دو قومی ریاستوں کا اقرار لیکن دو قومی ہند کا انکار؟


تحریک آزادی ہند کے دوران سیاسی اور جمہوری وزن کے لحاظ سے کانگریس، مسلم لیگ اور انگریزی حکومت تینوں فیصلہ کن قوتیں تھیں۔ اور تینوں کے سامنے مسئلہ ہند کا حل طلب سوال یہ تھا کہ ہندوستان کو بدیسی اقتدار سے آزادی کا حق ملے اور اس کی جگہ دیسی اقتدار کا حق طے ہو۔ اس جانب بدیسی اقتدار ’یعنی انگریزوں کا جانا تو ٹھہر گیا تھا‘ لیکن اس کے بعد دیسی اقتدار کی گتھی سلجھنے کی بجائے ایسی الجھتی گئی ’کہ جس کے نتیجے میں بالآخر دیسی اقتدار کا افتتاح ہی مادر وطن ہند کے اپنے بیٹوں کے ہاتھوں اس کے دو ملکی بٹوارے کی علانیہ قبولیت کے سمجھوتے پر آ کر طے ہوا۔

اسے تاریخ میں 3 جون 1947 کو ہونے والے تقسیم ہند کے بیٹن۔ پاٹیل منصوبے کا درجہ حاصل ہے اور جس پر بعد ازاں 18 جولائی 1947 کو شاہ برطانیہ جارج پنجم کے دستخط ہوئے تو اسے باقاعدہ قانون آزادی کا درجہ حاصل ہو گیا اور جس کی رو سے عظیم ہند، متحدہ ہندوستان یا آل انڈیا نام کا کوئی ملک باقی نہ رہا بلکہ اس کی جگہ پاکستان اور بھارت نام کی دو آزاد اور خود مختار قومی ریاستیں وجود لے کر قائم ہوئیں۔

اس سے آگے پھر بنگلہ دیش نکال کر پاکستان کو تقسیم کر دیا گیا اور اس سلسلے کا چل چلاؤ جس زور و شور سے خطرناک آزمائشوں کی زد پر ہے اگر لامحالہ ان پر آ ٹکا تو پھر آگے شاید ”نہ رہے بانس نہ بجے بانسری“ جیسی کوئی نوبت ہی رہ پائے گی کیونکہ مسئلہ ہند کی طرح مسئلہ کشمیر کی چنگاری بھی عالمی اداروں نے ویٹو۔ وکٹ مچانے کے لئے سلگا رکھی ہے۔

ہند، بدیسی اقتدار سے گلو خلاصی پانے کے بعد جب دیسی اقتدار کے ہاتھ چڑھنے کو آیا تو اس پر گرفت حاصل کرنے کے لیے کانگریس کا پلہ بھاری تھا کیوں کہ صوبوں سے مرکز تک حکومت سازی اور دستور سازی کے لیے اسے مسلم لیگ کے مقابلے میں عددی برتری حاصل تھی۔ اس لحاظ سے ہندوستان کی جڑت یا اس کی ونڈت کے فیصلے کا دار و مدار کانگریس اور اس کے قائدانہ رول پر تھا۔ اس دوران اگر مسلم لیگ کو کانگریس جیسی عددی برتری کا وزن حاصل ہوتا تو تاریخ یقیناً مختلف ہوتی۔

تاریخ کے مختلف ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ مسلم اقتدار کے تحت بابری مسجد کے ہندوؤں سے انہدام جیسے اقدامات کی جگہ مندروں، گوردواروں کو منہدم کر دینے کے اقدامات مسلمان اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ اس کے برعکس اس تاریخ کے مختلف ہونے کا مطلب وہ ہوتا جو قائداعظم نے سب سے پہلے کانگریس۔ لیگ کے باہمی اور متفقہ دستخطوں سے طے کردہ ”میثاق لکھنو“ میں سمو کر متحدہ ہند کے قیام و استحکام کی بنیاد رکھ دی تھی تاکہ اس بنیاد پر ریاستی دستور سازی بھی ہندو مسلم دو قومی تفریق کے میثاقی بندھن کی نشاندہی سے مشروط رہے اور اسمبلی میں کوئی ایسا مسودہ قانون بھی زیر بحث نہ لایا جا سکے گا جس پر کسی متاثرہ فریق کے تین چوتھائی ممبران کھڑے ہو کر اس کی نفی کر ڈالیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ 16 دسمبر 1916 کو لیگی سیشن لکھنؤ کے صدارتی خطبے میں قائداعظم نے سرزمین ہند کو سب کا مادر وطن قرار دیتے ہوئے اس کی کوکھ سے جنم لینے والی ہندو مسلم دونوں بڑی آبادیوں کو باہم ”جڑواں بہنیں“ ہونے کے دو قومی نصب العین کی نشاندہی سے بھی ہمکنار کر دیا تھا (خالد بن سعید۔ پاکستان دی فارمیٹو فیز صفحہ نمبر 40)

قائداعظم کی اولین ترجیح (First Best) ہندو مسلم دو قومی تفریق کے میثاقی بندوبست پر استوار متحدہ ہندوستان کے قیام و استحکام کا حصول رہا تھا۔ 1928 میں نہرو رپورٹ سے میثاق لکھنو پر ہندو قیادت کا انحراف پھوٹ نکلا اور کانگریس دوقومی تفریق کی بجائے اپنے متحدہ قومیت کے زعم میں مبتلا ہو گئی ’تاکہ باقی سب قومیں ہندو اکثریت کے قالب میں ڈھل کر اس کا ذیلی حصہ‘ اقلیتی فرقہ یا محض دوسرے درجہ کی بدیسی اکائیاں ہو کر رہ جائیں۔

تو قائداعظم کی نظروں میں اسی وقت مسلمانوں کا ہندوؤں کے ہاتھوں وہ حشر ہونا گھوم گیا جو آج کل وزیراعظم جناب نریندر مودی کے بھارت میں انہیں دوسرے درجے کے شہری ہونے کا احساس دلا کر دکھایا جا رہا ہے۔ تو مستقبل کے اسی خطرے کو بھانپ کر 1940 میں آ کر قرارداد لاہور کی صورت میں قائد اعظم اپنی دوسری ترجیح (Second Best) سامنے لے آئے تاکہ بہ جبر و اکراہ ”ہجرت“ کی نوبت آ گھیرے تو آگے کوئی ”مدینہ“ قیام گاہ بن سکے۔

قرارداد لاہور میں پاکستان کا نام 1946 تک خالی پڑا رہا کیونکہ بقول مولانا آزاد آخر وقت تک پاکستان جناح کے لیے محض اس کے عوض دھمکاوے یا ڈراوے ( ”بارگیننگ کاؤنٹر“ ) کا ہتھیار رہا تھا (انڈیا ونز فریڈم صفحہ نمبر 198، 197 ) ۔ اس کے بعد کابینہ مشن پلان آیا جس میں پاکستان کا کوئی ذکر نہ تھا۔ تو اس کے لیے دستور سازی کا حصہ بننا بھی قائداعظم نے مان لیا لیکن جب مولانا آزاد کی جگہ ”پنڈت نہرو“ صدر کانگریس بنے تو ان کے اس پریس اعلامیہ پر دستور سازی کا بائیکاٹ کر لیا کہ کانگریس اسمبلی میں کابینہ مشن پلان کی شرائط میں رد و بدل کر لینے پر آزاد ہو گی۔ (آزاد صفحہ نمبر 165 )

مسلمانان ہند انگریزوں سے پہلے ہندوستان کے کلی اقتدار پر فائز رہے اور اب بھی ہند کے اندر جزوی اقتدار ان کے پاس تھا۔ اس لیے وہ جداگانہ قوم کی قوت تھے۔ پاٹیل نے بیٹن پلان کے جواز میں بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ ”ہندوستان میں دو قومیں ہیں“ (آزاد صفحہ نمبر 201 )۔ اسی طرح پنڈت نہرو کے نزدیک برطانوی راج کے تحت کانگریسی۔ انگریزی دو قومی ہند قابل قبول تھا (مطالعہ پاکستان ڈگری کلاسز صفحہ نمبر 117 ) تو ہندو مسلم دوقومی ہند کانگریس کی ہندو قیادت کو کیوں کھٹکتا تھا؟

1944 کے گاندھی جناح مذاکرات میں بھی قائداعظم کو علاقائی خودمختاری کا حق دینے کی پیشکش کی گئی تھی۔ جس میں جداگانہ مسلم قومیت کی نفی شامل تھی۔ تو قائداعظم اس پیشکش کو ٹال گئے کیونکہ محض دوملکی تقسیم قائداعظم کی ترجیح نہیں تھی۔

تقسیم ہند کے قانون آزادی میں بھی دو آزاد خودمختار قومی ریاستوں کی تصدیق ثابت رہی۔ پھر بھی کانگریس کی ہندو قیادت نے دوقومی ہند بچانے کا جناح نصب العین کیوں پورا نہیں ہونے دیا؟ اس سوال کا جواب کانگریس نے خود 14 جون 1947 کی قرارداد ”اکھنڈ بھارت“ سے دے رکھا ہے کہ جب تک علیحدہ کیے گئے علاقے بزور قوت ”یونین آف انڈیا“ میں واپس لا کر جوڑ نہیں لیے جاتے اس وقت تک خطے میں کبھی امن قائم نہیں ہونے دیا جائے گا (شہاب نامہ صفحہ نمبر 207 )

بھارت کی ہندو سرکار کو حیدرآباد، جوناگڑھ، مقبوضہ کشمیر، بنگلہ دیش جیسی ونڈتوں کی کھلی چھوٹ پاکستان نے خود ”نظریہ اسلام“ کے حق جواز پر اپنی علیحدگی پسندی کی ڈپلومیسی بنا کر دے رکھی ہے۔ جس کا صاف مطلب بھارت کے اندر باقی رہ جانے والے اپنے مادر وطن سے کلی دستبرداری اختیار کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت کا علاقائی حصہ جس متحدہ قومیت کے دعوے پر کانگریس کے حق میں پڑنے والے ووٹوں سے قائم ہوا ، اس میں کانگریس کی اتحادی مسلم قیادتوں کے ساتھ ساتھ لیگ مخالف مسلم قیادتوں اور ان کی جماعتوں کا ووٹ بھی شامل تھا۔

خود مولانا ابوالکلام آزاد سات سال تک کانگریسی صدر رہے۔ پاکستان مدینہ ریاست کی تقلید کا داعی ہے تو ”مکہ“ کی طرح اپنے مادر وطن ”بھارت“ کو واپس لینے کے لئے ”میثاق مدینہ“ کی سنت ”نظریہ پاکستان نہیں“ بلکہ میثاق پاکستان ہونا ثابت کرے اور بھارت کے ساتھ دو قومی ہند سے مشروط میثاقی ڈپلومیسی کا بیانیہ بروئے کار لائے

محمد فاروق  ”انسانی تہذیب اور خلافت کا نظام“ ، ”پاک۔ بھارت ونڈت میں ہند جڑت کی بولی“ ، اور ”سیاسی نظری مغالطوں میں ہندو مسلم ایکا“ کے مصنف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments