حسن علی کی واپسی اور پاکستان کی سیریز میں فتح

سمیع چوہدری - کرکٹ تجزیہ کار


کبھی کبھی حالات ایسا پلٹا کھاتے ہیں کہ بہت معمولی اور عام سی چیزیں بھی یکایک نہایت اہم اور غیر معمولی ہو جاتی ہیں۔ کہنے کو یہ سیریز بھی معمولی سی تھی جس میں کسی جوش کی توقع نہ تھی۔

لیکن پہلے میچ میں پاکستان نے اپنی جیت کو جس قدر مشکل بنایا، اس کے بعد سیریز کے دلچسپ ہونے کے امکانات خاصے بڑھ گئے تھے۔ اور دوسرے میچ میں تو آسان ہدف کو مشکل بناتے بناتے جس طرح پاکستان نے ایک غیر متوقع شکست کو گلے لگایا، اس نے آج کے میچ کی اہمیت دو چند کر دی۔

زمبابوے کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا۔ ہار بھی جاتے تو کوئی متعجب نہ ہوتا کہ بالآخر یہ وہ ٹیم ہے جو رواں برس کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا حصہ ہی نہیں ہے۔ لیکن اگر ولیمز کی ٹیم یہاں جیت جاتی تو یہ ایک تاریخ ساز لمحہ ہوتا کہ زمبابوے پہلی بار کسی ٹیسٹ پلیئنگ ملک کے خلاف ٹی ٹونٹی سیریز جیتتا۔

دلچسپ بات یہ رہی کہ رواج کے برعکس رواں سیریز میں باؤنڈریز بڑی رکھی گئیں۔ ٹی ٹونٹی میں عموماً 60 میٹر سے 65 میٹر تک کی باؤنڈریز مقرر کی جاتی ہیں مگر یہاں فاصلہ کوئی پانچ سات میٹر زیادہ ہی تھا، جس کے سبب بحیثیتِ مجموعی خال ہی چھکے دیکھنے کو ملے۔

مزید پڑھیے

پاکستان کی فتح، میچ اور سیریز پاکستان کے نام

نحیف سے ہدف نے بھی پاکستان کو کیوں لڑکھڑا دیا؟

’بس بہت ہو چکا، اب میں پاکستان کا فین نہیں رہا، انگلینڈ کا فین بن رہا ہوں‘

ٹی ٹونٹی میں بلے باز پاور ہٹنگ اور چھکے چوکوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ سنگل ڈبل کرنے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

پچھلے میچ میں پاکستان اور زمبابوے، دونوں کے بلے بازوں نے یہی غلطی کی۔ جب سٹرائیک بھی نہ گھمایا گیا اور باؤنڈریز بھی مفقود رہیں تو نتیجتاً ایک نحیف سا مجموعہ دیکھنے کو ملا جو کسی بھی طور سے ٹی ٹونٹی کرکٹ کے معیارات کے شایانِ شان نہ تھا۔

پاکستان نے اس سے خوب سبق سیکھا اور رضوان نے پچھلے میچ کی دفاعی حکمتِ عملی کے یکسر برعکس، یہاں خود کو پوری طرح مصروف رکھا۔ بابر اعظم اور ان کی شراکت داری میں سٹرائیک کسی ایک اینڈ پہ رکا نہیں اور بالآخر یہی چیز میچ میں واضح مارجن ثابت ہوئی۔

دوسری جانب پاکستان نے سلیکشن میں اگرچہ ایک دو عجیب و غریب فیصلے کیے کہ جن کی تائید یا تردید کے لیے دستیاب ڈیٹا ناکافی ہے مگر ایک فیصلہ بہرحال ایسا تھا کہ جس کی تائید کرنے کو فوری طور پہ حوصلہ افزا ڈیٹا بھی میسر آ گیا۔

یہ فیصلہ تھا حسن علی کی واپسی۔ گو ایسی لو پروفائل سیریز میں بھی بڑی ٹیمیں کبھی ایسا نہیں کرتیں کہ اپنے دو سینئر ترین اٹیک بولرز کو ایک ساتھ آرام کا موقع فراہم کر دیں مگر پاکستان نے خلافِ توقع پہلے دونوں میچز میں اپنے دونوں تجربہ کار ترین بولرز کو بینچ پہ بٹھا دیا۔

شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی کے لیے یہ توقف ضروری بھی تھا کہ آنے والے دو ٹیسٹ میچز میں ان کا ورک لوڈ کافی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ اس تناظر میں یہ فیصلہ برا نہیں تھا لیکن چونکہ محمد حسنین اور حارث رؤف توقعات کو نبھانے میں ناکام رہے، اس لیے یہاں دونوں میں سے کسی ایک تجربہ کار بولر کی واپسی لازم تھی۔

اس وکٹ پہ ڈیڑھ سو رنز کا ہدف بھی خاصا چیلنج ہوتا ہے۔ لیکن مدھویرے اور مرومانی نے جو آغاز فراہم کر دیا تھا، اس کے بعد بعید نہیں تھی کہ مڈل آرڈر میں برینڈن ٹیلر اور شان ولیمز کا تجربہ ہی زمبابوے کو ہدف کے پار لے جاتا اور ایک تاریخی سنگِ میل عبور ہو جاتا۔

لیکن حسن علی نے ان کے ارمان پورے نہ ہونے دیے۔ حسن علی بھلے کبھی کبھار مہنگے ثابت ہوتے ہوں مگر ٹی ٹونٹی میں ان جیسا بولر ہر ٹیم کی ضرورت ہے جو موقع محل، سیاق و سباق اور بلے باز کے عزائم کو پڑھ کر اپنی لائن، لینتھ اور رفتار بدلنا جانتا ہو اور اس بدلاؤ میں بھی اتنی ورائٹی ہو کہ تجربے کار بلے باز بھی جواب نہ لا پائیں۔

گو پاکستان کی یہ سیریز فتح اتنی پرذائقہ نہیں رہی جتنی جنوبی افریقہ کے خلاف تھی مگر بہرحال یہ ایک سیریز کی جیت ہے اور جیت یمیشہ مبارک باد کا ہی تقاضا کرتی ہے۔ محمد رضوان تو پے در پے اپنے کھیل میں اتنا نکھار لا رہے ہیں کہ توصیفی کلمات ہی کم پڑتے جا رہے ہیں اور حسن علی کی یہ کرئیر بیسٹ پرفارمنس تو بلاشبہ داد و تحسین کی مستحق ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp