جھوٹا خواب۔ پاکستان میں طبی سہولتیں اور سچ


ہوا یہ کہ پاکستان پہنچنے کے تیسرے دن ہی ابو کے پیٹ میں سخت درد اٹھا تو میں انہیں شام کے سات بجے سول اسپتال کراچی لے کر پہنچ گیا۔ شعبہ حادثات میں اچھے خاصے مریض تھے، مگر ابو کو فوراً ہی ایک ڈاکٹر نے آ کر دیکھا کیونکہ وہ شدید تکلیف میں تھے جس کی خبر اس نرس نے ڈاکٹر کو جا کر دی تھی جس نے سب سے پہلے ان کا معائنہ کیا تھا۔ اس طرح کا نظام تو امریکا میں ہے جہاں ہسپتال پہنچتے ہی فیصلہ ہو جاتا ہے کہ کس مریض کو فوری توجہ کی ضرورت ہے اور کون انتظار کر سکتا ہے۔

اتنے خوش اخلاق اور تمیز دار ڈاکٹر سے ملنے کی توقع مجھے پاکستان میں نہیں تھی۔ انہوں نے تفصیل سے سوالات کیے۔ ابو کا بہت اچھے طریقے سے معائنہ کیا اور مجھے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ انہیں اپنڈکس کا درد اٹھا ہے۔ میں انہیں الٹرا ساؤنڈ کے لیے بھیج رہا ہوں جہاں سے وہ سرجری کے وارڈ میں چلے جائیں گے اور وہاں ڈاکٹر فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے تمام سوالات کا جواب دیا۔ پاکستان میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا، ڈاکٹر سنتے کب تھے، سوال کا جواب تو دور کی بات ہے۔

رات کے آٹھ بجے ابو کا الٹرا ساؤنڈ ہوا اور الٹرا ساؤنڈ کرنے والی ڈاکٹر نے ہی ان کو فوری طور پر ایم آر آئی کرنے کے لیے بھیج دیا اور جس کے بعد ان کا داخلہ سرجری کے وارڈ میں کر دیا گیا۔

سرجری کے وارڈ میں کافی ہنگامہ برپا تھا، مریض اور ان کے رشتے دار آرہے تھے اور ڈیوٹی پہ موجود چار پانچ ڈاکٹر اور تقریباً اٹھارہ نرسیں آنے والے نئے مریضوں اور وارڈ میں پہلے سے موجود ساٹھ سے زیادہ بیماروں کو دیکھ رہے تھے۔ میں ابو کے ساتھ ہی تھا کہ رات گیارہ بجے ایک سینیئر ڈاکٹر صاحب آئے جنہوں نے بتایا کہ وہ اسسٹنٹ پروفیسر ہیں انہوں نے دوبارہ سے ابو کا معائنہ دوسرے جونیئر ڈاکٹروں کی موجودگی میں کیا اور بتایا کہ ایم آر آئی کے مطابق ابو کے اپنڈکس میں انفیکشن ہے اور رات میں ہی آپریشن کرنا ضروری ہے ورنہ بعد میں پیچیدگیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے مجھے اور ابو کو سمجھایا تھا اور ایک بار پھر آپریشن کے متعلق ہمارے سوالوں کا جواب دیا تھا۔

یہ سینئر ڈاکٹر بھی انتہائی خوش اخلاق تھے، انہوں نے تسلی سے ابو اور میری باتیں سنیں۔ ابو کو بتایا تھا کہ وہ صحیح ہو جائیں گے مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ پاکستان کے اسپتال میں یہ کیسا انقلاب آ گیا ہے۔ اتنے خوش اخلاق ڈاکٹر اور نرسیں پہلے تو نہیں تھے۔

تقریباً سوا بارہ بجے ابو کو آپریشن تھیٹر لے جایا گیا جہاں لیپرواسکوپ سے بغیر پیٹ کھولے ہوئے اپنڈکس نکال دیا گیا۔ آپریشن کے فوراً بعد ابو کو ایک بڑے کمرے میں چار اور مریضوں کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ یہاں کے انچارج بھی میری توقع کے برخلاف انتہائی خوش اخلاق تھے۔ انہوں نے بھی بغیر کسی بدتمیزی کے ہمارے سوالوں کے جواب دیے اور بتایا کہ صبح ابو کو واپس ان کے کمرے میں بھیج دیا جائے گا۔ میں ہسپتال میں ہی رک گیا تھا۔ میری موجودگی میں ہی صبح آٹھ بجے ابو کو کمرے میں منتقل کر دیا گیا، وہ بالکل ٹھیک تھے اور پانی مانگ رہے تھے۔

کمرے میں منتقل ہونے کے بعد انہیں ایک نرس اور اس کے بعد ایک ڈاکٹر نے دیکھا۔ گیارہ بجے اسسٹنٹ پروفیسر صاحب آئے اور ابو کو پانی پینے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسرے دن وہ انہیں گھر بھیج دیں گے۔ مجھے توقع ہی نہیں تھی کہ کراچی کے سول اسپتال کا عملہ اتنا اچھا ہو گیا ہو گا اور بغیر کسی بخشش کے سب لوگ ایمان داری سے کام کریں گے۔ کئی سال پہلے چادر بدلنے اور مریض کو ٹوائلٹ لے جانے کے لیے بھی بخشش دینی پڑتی تھی۔ یہ رواج اب ختم ہو گیا تھا۔

شام کو امی اور دونوں چھوٹے بھائی ابو کو دیکھنے آئے، ہم سب کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک لیڈی ڈاکٹر صاحبہ ابو کا معائنہ کرنے آئی تھیں، وہ جانے لگیں تو امی نے انہیں الگ لے جا کر بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ ان کا پیٹ پھولتا ہی جا رہا ہے۔ وہ ڈاکٹر صاحبہ انہیں اپنے ساتھ لے گئی تھیں۔ جب وہ واپس آئیں تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ان کا وارڈ میں ہی الٹرا ساؤنڈ کر لیا ہے جس سے پتہ لگا ہے کہ ان کے پیٹ میں رسولی ہے جسے فوراً ہی اچھے طریقے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ نے تین دن کے بعد عورتوں کی بیماری کے کلینک میں دکھانے کے لیے کہا تھا۔ تین دن کے بعد امی کو سول اسپتال میں دکھایا تو امراض نسواں کی ماہر (گائناکولوجسٹ) نے انہیں بہت اچھی طریقے سے سنا، معائنہ کیا جس کے بعد فوری طور پر ان کا ایم آر آئی کیا گیا، ان کے خون کے ٹیسٹ کے بعد پتہ چلا کہ ان کا آپریشن کر کے رسولی نکالنا ہو گی۔

حیرانی کی بات یہ تھی کہ دس دن کے اندر امی کا آپریشن بھی ہو گیا اور وہ گھر بھی واپس آ گئیں۔ مگر بات یہ ہوئی کہ آپریشن کے بعد رسولی کا ٹیسٹ کیا گیا تو اس میں سرطان کی تشخیص ہوئی۔ جس کے لئے انہیں کیموتھراپی کے پانچ انجکشن دس دس دن کے وقفے سے لگائے گئے۔ میں نے اپنی چھٹیاں بڑھا لی تھیں اور فی الحال امریکا واپس جانا منسوخ کر دیا تھا تاکہ امی ابو کے ساتھ رہ سکوں اور میرے سامنے ہی علاج ہو جائے۔

میں نے اپنی ساری زندگی اتنے خوش اخلاق ڈاکٹر اور اتنی ہمدردی سے کام کرنے والی نرسیں نہیں دیکھی تھیں۔ ہر دفعہ ان کا ہم سے ایسا سلوک ہوتا جیسے وہ لوگ اپنے خاندان کے افراد کا علاج کر رہے ہیں۔ ایسے ڈاکٹر اور نرسیں تو میں نے امریکا میں بھی نہیں دیکھے تھے، پاکستان میں تو میرا تجربہ خراب ہی رہا تھا۔ ماضی میں عام طور پر ڈاکٹر بدتمیز ملے تھے، نرسیں اور دوسرے عملے کے افراد کا رویہ بھی غیر دوستانہ ہوتا تھا۔

پاکستان میں یہ طبی انقلاب اس وقت آیا جب جب حکومت نے ملک کے کونے کونے میں میڈیکل یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالج کھولنے کا اعلان کیا۔ سب سے پہلے لیاقت میڈیکل کالج حیدرآباد کو سینئر پروفیسروں اور دیگر ڈاکٹروں کے مطالبے پر یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ پھر پنجاب کے سینئر پروفیسروں اور نوکرشاہی کے قابل افسروں نے مطالبہ کیا کہ پنجاب میں بھی میڈیکل یونیورسٹی بنائی جائے۔ جس کے بعد لاہور میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کی بنیاد ڈالی گئی۔

ادھر صوبہ سندھ میں کراچی کی سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے مطالبہ کیا کہ صرف حیدرآباد کے عوام کو ہی اتنی شاندار طبی سہولتیں کیوں مہیا کی جا رہی ہیں۔ کراچی کے عوام کا بھی اتنا ہی خیال رکھا جانا چاہیے۔ اور کراچی میں بھی میڈیکل یونیورسٹی بننی چاہیے، اس مطالبے کو مانتے ہوئے ڈاؤ میڈیکل کالج کے سینئر پروفیسروں اور سندھ کے گورنر کی زبردست کوششوں سے ڈاؤ میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔

دیکھنے میں آیا کہ ان دو یونیورسٹیوں کے قیام سے کراچی اور حیدرآباد میں میڈیکل کا تعلیمی معیار تیزی سے بہتر ہونے لگا اور مریضوں کی نگہداشت اور علاج میں قابل ذکر تبدیلی آ گئی۔ کراچی میں تو ایک اور شاندار کام کیا گیا کہ راتوں رات عباسی شہید اسپتال کے ساتھ منسلک کراچی میڈیکل ڈینٹل کالج میں نشستیں ایک سو سے بڑھا کر تین سو کر دی گئیں جس کی وجہ سے قابل ڈاکٹروں کی پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا اور ساتھ ہی عباسی شہید ہسپتال میں علاج معالجہ کی صورت حال بہت اچھی ہو گئی۔

صوبہ سندھ میں تعلیمی معیار کی بہتری سے متاثر ہو کر لاہور کے سینیئر پروفیسروں نے مطالبہ کیا کہ اگر سندھ میں دو میڈیکل یونیورسٹیاں ہو سکتی ہیں جن سے عوام کو بہترین صحت کی سہولتیں ملنی شروع ہو گئی ہیں اور تعلیمی معیار بھی بہترین ہو گیا ہے تو پنجاب میں دوسری میڈیکل یونیورسٹی کیوں نہیں بنائی جا رہی ہے۔ حکومت نے اس مطالبے کو مانتے ہوئے فوری طور پر افسر شاہی کے انتہائی قابل اور فرض شناس افسروں کے بنائے گئے پی سی ون کے تحت عوام کی صحت اور تعلیمی معیار کی بہتری کے لئے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کو بھی یونیورسٹی کا درجہ دے دیا۔

حیدرآباد کراچی اور لاہور میں اسپتالوں کی زبردست کارکردگی اور میڈیکل کی تعلیم اور تربیت میں بہتری کے بعد پشاور، ملتان، فیصل آباد اور کوئٹہ میں بھی میڈیکل یونیورسٹیاں بنائی گئیں، ان میڈیکل یونیورسٹیوں کے ساتھ بہت سارے میڈیکل کالج پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں کھول دیے گئے۔ مرکزی حکومت نے بھی خصوصی حکم کے ذریعے یہ ممکن بنایا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے توسط سے یونیورسٹیوں کو وافر رقم فراہم کی جائے، ظاہر ہو رہا تھا کہ حکومت عوام کی صحت اور تعلیم کو ہر چیز پر فوقیت دے رہی ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹیوں کو خطیر رقم مہیا کی اور ساتھ ساتھ زبردست منصوبہ بندی کے ذریعے سے یونیورسٹی اور میڈیکل کالجوں میں بہترین اساتذہ کا تقرر کیا گیا، ان کو اتنی اچھی تنخواہیں دی گئیں کہ بہت سارے پاکستانی ڈاکٹر امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے میڈیکل کالجوں سے پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں پڑھانے واپس آ گئے۔ اور ان قابل ڈاکٹروں کی آمد سے مریضوں کا بہترین علاج ہونے لگا اور تعلیمی معیار میں چار چاند لگ گئے۔

سرکاری میں میڈیکل یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں کی شاندار کامیابی اور صحت کی صورت حال میں زبردست تبدیلی کے بعد پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھی پاکستان میڈیکل ڈینٹل کونسل نے حوصلہ افزائی کی اور انہیں اجازت دی گئی کہ وہ بھی میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں کھولیں تاکہ باقی ماندہ عوام کو بھی صحت کی وہ تمام سہولتیں میسر آ جائیں جس کے لیے وہ ترس رہے تھے۔

پاکستان میڈیکل ڈینٹل کونسل، ہائر ایجوکیشن کمیشن، کالج آف فزیشن سرجن اور پرائیویٹ ہسپتال ایسوسی ایشن کے مشترک تعاون سے پورے پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم اور نوجوان ڈاکٹروں کی تربیت کا بہترین نظام ترتیب دیا گیا جس کے بعد سے خدا ترس، پر اخلاق اور مستعد ماہرین طب پاکستان میں ہی تیار ہونا شروع ہو گئے جنہوں نے پاکستان میں صحت کے شعبے میں انقلاب برپا کر دیا۔ ملک میں موجود تمام سرکاری ہسپتال، ڈسٹرکٹ اور تعلقہ ہسپتال میڈیکل یونیورسٹیوں کے ساتھ منسلک کر دیے گئے۔ بیسک ہیلتھ یونٹ اور رورل ہیلتھ سینٹر کی تدریسی ہسپتالوں سے منسلک ہونے کے بعد عوام کو کچی آبادیوں اور دیہی علاقوں میں بہترین طبی سہولتیں میسر ہو گئیں۔

پرائیویٹ میڈیکل یونیورسٹی اور میڈیکل کالجوں نے بھی اپنے ہسپتالوں کے زیر انتظام غریب آبادیوں میں اپنے سیٹلائٹ کلینک کھول دیے تاکہ عوام کو سہولتیں پہنچانے میں سرکار کی مدد کر سکیں۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ پاکستان کے صحت کا نظام اتنا اچھا ہو جائے گا کہ ہر شخص کو علاج معالجے کی سہولتیں مہیا کر دی جائیں گی۔

میڈیکل یونیورسٹیوں کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ فیکلٹی ممبران جز وقتی سے کل وقتی ملازم ہو گئے اور صبح سے شام تک ہسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال کرنے لگے ساتھ ہی انہیں میڈیکل کی تعلیم اور ڈاکٹروں کی تربیت پر توجہ دینے کے لیے وافر وقت ملنے لگا۔ دیکھتے دیکھتے میڈیکل کی تعلیم اور تربیت کا معیار امریکا جیسا ہو گیا۔

کالج آف فزیشن سرجن پاکستان نے پی ایم ڈی سی کی مدد سے پورے پاکستان کے نوجوان ڈاکٹروں کے لیے اسٹرکچرڈ ٹریننگ پروگرام بنایا۔ جس کی بھرپور حمایت میڈیکل یونیورسٹیوں کی طرف سے کی گئی اور پاکستان میں طب کی تعلیم، ڈاکٹروں کی تربیت اور مریضوں کی صحت کی نگہداشت میں انقلابی تبدیلیاں آنی شروع ہو گئیں۔ بہت سے پرائیویٹ اسپتال بند ہو گئے کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو بہت زیادہ تنخواہ ملنی شروع ہو گئی تھی اور کوئی نجی ہسپتالوں میں سیٹھوں کی نوکری کرنے کو تیار نہیں تھا۔

میڈیکل یونیورسٹیوں کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوا کہ نرسوں، مڈوائفوں اور صحت کے کارکنوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی، پاکستان میں جہاں ایک نرس کے مقابلے میں آٹھ ڈاکٹر بنائے جا رہے تھے وہاں ایک ڈاکٹر کے مقابلے میں دس نرسوں کی تربیت ہونے لگی جس کی وجہ سے ہسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج میں بہت بہتری آ گئی۔ ہندوستان میں پاکستان کی اس زبردست کامیابی کے بعد مطالبہ کیا جانے لگا کہ پاکستان کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے کم از کم ہر صوبے میں ایک میڈیکل یونیورسٹی ضرور بنائی جائے۔

مرکزی حکومت نے ملک کے ایٹم بم بنانے کے احمقانہ پروگرام کو ختم کر دیا اور وہ تمام فنڈنگ صحت اور تعلیم کی طرف منتقل کردی۔ نرسوں، مڈوائف، پیرامیڈیکس اور ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ ہو گیا کہ فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش اور نیپال سے صحت کے کارکن پاکستان کو تعلیم وتربیت اور کام کرنے کے لیے چننے لگے۔

امریکا، یورپ اور عرب ممالک سے بے شمار مریض پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں کے پرائیویٹ وارڈوں میں علاج کے لیے آنے لگے جس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخیرے میں زبردست اضافہ ہونے لگا۔ صحت کے شعبے میں ترقی کی اس رفتار کو دیکھتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے حکومت اور عوام سے معافی مانگی کیونکہ انہوں نے میڈیکل یونیورسٹیوں اور نئے میڈیکل کالجوں کی سخت مخالفت کی تھی۔

ایک بین الاقوامی کانگریس میں جس کا انعقاد اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او اور یونیسکو نے کیا تھا یہ بات تسلیم کی گئی کہ امریکا، انگلستان اور یورپ میں میڈیکل یونیورسٹیاں نہ بنانے کی وجہ سے طب کے پیشے میں وہ خاطر خواہ ترقی نہیں ہوئی جو پاکستان جیسے ملک نے پندرہ سال میں کر لی۔ پاکستان میں طب کے تعلیم اور تربیت کے ماڈل کو تسلیم کرتے ہوئے دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں نے انفرادی میڈیکل کالجوں کو ختم کر کے علیحدہ علیحدہ میڈیکل یونیورسٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ کو اقوام متحدہ نے پاکستان سے مانگ کر ڈبلیو ایچ او ( ڈبلیو ایچ او ) کے اعلیٰ عہدے پر فائز کر دیا گیا تاکہ وہ دنیا بھر میں میڈیکل یونیورسٹیاں بنانے میں مدد کر سکیں۔

سچ تو یہ ہے کہ ابو اور میری والدہ، زندہ نہیں بچتے اگر پرانا نظام ہوتا، صحت کے شعبے میں انقلابی تبدیلیوں کے بعد پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہونے لگا تھا جو عوام کی صحت کا خیال رکھتے ہیں۔

سچ کیا ہے؟

پاکستان میں سیاست دانوں، افسر شاہی کے افسروں، اور فوجی حکمرانوں کی مرضی اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے مالکان اور سرکاری اداروں کے سینئر ڈاکٹروں کے تعاون سے پاکستان میڈیکل ڈینٹل کونسل کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ اور سرکاری اور نجی شعبے میں غیر معیاری میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں بنائی گئیں جن کا کوئی معیار نہیں ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی میڈیکل کالج سوائے آغا خان میڈیکل کالج کے پی ایم ڈی سی کے مکمل معیار کے مطابق نہیں ہے۔

پاکستان کی ایک میڈیکل یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر نے ایک میڈیکل کالج میں رات میں پڑھنے کے لیے شبینہ میڈیکل کالج کھول دیا۔ ایک دوسرے وائس چانسلر نے بغیر اسپتال کے لڑکوں کے لیے علیحدہ میڈیکل کالج قائم کیا۔

پاکستان میں طب کی اعلیٰ تعلیم کے ادارے کالج آف فزیشن سرجن پاکستان (CPSP) نے صرف امتحان لینے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے، انہیں نہ تو نوجوان ڈاکٹروں کی عملی تربیت سے دلچسپی ہے نہ ہی ان کو اخلاقی قدروں اور مریضوں کے علاج میں پیشہ ورانہ رویوں کے بارے میں فکر ہے۔ سی پی ایس پی نے تربیتی اسپتالوں میں اسٹرکچرڈ تربیتی پروگرام کے لیے کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ہی یہ ممکن بنایا کہ پوسٹ گریجویٹ تعلیم و تربیت کے لیے نشستوں میں اضافہ ہو۔

پاکستان کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں اربوں روپے عمارتوں کی تعمیر اور آلات کی خریداری پر خرچ کیے گئے۔ یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کے لیے لش پش، دفتروں اور بڑی بڑی گاڑیوں پر تو رقم خرچ کی گئی مگر مریضوں کی دیکھ بھال، نرسوں مڈوائف اور پیرامیڈیکس کی حالت زار پر کوئی رقم خرچ نہیں کی گئی۔ پاکستان میں نرسنگ کا معیار بہت خراب ہے اور پاکستان نرسنگ کونسل کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

ماسوا چند ایک پروفیسر کے، جنہوں نے اپنے وارڈوں میں نوجوان ڈاکٹروں کی تربیت کا نظام بنایا ہوا ہے، کسی بھی یونیورسٹی (آغا خان یونیورسٹی کے علاوہ) میں مرکزی طور پر تربیت کا تعلیمی نظام موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔

ہر صوبے میں میڈیکل یونیورسٹی اور کئی کئی میڈیکل کالج بنانے کے باوجود سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ نجی میڈیکل کالجوں اور ہسپتالوں کارکردگی میں بھی مایوس کن ہیں، سوائے اس کے کہ مالکان کی دولت میں مزید اضافہ ہوا ہے اور ان کے ہسپتالوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو نہ تو پاکستان کے عوام کی بگڑتی ہوئی صحت کی صورت حال سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی اس بات کی فکر ہے کہ ہم پاکستان میں پڑھے لکھے عطائی ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔

موجودہ حالات میں اس بات کی قطعاً امید نہیں کہ PMDC اور PNC کو فعال بنایا جائے گا CPSP اور میڈیکل یونیورسٹیوں میں نوجوان ڈاکٹروں کی تعلیم و تربیت کے لیے مرکزی سطح پر منصوبہ بندی کی جائے گی اور پاکستان میں عوام کو بنیادی اور ہنگامی صحت کے لیے نہیں ترسیں گے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments