدموں میں ڈال دیے، اور سولی پر چڑھ گئیں، وہ جو باپ کے سامنے آنکھ اٹھا کر بات نہیں کر سکتیں تھیں ، باپ سے اختلاف کی ہمت کہاں سے لاتیں۔

اس وقت باپ کو اپنی بے بس سسکتی بلکتی بیٹیوں کا کوئی دکھ نہیں تھا، اسے صرف اپنی انا، اور پگڑی کا شملہ اونچا رکھنے کا زعم تھا۔ پھر وہ ہو گیا جو وہ چاہتا تھا، یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی، لیکن چاہتے ہوئے بھی کوئی اس انہونی کو نہ روک سکا۔ چند لمحوں میں سب کچھ بدل گیا تھا، ایک دلہن بنی اپنے لہولہان ارمانوں کو اپنے اندر دبا کے رہ گئی تھی اور دوسری اپنب سب کچھ لٹا کر کسی اور کی ڈولی میں بیٹھ کر رخصت ہو گئی تھی جو اس کی اپنی سگی بہن کے لئے سجائی گئی تھی۔ ان کے اپنے باپ نے ان دونوں بہنوں کو اپنی جھوٹی انا کے بھینٹ چڑھا دیا تھا، فریدہ خود کو اپنی بہن کی خوشیوں کا قاتل سمجھ رہی تھی، دونوں بہنوں کے خوبصورت سپنے ان کے باپ کی ضد اور جھوٹی انا پر قربان ہو گئے تھے۔

فریدہ کے آنسو مسلسل گر رہے تھے اور اس کا تکیہ بھگو رہے تھے، اچانک کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور آواز دی، فریدہ کھانا کھا لو، اس کی بھابھی بلا رہی تھی، وہ تڑپ کر اٹھ کے بیٹھ گئی، اس نے بیک جھرجھری لی اور ہوش و حواس بحال کیے ۔ اس کو احساس تک نہ ہوا تھا، کہ وہ چند لمحوں میں کئی سال پیچھے چلی گئی تھی، اپنے جس دکھ درد کو جس انہونی کو وہ تھپک تھپک کر سلا چکی تھی، پھر تیس سال بعد یہ دبی ہوئی چنگاری کیسے سلگ اٹھی تھی اور اس کے جسم و جاں کو جلا کر رکھ دیا تھا۔

فریدہ نے اپنی آنکھوں کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا، مبادہ کہ اس کا دکھ کسی پر آشکار نہ ہو جائے، اب وہ ایک وفا شعار بیوی تھی ایک محبت کرنے والی ماں تھی۔ اس کو اب بھی اپنے درد کو اپنے اندر ہی دفن کر دینا تھا جیسے اس نے رشتوں کی لاج رکھنے کے لئے کئی سال پہلے کیا تھا۔

وہ آج بھی اتنی ہی بے بس اور مجبور تھی، جیسے کئی سال پہلے تھی اور اپنی آرزوؤں اور خوشیوں کو پس پشت ڈال کر باپ کی ضد کے آگے ہار مان لی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments