سوشلزم اکیسویں صدی میں


سنہ 1917 ء میں روس میں سوشلسٹ انقلاب، انسانی تاریخ میں محنت کشوں کی یہ پہلی کامیابی تھی اور یوں انسانی تاریخ میں محنت کشوں نے پہلی مرتبہ اقتدار سنبھالا۔ اس سے پہلے محنت کشوں کی بغاوتوں اور انقلابات کی تاریخ تو پڑھنے کو ملتی ہیں، مگر وہ سب بغاوتیں کچل دی گئیں اور انقلابات بھی شکست سے دوچار ہوئے۔ سوویت یونین ہزاروں سال میں پہلی ریاست ہے جسے محنت کشوں، مزدوروں اور کسانوں کی ریاست کہلانے کا اعزاز حاصل ہوا۔

عالمی سرمایہ داری نے اسے شروع میں ہی ناکام بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ سوویت یونین نے 1917 ء میں انقلاب برپا ہونے کے بعد پہلے چند ہی سال میں سائنسی ٹیکنالوجی، معاشی اور سماجی ترقی کے حوالے سے شان دار کامیابیاں حاصل کر لیں۔ مگر پھر اس نظام کے اندر ایسے مسائل نے بھی جنم لیا جس نے اسے کھوکھلا کرنا شروع کر دیا۔ سوویت یونین کے بحران میں دو چیزیں نہایت اہم ہیں، جمودیت اور افسرشاہی کی ایک خاص کلاس۔ یہی اس نظام کی تباہی کا سبب بنیں۔

سوشلزم یا مارکسزم تو ازخود جمودیت کے خلاف ہے۔ مگر سوویت یونین کے اندر انقلاب کے تین چار دہائیوں بعد مختلف شعبوں میں جمود نے جنم لینا شروع کر دیا۔ ارتقاء اور ترقی کی رفتار سست ہو گئی اور اسی طرح وہ نظام (سوشلزم) جو Classless سماج کی بات کرتا ہے، وہاں بھی ایک ”خاص“ کلاس نے جنم لے لیا، یعنی افسر شاہی۔ ان دونوں تضادات نے سوویت یونین کو تحلیل کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ سوویت یونین ٹوٹا تو عالمی سرمایہ داری نے اسے سوشلزم کی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بربادی قرار دے دیا اور اسی بنیاد پر عالمی سرمایہ داری کے سرخیلوں نے اسے End of the History کہنا شروع کر دیا اور عالمی سرمایہ داری کو ”جمہوری جنت“ قرار دیا۔

سرمایہ دار دنیا کی اپر کلاسز کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی مڈل کلاسز نے اس نقطۂ نظر کو حتمی حقیقت ماننا شروع کر دیا اور عالمی سرمایہ داری کے ہوتے ہوئے مختلف خطوں میں سوشلسٹ تحریکیں کمزور ہونے لگیں۔ لیکن سوویت یونین کے انہدام کی دو دہائیوں کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ سوشلسٹ تحریکوں نے مختلف خطوں میں نئے انداز میں مختلف شکلوں اور مختلف صورتوں میں جنم لینا شروع کر دیا۔ آج سوویت یونین کو تحلیل ہوئے تین دہائیاں ہو گئیں۔

بس سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں عالمی سرمایہ داری انسانوں کی معاشی، اقتصادی اور سماجی بہتری کا سبب بنی؟ یقیناً نہیں! دراصل حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام تو مزید ناکام ہوا ہے۔ اسی لیے دنیا ایک بار پھر سوشلزم کی طرف دیکھنے لگی ہے، لیکن یہ اتنی آسان بات بھی نہیں کہ سرمایہ داری، سوشلزم کی بنیاد پر اٹھنے والی تحریکوں کو سر اٹھانے دے گی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر براعظم میں سوشلزم کے نئے سے نئے انداز اور لہریں جنم لے رہی ہیں۔ ایسی ایسی چنگاریاں جو کسی بھی وقت الاؤ میں بدل سکتی ہیں۔ زیرنظر کتاب ایک ایسی ہی چنگاری کو جاننے کی ایک کوشش ہے۔

”سوشلزم اکیسویں صدی میں“ اپنے موضوع کے حوالے سے اس لیے بھی منفرد ہے کہ اردو میں اس موضوع پر تحریریں کم ہی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ اردو قارئین کے لیے ایک منفرد اور نادر کتاب ہے اور یہ اعزاز راقم کو حاصل ہوا کہ اسے اپنے وطن میں نظام بدلنے کی خواہش رکھنے والے نوجوانوں، خواتین، طالب علموں، دہقانوں اور مزدوروں تک پہنچایا۔ یہ وطن کہ جہاں صرف گیارہ ماہ قبل 29 نومبر 2019 ء پاکستان کے پچاس شہروں میں ”لال لال لہرائے گا تو ہوش ٹھکانے آئے گا“ کے نعروں نے سارے ملک کو حیران کر دیا۔

دہائیوں بعد سوشلسٹ طلبا کی یہ چنگاری ایسی جلی کہ حکمران طبقات ششدر رہ گئے اور پریشان ہو گئے۔ وہ جو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ سوشلزم کسی قبرستان میں دفن کر دیا گیا ہے کیوں کہ انہی لوگوں نے اسی کی دہائی میں امریکی سامراج اور مقامی حکمرانوں کی سرپرستی میں نام نہاد افغان جہاد میں یہ نعرہ گھڑا تھا کہ ”کمیونزم کا قبرستان، افغانستان، پاکستان“ ۔ اب اسی وطن عزیز میں جب نئی جنم لینے والی نسل نے پچاس شہروں میں سوشلسٹ چنگاری سلگائی تو ان کو اپنی ”فتح“ پر شک ہوا جو افغانستان کو ”سوشلزم کا قبرستان“ قرار دے رہے تھے۔ اس چنگاری کو جلانے میں پاکستان کے ان ترقی پسندوں کا کردار سرفہرست ہے جنہوں نے سوویت یونین کی تحلیل کے بعد مفاہمت یا نظریاتی طور پر ہتھیار نہ پھینکے۔ اس کتاب کی اشاعت اس غیر مفاہمتی جدوجہد کا ایک مظاہرہ تھا جو آج سے سولہ برس پہلے شائع ہوئی اور اب پھر شائع ہونے جا رہی ہے۔

زیر نظر کتاب Imagine کا اردو ترجمہ ہے جو سوشلزم کے حوالے سے بہترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ مصنفین اس موضوع پر نہ صرف گہرا مطالعہ رکھتے ہیں بلکہ امن، سماجی انصاف اور جمہوریت کے ساتھ نظریاتی وابستگی اور ان نظریات کے حوالے سے عملی تجربہ ان کی تحریر کا منفرد حسن ہے۔ کتاب کا مطالعہ جہاں قاری کو استحصال سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کی اجتماعی صلاحیت کا یقین اور امید دلاتا ہے، وہیں انہیں اپنی بہت کچھ کرنے کی صلاحیت پر اعتماد بھی دیتا ہے۔

”سوشلزم اکیسویں صدی میں“ ان دو مصنفین کی کتاب ”Imagine“ کا اردو ترجمہ ہے، جو برطانیہ میں جنم لینے والی سوشلسٹ تحریک کا سرگرم حصہ رہے ہیں۔ اسی تحریک کے نتیجے میں ٹومی شیریڈن نے تھیچر حکومت کو پول ٹیکس ختم کرنے پر مجبور کیا اور انہیں بالآخر مستعفی ہونا پڑا۔ اردو میں ترقی پسند لٹریچر کے حوالے سے یہ پہلی کتاب ہے، جو دنیا میں نئی ترقی پسند تحریک کی نوید اور استحصالی قوتوں کو شکست کا پیغام دے رہی ہے۔

”سوشلزم اکیسویں صدی میں“
مصنفین : ٹومی شیریڈن۔ ایلین میک کومبز
صفحات 232۔ قیمت 750 روپے
جمہوری پبلیکیشنز، 2 ایوان تجارت روڈ، لاہور
04236314140
WhatsApp 03334463121


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments