اویس احمد متخلص بہ محتاط کے لئے دعائے صحت



ایک دوست نے اطلاع دی کہ وہ کرونا کا شکار ہو گئے ہیں۔ پہلے ان کی بیگم صاحبہ اور اب وہ خود۔ بقول شخصے وہ اتنی احتیاط کرتے تھے کہ تین وقت کلیاں بھی ڈیٹول سے اور روٹی بھی سینیٹائز کر کے کھاتے رہے ہیں۔

احتیاط کا تو یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ وسی بابا ان کے لئے پشاور سے کوئی تبرک لے کر آیا اور میرے پاس چھوڑ گیا کہ وہاں سے لے لینا۔ موصوف آدھی رات کو اپنی موٹر سائیکل پہ تشریف لائے ساتھ ان کی بیگم صاحبہ بھی تھیں لیکن فون گھر پر رکھ آئے تھے پوچھا تو پورے اعتماد سے جواب دیا ”کہ کرونا ہے فون کو لگ جاتا ہے۔“ پوچھا اگر موٹر سائیکل کو یا آپ کی بیگم صاحبہ کو لگ گیا تو؟ یوں مسکرا دیے جیسے کہنا چاہتے ہوں ؀ ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر۔ خیر جلدی جلدی ان کی امانت ان کے حوالے کی کہ اگر خدانخواستہ کرونا لگ گیا تو انہوں نے کہنا تم نے لگا دیا تھا۔

گروسری کو تین دن گھر سے باہر رکھ کر ڈیٹول، فنس اور نہ جانے کون کون سی الا بلا سپرے کر کے سوکھنے دیتے ہیں۔ جب سبزی پھل میں فنگس اور دوسری اشیا کی چوری کا خطرہ پیدا ہو تو اٹھا کر گھر لے کر جاتے ہیں۔ پھر بھی اشیا خورونوش دو تین قسم کے دستانوں کی تبدیلی کے بعد ان کی فریج تک پہنچنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔

گھر میں کوئی فرد آدھی رات کو بھی چھینک یا کھانس دے تو اس فرد سمیت علاقے کی ساری لیبارٹریوں کی کم بختی آجاتی ہے۔ صرف کرونا ٹیسٹ پر اکتفا نہیں، ایکسرے، خون، پیشاب سب ٹیسٹ کروا چھوڑتے ہیں۔ اسی لئے ان کی والدہ نے ایک دن کہا کہ بیٹا کرونا مارے نہ مارے تو نے مار دینا ہے۔

ٹی وی اور انٹرنیٹ پر ہر وقت اعداد و شمار بھی کرونا سے متعلق ہی اکٹھے کرتے رہتے ہیں۔ جس محلے یا سیکٹر میں کرونا کی اطلاع ہو وہاں سے دو سیکٹر چھوڑ کے سفر کرتے ہیں۔ عام حالات میں اگر دو ماسک تو اس دن تین پہن لیتے ہیں اور ہر پانچ منٹ بعد موٹر سائیکل کھڑی کر کے ہاتھ سینیٹائز کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک دن ان کے پیچھے پولیس لگ گئی کہ بندہ کوئی مشکوک ہے، کوئی واردات نہ کردے۔

کسی کی کال آ جائے تو فون اٹھانے سے پہلے اور رکھنے کے بعد سپیکر کو سینیٹائز کرتے ہیں۔ اس پہ بھی تسلی نہیں ہوتی تو آیت الکرسی اور تینوں قل پڑھ کر اپنے اور فون کے اوپر پھونکتے ہیں۔

پہلے ہماری بھابھی یعنی ان کی بیگم کو کرونا ہوا تو انہوں نے اپنے آپ کو کورنٹین کر لیا یہ رات کو کئی دفعہ ان کو سوتے میں اٹھا کر نیند کی گولی کھلانے ان کے کمرے میں جاتے رہے۔ ان کا ماننا تھا کہ میاں بیوی کو آپس میں کرونا منتقل نہیں ہوتا میں پوری احتیاط کرتا ہوں۔ آج یہ پرسوز خبر سننے کو ملی کہ موصوف تمام احتیاطوں کے باوجود کرونا کا شکار ہو گئے ہیں۔ اب نام کیا بتانا بس یہی کہیں گے اللہ اویس احمد کو صحت کاملہ سے نوازے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments