بٹ کوائن میں تاوان وصولی کا کیس: لاہور پولیس کا دو غیر ملکیوں کے اغوا کے ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ


بٹ کوائن

پاکستان میں پولیس نے دو غیر ملکی باشندوں کے اغوا اور تاوان کی رقم بٹ کوائن کے ذریعے ادا کرنے کے پہلے اور منفرد کیس میں محکمہ جیل کے تین اہلکاروں سمیت چھ ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

لاہور میں پولیس کی کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (سی آئی اے) کا دعویٰ ہے کہ دو غیر ملکیوں، میگرون ماریہ سپاری اور سٹیفن کے اغوا اور بٹ کوائن میں تاوان وصول کرنے کے کیس میں ملوث مرکزی ملزم رانا عرفان کے علاوہ باقی چھ ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔

مرکزی ملزم رانا عرفان محمود واردات کی اگلی صبح ہی اسلام آباد سے بذریعہ ترکی یورپ فرار ہو گیا تھا۔

پولیس حکام کے مطابق رانا عرفان کے پاس جرمنی کی شہریت بھی ہے لیکن انھیں عدالت سے اشتہاری قرار دلوا کر انٹرپول کی مدد سے پاکستان واپس ضرور لایا جائے گا۔

پولیس نے نہ صرف جائے وقوعہ میں استعمال ہونے والی تین گاڑیوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے بلکہ ایک ہزار کے قریب یوروز بھی ملزمان سے برآمد کر لیے ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق تمام گرفتار ملزمان نے اعتراف جرم کر لیا ہے اور مزید تفتیش کے لیے متعلقہ عدالت سے ان کا پیر تک جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ آسٹریا کے شہری میگرون ماریا سپاری اور جرمن شہری سٹیفین، مرکزی ملزم رانا عرفان محمود کو گذشتہ ایک ڈیڑھ سال سے جانتے تھے اور رانا عرفان محمود نے ہی انھیں پاکستان میں سرمایہ کاری کے بہانے سے بلایا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان: دوران ڈکیتی مغویوں سے بٹ کوائن میں تاوان کیسے وصول کیا گیا؟

کرپٹو کوئین: وہ خاتون جس نے اربوں لوٹے اور غائب ہو گئی

’پاکستان میں کریپٹو کرنسی قانونی نہیں، اسے مشکوک مانیں‘

رواں سال 10 فروری کو دونوں غیر ملکی باشندے رانا عرفان محمود کے اصرار پر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی غرض سے لاہور آئے جبکہ وہ خود بھی اسی روز جرمنی سے پاکستان پہنچے۔

اسی روز رانا عرفان محمود دونوں غیر ملکییوں کو لاہور کے ایک مقامی ہوٹل سے رات کے تقریباً ساڑھے نو بجے ایک وزیر سے ان کے فارم ہاؤس پر ملوانے کے بہانے باہر لے کر گئے اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے انھیں فلمی انداز میں اغوا کرنے کے بعد گن پوائنٹ پر ان سے بٹ کوائن میں ڈیڑھ کروڑ روپے کے قریب رقم تاوان کی صورت میں چھین لیے۔

ملزمان واردات کی رات تاوان وصول کرنے کے بعد دونوں غیر ملکیوں کو لاہور کے اسی ہوٹل کے قریب چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔

دونوں غیر ملکی باشندوں نے اغوا کی اس واردات کے بعد دو روز تک خود کو ہوٹل میں بند کر لیا جس کے بعد انھوں نے کچھ جاننے والوں کی مدد سے اپنے سفارتخانے سے رابطہ کیا جس کے بعد ایک جرمن کمپنی کے ایک مقامی مترجم عطا النور ثاقب کی مدعیت میں لاہور کے ریس کورس تھانہ میں ملزم رانا عرفان اور دیگر کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 395 کے تحت ایف آئی آر درج کروائی گئی۔

مقدمے کے اندراج کے فوری بعد دونوں غیر ملکی باشندے پاکستان سے واپس اپنے اپنے ملک کو چلے گئے۔

کیس کی ابتدائی تفتیش مقامی پولیس کو ہی سونپی گئی لیکن کیس کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے کچھ روز بعد ہی اس کی تفتیش کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کے حوالے کر دی گئی جس نے اس کیس کا سراغ لگایا۔

سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے کیس میں پہلی کامیابی

اس کیس کی تفتیش سے منسلک پولیس حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس کیس کا پہلا سراغ لاہور سیف سٹی اتھارٹی کے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ان گاڑیوں کا ملا جو اس واردات میں استعمال ہوئی تھیں۔

ان گاڑیوں کا انتظام ملزم عرفان محمود نے اپنے دوست رانا طارق کے ذریعے کیا ہوا تھا۔ ملزم رانا طارق گوجرانوالہ سے دو کورولا اور ایک ویگنار گاڑی کا انتظام کر کے انھیں لاہور لے آئے اور جیسے ہی رانا عرفان 10 فروری کی رات دونوں غیر ملکیوں کو لے کر ریس کورس پارک کے قریب پہنچے تو دونوں غیر ملکیوں کو اس گاڑی میں بٹھا دیا گیا جس کو رانا طارق چلا رہے تھے جبکہ دوسری گاڑی رانا عرفان خود چلانے لگے۔

غیر ملکی مغویوں کا لاہور سے نوشہرہ ورکاں میں واقع گاؤں جاگو والا تک کا سفر

پولیس اہلکار کے مطابق ملزمان دونوں گاڑیوں کو لے کر کنال روڈ سے ہوتے ہوئے رنگ روڈ اور پھر موٹروے کے ذریعے کالا شاہ کاکو پہنچے جہاں براستہ جی ٹی روڈ شیخوپورہ، جنڈیالہ شیر خان سے ہوتے ہوئے نوشہرہ ورکاں میں واقع گاؤں جاگو والامیں احسان نامی ملزم کے ڈیرے پر لے گئے۔

منصوبے کے مطابق ڈیرے پر جاتے ہوئے ایک دوسری گاڑی ویگنار میں محکمہ جیل کے تین حاضر سروس اہلکار عمر فاروق، میاں اعجاز اور یاسر نوید اینٹی نارکاٹکس فورس کے اہلکار بن کر آ گئے اور اس گاڑی کی چیکنگ شروع کر دی جس میں دونوں غیر ملکی سوار تھے۔

ملزمان اپنے پاس موجود منشیات نکال کر انھیں ڈرانے لگے کہ ان کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئی ہیں اور یہ ایسا سنگین جرم ہے جس کی پاکستان میں سزا موت ہے۔

پولیس حکام کے مطابق دونوں غیر ملکیوں کو زبردستی احسان کے ڈیرے پر لیجا کر رسیوں سے باندھ دیا گیا، ڈرایا دھمکایا گیا اور زدوکوب کیا گیا کہ اگر انھوں نے رقم کا انتظام نہ کیا تو ان کے خلاف کیس چلے گا۔

گرفتار ملزمان کے مطابق طے شدہ منصوبے کے تحت کچھ دیر بعد رانا عرفان بھی معمولی سی زخمی حالت میں وہاں آ گئے۔

رانا عرفان مغویوں کو کہنے لگے کہ ’دیکھو انھوں نے مجھے بھی مارا ہے اور یہ بڑے خطرناک لوگ ہیں۔ رقم کا انتظام کر دو ورنہ یہ تمہیں بھی ماریں گے۔‘

گرفتار ملزمان نے پولیس حکام کو مزید بتایا کہ آسٹرین باشندے میگرون ماریہ سپاری کو بٹ کوائن کے ذریعے رقم کا انتظام کرنے کے لیے کہا گیا لیکن چونکہ ان کا اکاؤنٹ چار سے پانچ لوگوں کے ساتھ مشترکہ تھا تو وہ اس تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔

جس کے بعد انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے بیٹے سے رابطہ کریں۔ ملزمان نے بیٹے سے رابطہ کرنے پر دھمکی دی کہ اگر بٹ کوائن ٹرانسفر نہ کیے گئے تو وہ ان کے والد کو مار دیں گے یا پولیس کے حوالے کر دیں گے۔

آسٹرین باشندے میگرون ماریہ سپاری کے بیٹے نے اپنے والد کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے فوری طور پر 1.8 بٹ کوائن جس کی مالیت پاکستانی کرنسی میں تقریباً ایک کروڑ اکتالیس لاکھ روپے بنتی ہے، کا انتظام کیا اور بتائے گئے اکاؤنٹ میں انھیں منتقل کر دیا۔

بٹ کوائن کے ساتھ ساتھ لاکھوں روپے کی نقدی بھی چھین لینے کے بعد ملزمان غیر ملکی مغویوں کو دوبارہ لاہور لے آئے اوران کے ہوٹل کے قریب ایک ٹیکسی میں بٹھا کر فرار ہو گئے۔

پولیس

فائل فوٹو

پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟

پولیس واردات میں استعمال ہونے والی دونوں گاڑیوں کے نمبروں کی مدد سے سب سے پہلے ان کے مالکان تک پہنچی جو گوجرانوالہ میں ایک رینٹ اے کار سروس چلا رہے تھے۔

پولیس تفتیش میں پتا چلا کہ وہ گاڑیاں ملزم رانا طارق نے اپنے ایک دوست کے لیے کرائے پر لی تھیں جو گوجرانولہ میں ایک مقامی ہوٹل میں رہائش پذیر تھا۔

اس کے بعد جونہی پولیس اس مقامی ہوٹل تک پہنچی تو وہاں سے پتا چلا کہ ملزم رانا عرفان وہاں دو روز تک رہائش پذیر تھے اور یہی وہ جگہ تھی جہاں اس واردات کو انجام دینے کی ساری منصوبہ بندی کی گئی۔

تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان گاڑیوں میں ٹریکر لگے ہوئے تھے جس سے جائے وقوعہ تک پہنچنا پولیس کے لیے اور آسان ہو گیا۔

پولیس حکام کے مطابق ہوٹل کے سی سی ٹی وی کیمروں سے تمام ملزمان کا سراغ بھی مل گیا جس کے بعد سب سے پہلے ملزم رانا طارق کو گرفتار کیا گیا، جس نے دوران تفتیش دونوں غیر ملکیوں کے اغوا برائے تاوان کی اس ساری واردات سے پردہ اٹھایا جس کے بعد باقی ملزمان کی شناخت ہوئی اور انھیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔

پولیس حکام نے مزید بتایا کہ ملزم رانا عرفان واردات کے بعد بھی دونوں متاثرہ غیر ملکیوں سے رابطے میں تھا اور انھیں مسلسل کہتا رہا کہ اغوا کار ان سے باقی 13.2 بٹ کوائن کا تقاضہ کر رہے ہیں کیونکہ انھیں چھڑوانے کی ڈیل 15 بٹ کوائن میں طے کی تھی۔

غیر ملکی باشندے تاحال ٹراما میں

غیر ملکی باشندوں کے مترجم اور کیس کے مدعی عطا النور ثاقب نے بتایا کہ دونوں غیر ملکی تاحال پوسٹ ٹراما سینڈرم کا شکار ہیں اور اب بھی صحت کے ایک مرکز میں زیر علاج ہیں۔

عطا النور ثاقب کے مطابق پولیس نے ان سے رابطہ کر کے پوچھا کہ دونوں غیر ملکی متاثرہ اشخاص کب تک پاکستان دوبارہ سفر کر سکیں گے تاکہ زیر حراست ملزمان کی شناخت پریڈ کے قانونی مرحلے کو مکمل کیا جا سکے۔

عطا النور کے مطابق انھوں نے پولیس حکام کو بتایا ہے کہ ان کی دونوں غیر ملکی باشندوں سے بات ہوئی ہے اور ڈاکٹر نے انھیں سفر کرنے سے منع کیا ہے لیکن وہ مئی کے آخر تک سفر کرنے کے اہل ہوں گے۔

عطا النور کے مطابق دونوں باشندے اس بات پر بہت خوش ہیں کہ پاکستان کی پولیس ملزمان تک پہنچ کر انھیں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں عطا النور ثاقب نے بتایا کہ یہ دونوں غیر ملکی باشندے پاکستان میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنا رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp