پاکستانی منٹو۔ بھارتی منٹو


سعادت حسن منٹو 1912 میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے اور 18 جنوری 1955 کو لاہور میں وفات پائی۔ ان کے والد غلام حسن منٹو ذات کے کشمیری اور امرتسر کے محلہ وکیلاں کے باسی تھے۔ منٹو اپنے گھر میں ایک سہما ہوا بچہ تھے جو سوتیلے بہن بھایؤں کی موجودگی اور والد کی سخت طبیعت کی وجہ سے اپنا آپ ظاہر نہ کر سکے۔ وہ ابتدا ہی سے سکول کی تعلیم کی طرف مائل نہ تھے چنانچہ میٹرک میں تین بار فیل ہونے کے بعد کہیں کامیابی نصیب ہوئی۔ پھر مزید تعلیم کا سلسلہ بھی رہا۔ اور پھر افسانہ نویسی کا دور آیا۔

انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں، بو شامل ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اور خاکے، ترجمے اور ڈرامے شائع ہو چکے ہیں۔ اور کئی کئی بار شائع ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔

منٹو، اردو ادب کا وہ قد آور ادیب ہے جس کی تحریریں آج بھی ذوق شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ وہ ایک صاحب اسلوب نثر نگار تھے۔ ان کے افسانے، مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت کے حامل ہیں۔ وہ ایک معمار افسانہ نویس تھے جنہوں نے اردو افسانے کو ایک نئی راہ دکھائی۔ منٹو کی زندگی بذات خود ناداری، انسانی جدوجہد، بیماری اور ناقدری کی ایک المیہ کہانی تھی

ان کے افسانے محض واقعاتی نہیں بلکہ ان کے بطن میں تیسری دنیا کے پسماندہ معاشرے کے تضادات کی داستانیں موجود ہیں۔

منٹو کو اپنے زمانے میں ترقی پسندوں اور رجعت پسند وں، سب سے مسئلہ تھا کیونکہ منٹو کو وہ سب سٹیٹس کو کے حامی لگتے تھے۔ انہیں لگتا تھا ان سب کا زاویہ نظر یک رخی ہے۔ اس لیے ان کی دونوں سے نہیں بن رہی تھی۔ دونوں ایک ادیب کی آزادی کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کوئی مذہبی اخلاقیات کو لے کر اور کوئی مریضانہ جنسیت جیسی گمراہ کن اصطلاح کا سہارا لے کر منٹو کے وفور تخلیق کے آڑے آنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔

پاک ٹی ہاؤس میں حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں افسانہ پڑھنے کے بعد منٹو واپس آرہے تھے تو گورنمنٹ کالج لاہور میں لٹریری سوسائٹی کے صدر طالب علم نے منٹو سے سوال کیا کہ ان کے افسانوں میں اتنی مایوسی کیوں ہے؟ منٹو کا جواب تھا جب یاس اور نا امیدی کا ماحول بنا ہوا ہے تو وہ کیسے ترقی پسندوں کی طرح امید پرست ماحول دکھا سکتے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ اس زمانے میں ترقی پسند افسانہ نگاروں نے فسادات کے زمانے میں جب کسی سکھ عورت یا سکھ مرد یا پورے سکھ گھرانے کو کسی مسلمان کے ہاتھوں بچاتے ہوئے دکھایا یا حفاظت سے سرحد پار پہنچاتے ہوئے دکھایا یا ان کی خاطر اپنی جان داؤ پہ لگاتے ہوئے دکھایا یا اس کے الٹ دکھایا کیا وہ حقیقت کی عکاسی نہیں تھی؟ یا منٹو اپنے افسانوں میں جو کچھ دکھا رہا تھا کیا وہ حقیقت کے خلاف تھا؟ کیا وہ میلوڈراما تھا؟

میرے خیال میں دونوں طرح کے افسانے حقیقت کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کر رہے تھے۔ یہ بھی درست ہے کہ جس زمانے میں منٹو سانس لے رہا تھا اس زمانے میں انسان دوستی کے مظاہر اتنے کم اور اس قدر دھندلے پڑگئے تھے کہ وہ ایک طرح سے معدوم ہی لگ رہے تھے، ان کے مقابلے میں غیر انسانی سلوک، وحشت، بربریت اور درندگی کا دائرہ بہت بڑا تھا اور جگہ جگہ اس کے مظاہر دیکھنے کو مل رہے تھے۔

منٹو مجھے اپنے عہد کے ادیبوں، دانشوروں، لکھاریوں میں اس لیے سب سے بڑا اور منفرد نظر آتا ہے کہ اس نے انسانوں کو انفرادی لحاظ سے یا ان کے گروہی کردار کو ان کے اپنے اوپر لگائے ٹیگ (ترقی پسند، اسلام پسند، ہندو، مسلمان، کرسچن، پارسی، یہودی، ملا، کامریڈ، روشن خیال، آریہ سماجی، شیعہ، سنی) ہٹا کر ان کے اندر جھانکنے کی کوشش اور ان کے کردار اور اعمال کو دکھایا اور یہ فیصلہ پڑھنے والے پہ چھوڑ دیا کہ وہ ان کے ٹیگ اور ٹیگ کے پیچھے مواد کے درمیان ہم آہنگی دیکھتا ہے یا ان کو باہم متضاد پاتا ہے۔

منٹو کی تحریروں پر ہمارے نامور ادیب بہت کچھ لکھ چکے ہیں اور میں اس میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتا۔ ویسے تو پبلشر حضرات نے منٹو کے کام کو بار بار شائع کر کے اپنی جیبیں بھر لی ہیں، نامعلوم رائلٹی بھی دیتے رہے ہیں یا نہیں لیکن مجھے تو ان دو فلموں پر بات کرنی ہے جو منٹو پر پاکستان اور بھارت میں بنائی گئی ہیں۔

پاکستانی فلم منٹو۔ از سرمد کھوسٹ

آج کے دور میں ایک اچھی فلم بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ خاص طور پر اگر یہ فلم کسی مشہور و معروف شخص کی زندگی پر ہو۔ منٹو کی زندگی کے آخری ایام بذات خود ایک درد بھری داستان ہیں۔ سرمد کھوسٹ نے اس دکھ بھری داستان کو فلم کے میڈیم کے ذریعے پیش کرنے کی نھر پور کوشش کی لیکن یہ کہانی ایک کامیاب المیہ ڈرامے کی ضرورت پوری نہیں کر سکی۔ سرمد نے اس فلم کی کہانی، منٹو کے با لکل آخری کچھ برس، غالباً سات آٹھ برس سے شروع کی ہے جب وہ مومبئی میں ایک کامیاب دور گزارنے کے بعد 1948 میں پاکستان چلے آئے تھے۔ فلم میں دکھایا گیا زمانہ وہی ہے جب منٹو کے افسانوں پر سات سال میں تین مقدمے بنائے گئے تھے۔

فلم کے پہلے حصے میں اس وقت کی مشہور شخصیات، فلم ساز شوکت حسین رضوی، ایوبی آمریت کے بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب، منٹو کے بھانجے حامد جلال کا ذکر ملتا ہے اور ہاں، اس وقت کی، بلکہ ہر وقت کی مشور گلوکارہ، اور فلم آرٹسٹ، جو بعد میں ملکہ ترنم کہلوائیں کا ذکر سب پر بھاری رہا۔ یہ سب منٹو کی زندگی کے حقیقی کردار تھے۔ ان سب میں سے نور جہاں کا ذکر اور اس کی مختلف مصروفیات کی عکاسی منٹو کی تحریر ”نور جہاں سرور جہاں“ سے کہیں بڑھ کر کر دی گئی ہے۔

شاید فلم کے ”مقبول عام“ ہونے کی وجہ، منٹو کی زندگی سے بڑھ کر نور جہاں کی ذاتی زندگی (جسے مرچ مصالہ زیادہ لگایا گیا) کی عکاسی ہے۔ اور ستم کی بات یہ بھی ہے کہ صبا قمر اس کردار کو درست طریقے سے پیش ہی نہیں کر سکیں۔ وہ یقیناً بے بی نور جہاں کے دور سے میڈم نور جہاں کے سفر کے بارے میں کچھ نہیں جانتیں۔ شاید سنی سنائی کو زیادہ دھیان میں رکھا ہے۔ لے دے کہ ثانیہ سعید نے منٹو کی بیوی صفیہ کا کردار اچھا نبھایا ہے لیکن ان کے پاس اداکاری کے جوہر دکھانے کے لیے گنجائش ہی کم تھی۔

منٹو جیسی خالص ادبی شخصیت پر فلم بناتے ہوئے شاید فلم سازوں کو، فلم کے بھاری بھر کم ہونے کا خیالی خیال آیا اس لئے انہوں نے نور جہاں کے تذکرے کو غیر ضروری طور پر طول دے کر فلم بینوں کی دلچسپی کا سامان پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی رہے ہیں، اس چکر میں منٹو کہیں پس منظر میں چلا گیا البتہ۔ اور پھر جب دوبارہ سامنے آیا تو ایک نیم پاگل، خون تھوکتا، دیواروں پر لکھتا منٹو سامنے آیا۔ اس سارے ملغوبے سے کچھ ایسا احساس ہوا کہ اتنے بڑے شخص کی ذاتی زندگی پر بنائی جانے والی فلم، ہدایت کاروں کے ہاتھ سے نکل گئی اور قابو میں نہیں آئی۔

فلم کے آخری کچھ منٹ تو انتہائی جذباتی فلمی ڈرامہ ہی لگے ہیں۔ اداکاری میں شوکت حسین رضوی کا کردار نبھانے والے آرٹست نے اپنا حق ادا کیا ہے لیکن سرمد کھوسٹ سے جو کردار نبھانے کی توقع تھی وہ بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ جہاں تک ہم نے پڑھا، دیکھا اور سنا ہے، منٹو محض ایک سنجیدہ انسان ہی نہیں تھا، وہ قہقہے بھی لگاتا تھا، شرارتی بھی تھا۔ لیکن فلم میں اس کی سنجیدگی کے علاوہ کوئی اور رویہ ہی نظر نہیں ایا۔ اگرچہ ہدایئت کار نے خوب تحقیق کی ہے اور 1950 کے لگ بھگ کی اشیاء، برتن، بوتلیں، کرنسی نوٹ اور عمارتوں کو ویسی ہی حالت میں پیش کیا ہے تاہم وہ فلم بینوں کے لیے منٹو کی شخصیت کی درست عکاسی نہیں کر پائے۔ فلم میں سے اگر نور جہاں اینڈ کمپنی والے سین نکال دیے جائیں تو فلم بینوں کی تعداد ایک چوتھائی رہ جائے گی۔ یہ فلم منٹو پر ایک اور طرح کا ظلم ہے اور میری دانست میں اس کی بھرپور شخصیت کے ساتھ بہت زیادتی ہے۔

بھارتی فلم منٹو۔ از نندتا داس

نندتا داس ایک بے مثال فنکارہ اور بھارتی فلم انڈسٹری کی بہت محنتی اور معروف شخصیت ہیں۔ عورت کی نفسیاتی گہرائی کو وہ جس بھرپور انداز میں سمجھتی ہے اس کا اظہار فلم منٹو میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ منٹو کی اپنی بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ تعلق کو اس گہرے انداز میں دکھانا نندتا داس ہی کا کام ہے۔ اس میدان میں انہوں نے کافی لاجواب کام کر کے نام کمایا ہے۔ ایک ادبی شخصیت، وہ بھی متنازعہ، جسے گزرے نصف صدی گزر چکی ہو، بے باک ہو، اس پر مقدمے چل چکے ہوں اور ”دشمن“ ملک سے تعلق رکھنے والا ہو تو اس کی زندگی پر فلم بنانا جان جوکھوں کا کام تھا۔

اس انتہائی مشکل موضوع کو جس شاندار طریقے سے نندتا نے نبھایا ہے، وہ اسی کا خاصہ ہے۔ اس فلم میں منٹو کا کردار نوازالدین صدیقی نے نبھایا ہے۔ اصل زندگی کی طرح فلم میں بھی منٹو کو باغیانہ تیور میں دکھایاگیا ہے۔ اس میں نوازالدین کی ڈایئلاگ ڈیلیوری بدرجہ کمال ہے۔ اگرچہ نواز الدین صدیقی نے منٹو کے کردار میں اپنی روح ضم کر دی ہے۔ وہ یقیناً ایک بڑا اداکار ہے مگر اس کی صورت، قد اور لہجہ امرتسر کے اس گورے چٹے کشمیری سعادت حسن منٹو کے اس امیج کوہمارے سامنے نہیں لاتی جو منٹو کی تحریروں کی بدولت ہمارے تصور میں جاگزیں ہے۔

اس فلم میں نوازالدین کے علاوہ پریش راول، رشی کپور اور طاہر راج بھسین بھی ہیں۔

سرمد کھوسٹ کی بنائی فلم کے برعکس، جس میں منٹو کو ہر وقت سنجیدہ اور شراب کے نشے میں مخمور دکھایا گیا تھا، نواز، منٹو کے کردار میں ہنستا بھی ہے شرارتیں بھی کرتا ہے اور زندگی کے مختلف کرداروں میں اسی طرح نظر آتا ہے جس طرح ایک عام انسان۔ منٹو کو زندگی میں یقیناً بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ان مشکلات سے گھبرا کر ہمیشہ کے لئے اداس نہیں ہو گیا تھا۔ ایک ضدی انسان تھا۔ بغاوت اس کا رویہ تھا۔ زندگی کی خوب صورتیوں سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ دوستوں کے ساتھ تندوتیز مباحثوں میں مصروف رہتا۔ اپنے مخالفین کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوجاتا۔ لیکن نواز الدین صدیقی، توانائی سے بھرے منٹو کی شخصیت کو سامنے لانے میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکا۔

تقسیم کے وقت کا بومبے اور لاہور دکھانا ایک مشکل امر تھا لیکن نندتا کی فنکارانہ اپچ نے یہ کام بہت عمدگی سے ادا کیا۔ نہ صرف اس وقت کے شہر بلکہ اس وقت کی بول چال، بود و باش، تمدنی اثرات بھی بخوبی پیش کیے ہیں۔ فلم میں منٹو ایک ایسا حساس انسان ابھر کر سامنے آتا ہے جو حق گو اور بے باک ہے۔ ایسا شخص جو اپنے زمانے سے تھوڑا پہلے پیدا ہو گیا جسے اس وقت کا زمانہ سمجھنے سے قاصر رہا۔ نندتا کی تحقیق اس کمال درجے کی ہے کہ منٹو کا اکڑوں بیٹھ کر لکھنا، اس کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی اس نے نظر انداز نہیں کیں۔

اس کا عزیز دوست شیام چڈھا اور ان کی دوستی بھی بہت خوبصورتی سے پیش کی ہے۔ اس کی اہلیہ صفیہ کا ایک مشکل کردار ساریکا نامی اداکارہ نے کمال خوبی سے ادا کیا ہے۔ منٹو کے لافانی افسانے ٹھنڈا گوشت اور کھول دو کی ڈرامائی تشکیل بھی ماہرانہ طریقے سے کی گئی ہے۔ فلم کے ڈاییلاگ تو آپ کا دل جکڑ لیتے ہیں۔ فلم کی واحد منفی شے منٹو پر چلے مقدمے میں فیض صاحب کا بیان ہے جس میں انہوں نے کھول دو کو فحش ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسے لڑیچر کے پیمانوں سے پست قرار دیا۔

شاید حقیقت میں بھی ایسا ہوا ہو لیکن اگر یہ فلم میں نہ ڈالا جاتا تو بہتر ہوتا۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ فلم بھارت میں بنی ہے۔ فلم کا اختتام ٹوبہ ٹیک سنگھ کی زبردست ڈرامائی تشکیل سے بہت شاندار طریقے سے کیا گیا ہے جس میں ایک پاگل انڈیا اور پاکستان کی سرحد پر جان سے گزر جاتا ہے۔ نواز الدین صدیقی اور نندتا داس، دونوں کی محنت اس فلم کے ہر سین، ہر بول اور ہر فریم سے ظاہر ہوتی ہے۔

اہم بات تو یہ ہے کہ اگر کسی نے منٹو کا کوئی بھی افسانہ یا تحریر نہ پڑھی ہو تو کیا وہ ان دونوں فلموں سے منٹو کی شخصیت یا ادیب منٹو کے بارے میں کچھ جان پائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments