کورونا وائرس: وائرل ہونے والی وہ تصویر جو انڈیا میں کووڈ سے ہونے والی تباہی کی علامت بن گئی ہے

پرادیپ کمار - بی بی سی ہندی، دلی


Chandrakala with her son

Vikash Chandra
چندراکلا سنگھ کی وائرل ہونے والی تصویر جس میں ان کے بیٹے کی لاش ان کے قدموں میں پڑی ہے۔ (اصل تصویر کو ایڈٹ کر دیا گیا ہے تاکہ لوگوں کی تکلیف کا باعث نہ بنے)

انڈیا میں ایک ماں کی دل دہلا دینے والی وہ تصویر وائرل ہوگئی ہے جس میں اس کے قدموں میں اس کے 29 سالہ بیٹے کی لاش پڑی ہے۔

اس تصویر میں چندراکلا سنگھ اہنے بیٹے ونیت سنگھ کی لاش کے ساتھ ایک رکشے میں بیٹھی ہیں۔ (اصل تصویر کو ایڈٹ کر دیا گیا ہے تاکہ لوگوں کی تکلیف کا باعث نہ بنے)

یہ تصویر ریاست اتر پردیش کے شہر وراناسی کی ہے۔ یہ تصویر انڈیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے وائرس اور ناکامی کے دہانے پر کھڑے صحت کے نظام کے درمیان پھنسے شہریوں کی تکلیف کی صرف ایک مثال ہے۔

انڈیا میں دوسری لہر کے دوران ریاست اتر پردیش سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ وراناسی شہر جہاں یہ تصویر کھینچی گئی ہے وہ وزیراعظم مودی کا حلقہ ہے۔

ہلاک ہونے والے ونیت سنگھ کے رشتے دار جے سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ پیر کی صبح ان کی والدہ چندراکلا سنگھ انھیں لے کر اپنے گھر سے ایک گھنٹے دور واقع ہسپتال لے کر گئی تھیں۔

جے سنگھ کے مطابق ’ونیت کو گردے کی تکلیف تھی اور بنارس ہندو یونیورسٹی ہسپتال سے ان کا علاج ہو رہا تھا۔ ان کی ایک ہفتہ پہلے سے ڈاکٹر کے ساتھ پیر کی اپائنٹمنٹ بک تھی۔‘

لیکن جب ماں اور بیٹا ہسپتال پہنچے تو ان سے کہا گیا کہ ڈاکٹر موجود نہیں ہے اور ان کو ٹراما سینٹر جانے کا مشورہ دیا گیا جہاں ایمرجنسی کیسز سے نمٹا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کے ساتھ طویل انتظار کرنا پڑ رہا ہے‘

’اب تو غم کا بھی احساس نہیں ہوتا، میں پوری طرح بے حس ہو چکی ہوں‘

انڈیا میں کورونا: ’جس طرف بھی دیکھیں لاشیں اور ایمبولینس نظر آتی ہیں‘

کورونا وائرس کی نئی ‘انڈین‘ قسم کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

Chandrakala

Aaditya Bharawaj
’میرا بیٹا، میرا بچہ، سانس نہیں لے پا رہا تھا۔ ہم نے ان سے آکسیجن اور ایمبولینس کی بھیک مانگی، لیکن ہمیں کچھ نہیں ملا‘: چندراکلا سنگھ

ونیت ٹراما سینٹر کے داخلی راستے پر گر گئے اور ان کی والدہ کے مطابق ہسپتال کے سٹاف نے انھیں داخل کرنے سے انکار کر دیا۔

والدہ نے روتے ہوئے بتایا ’انھوں نے کہا اسے کورونا ہے۔ اسے یہاں سے لے جاؤ۔ میرا بیٹا، میرا بچہ، سانس نہیں لے پا رہا تھا۔ ہم نے ان سے آکسیجن اور ایمبولینس کی بھیک مانگی، لیکن ہمیں کچھ نہیں ملا۔‘

چندراکلا سنگھ نے بیٹے کو ایک رکشے میں ڈالا اور ایک نجی ہسپتال لی گئیں لیکن انھوں نے بھی اسے داخل کرنے سے انکار کر دیا۔

تیسرے ہسپتال کی طرف جاتے ہوئے ونیت کی موت ہوگئی اور اس کی لاش ماں کے قدموں میں پڑی تھی۔

چندراکلا سنگھ غم سے نڈھال اور فوری مدد کی طلب گار تھیں لیکن اس دوران ان کا فون اور بیٹے کے میڈیکل ریکارڈ چوری ہوگئے۔

مقامی ہندی اخبار ڈینک جاگرن نے جب سب سے پہلے یہ تصویر شائع کی تو یہ وائرل ہوگئی۔

اخبار کے رپورٹر بھردواج نے بی بی سی کو بتایا کہ جس روڈ پر ونیت کی موت ہوئی وہاں بنارس ہندو یونیورسٹی ہسپتال کے علاوہ بہت سے نجی ہسپتال ہیں لیکن ’ان میں سے کوئی ایک بھی مدد کے لیے آگے نہیں آیا‘۔

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ونیت کے موت کووڈ 19 سے ہوئی ہے کیوں کہ ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ ان میں وائرس کی کوئی بھی علامات نہیں تھیں۔

دلی کا ایک ہسپتال

ہسپتالوں میں ایک بستر پر دو دو مریض میں دیکھے گئے ہیں

ان کے رشتے دار نے بتایا کہ ’اگر اسے داخل کر کے آکسیجن دی جاتی اور گردے کی تکلیف کا علاج کیا جاتا تو اس کی زندگی بچائی جا سکتی تھی۔ کوتاہی کی وجہ سے اس کی موت ہوئی۔ اس طرح کی کوتاہی سے کئی اور زندگیاں ضائع ہو سکتی ہیں۔‘

انڈیا کے طول و عرض سے اس سے ملتے جلتے مناظر سامنے آ رہے ہیں جہاں ہسپتالوں کے باہر عوام کا ہجوم ہے اور ایسے مریضوں سے بھری ایمبولینسوں کی قطاریں ہیں جو ہسپتال میں داخلے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ ونیت کی طرح کئی افراد ہسپتالوں کے باہر اور کئی ہسپتال پہنچنے کی کوشش میں دم توڑ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر انڈیا میں جاری اس دوسری لہر کے دوران آکسیجن، ایمبولینسوں، آئی سی یو میں بستروں اور جان بچانے والی ادویات کی اپیلوں کی بھرمار ہے۔

وراناسی کا بنارس ہندو یونیورسٹی ہسپتال ایک بڑا ہسپتال ہے جسے مشرقی اتر پردیش کے تقریباً چالیس ضلعوں اور دو کروڑ 50 لاکھ کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا لیکن کووڈ کے کیسز میں اس قدر اضافے سے اس ہسپتال میں موجود سہولیات اور عملہ بھی ناکافی پڑ گیا ہے۔

ہسپتال کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ وبا کی وجہ سے وہ صرف آن لائن چیک اپ اور مشورے دے رہے ہیں۔

ہسپتال کے میڈیکل سپرانٹینڈینٹ ڈاکٹر شرد ماتھور نے بتایا کہ ان سے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کر رہے ہیں لیکن ’دباؤ بہت زیادہ ہے۔‘

انھوں نے کہا ’افرادی قوت کی شدید قلت ہے، جو کوئی دستیاب ہے وہ پہلے سے کام پر ہے۔ ہر روز ہم کئی جانیں بچا رہے ہیں۔ لیکن لوگ اسی وقت پسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جب مریض کی طبیعت بہت زیادہ بگڑ جاتی ہے۔ اور یہ سب کچھ وبا کے دوران ہو رہا ہے‘

وہ کہتے ہیں ’ہم ہر مریض کی جان نہیں بچا سکتے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32192 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp