آکسیجن کی کہانی (قسط 1): ایڈیسن کے آخری سانس کیوں محفوظ کیے گئے؟


اٹھارہ اکتوبر 1931 کی شام ڈھل رہی ہے۔ 84 سال کی مصروف اور کامیاب زندگی گزارنے کے بعد لائٹ بلب سمیت درجنوں انقلابی ایجادات کے موجد تھامس ایڈیسن اپنے آرام دہ بستر پر دراز آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ ان پر گہری غنودگی طاری ہے۔ نبض ڈوبتی جاتی ہے اور ہر سانس پچھلے سے زیادہ اکھڑا ہوا آتا ہے۔ قریب بیٹھا ان کا بیٹا چارلس یکایک اٹھتا ہے اور شیشے کی ایک ٹیسٹ ٹیوب جاں بہ لب والد کی ناک کے قریب لے آتا ہے، ایڈیسن کے سانس کا اخراج ٹیوب میں ہوتا ہے جس کا منہ چارلس فوراً ایک کارک لگا کر بند کر دیتا ہے۔

ایک ملازم پیرافن سے ٹیوب کو اچھی طرح سربمہر کر دیتا ہے۔ ایڈیسن کو مزید سانسیں لیتے دیکھ کر یکے بعد دیگرے اسی طرح کی آٹھ ٹیسٹ ٹیوب میں نکلتی سانسوں کو محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ یہ عمل ایڈیسن کے خاص دوست، شاگرد، موجد اور صنعت کار ہنری فورڈ کی شدید خواہش پر کیا گیا ہے جو روحانیت پر بھی یقین رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے غیر معمولی دوست کے بدن سے نکلتی روح کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا جائے تاکہ مستقبل میں جب سائنس ترقی کر لے تو ایڈیسن کی روح سے انہی جیسا جیتا جاگتا انسان بنایا جا سکے۔

تھامس ایڈیسن کی ’روح‘ کی زیارت کے لئے آپ کو مشی گن میں واقع ہنری فورڈ میوزیم جانا پڑے گا جہاں ایک سربمہر ٹیوب نمائش کے لئے رکھی گئی ہے۔

آکسیجن کی کہانی اس وقت تک نہیں سمجھی جا سکتی جب تک انسانی نظام تنفس کے متعلق ہماری معلومات کے ارتقاء کو اچھی طرح نہ جان لیا جائے۔

قدیم یونان میں انسانی فزیالوجی

موجودہ ترکی میں پیدا ہونے والے یونانی فلسفی اناکسیمینیز چھٹی صدی عیسوی قبل مسیح میں وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ہوا ہی وہ اہم ترین بنیادی مادہ ہے جس نے کائنات کو سنبھالا ہوا ہے۔ انہی کو پہلی مرتبہ لفظ نیوما یعنی سانس استعمال کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان کا یہ قول آج تک سلامت ہے : ”جیسے ہماری روح ہمیں برقرار رکھتی ہے بالکل اسی طرح نیوما اور ہوا ساری دنیا میں نفوذ کیے ہوئے ہے“

ایک صدی بعد فیثا غورثی مکتب فکر کے فلسفی ایمپوڈیکیلیز نے جسم میں خون کی حرکت کے متعلق خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ جوار بھاٹا بس دل کی کار گزاری ہے۔ انہوں نے حرارت غریزی کا تصور پیش کیا جو ان کے خیال میں خون کے توسط سے پورے جسم میں پھیل کر حیات کا باعث بنتی ہے۔ ایمپوڈیکیلیز ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے کہا کہ تمام اشیاء چار بنیادی عناصر یعنی ہوا، مٹی، پانی اور آگ پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ تصور ایک سو سال بعد آنے والے عظیم فلسفی ارسطو کے دور میں ترقی پا کر چار مزاج کے نظام میں ڈھل گیا۔

بقراط کو قدیم یونانی دور کے بہت اہم دانشور کا درجہ حاصل ہے، انہوں نے حرارت غریزی کے نظریہ کو مزید وسعت دیتے ہوئے خیال ظاہر کیا کہ نظام تنفس کا کام دراصل جسم کو ٹھنڈا رکھنا ہے۔

بقراط کے ایک بزرگ ہم عصر افلاطون نے وضاحت کی کہ ”چونکہ دل سے پیدا ہوتی حرارت ناقابل برداشت ہو سکتی ہے چنانچہ روح ازل نے پھیپھڑوں کو اس کے ساتھ ہی رکھ دیا ہے تاکہ وہ درجہ حرارت کم کرتے رہیں“

ارسطو کے دو غلط اندازے آنے والے ڈیڑھ ہزار برس تک اطباء، مفکرین اور فلاسفہ کو گمراہ کرتے رہے۔ ایک تو یہ خیال کہ عقل و دانش کی قیام گاہ دماغ نہیں بلکہ دل ہے اور دوسرا یہ خیال کہ زندہ اور بے جان اشیاء ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں کیونکہ زندہ اشیاء میں ”حیات“ وائٹلزم ہوتی ہے۔

یونانی طبیب ایراسسٹریٹس کے سر یہ سہرا بندھتا ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ کھینچے ہوئے سانس کی اہمیت کا اندازہ لگایا اور یہ بھی بتایا کہ پھیپھڑوں سے آتا خون بائیں وینٹریکل میں جا نکلتا ہے جہاں وہ روح حیات سے سیراب ہو جاتا ہے۔ یہ روح حیات ہوا سے لبریز شریانوں کے ذریعے پورے جسم میں پھیل جاتی ہے۔ اس میں کچھ دماغ کو پہنچتی ہے جہاں وہ حیوانی روح میں تبدیل ہو کر نسوں کی وساطت سے پٹھوں میں پہنچ جاتی ہے۔

جالینوسی مدرسہ

جالینوس جدید طب کی ابتدا سے قبل سب سے بڑا طبیب تھا۔ جو خود مندرجہ بالا اطباء اور فلاسفہ سے متاثر تھا۔ اس کی تعلیمات کے دو اہم ترین پہلو مندرجہ ذیل ہیں :

چار مزاج کا تصور جو جسم کے چار مائعات سے اخذ ہوتے ہیں۔ خون، صفرا، سیاہ صفرا اور بلغم۔ ابن سینا سمیت قرون وسطیٰ کے تمام اطباء اسی تصور کے حامی رہے۔

جالینوس کے نظام قلبی و تنفسی میں خون دل کے دائیں جانب سے داخل ہو کر نہ نظر آنے والے سوراخوں سے بائیں جانب داخل ہو جاتا ہے جس میں تنفسی ہوا سے نیوما شامل ہو جاتی ہے اور خون کو روح حیات سے سیراب کر دیتی ہے۔ یہی خون جب دماغ کو پہنچتا ہے تو روح حیوانی اس میں شامل ہو کر پورے بدن میں پھیل جاتی ہے۔

جالینوسی طب کا سب سے بڑا نام القانون فی الطب کے مصنف ابن سینا کو قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اسکول جانے والے ہر بچے کو یہ نام ازبر ہوتا ہے۔

391 ء میں اسکندریہ کی عظیم لائبریری جہاں جالینوس بیٹھ کر پڑھا کرتا تھا، عیسائی جنونیوں کے ہاتھ تاخت و تاراج ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد روم جرمن وحشی غولوں کے قبضے میں آ گیا۔ سینٹ آگسٹائن جیسے دینی رہبروں کو عروج حاصل ہوا جنہوں نے عوام الناس کو اس دنیائے فانی میں اپنی حالت زار پر پریشان ہونے کے بجائے بعد از موت ابدی حیات بہتر بنانے کی تبلیغ و تاکید کی۔ یورپ میں دینی درسگاہیں اور کلیسا علم و تحقیق کے مراکز قرار پائیں جہاں علوم الدینیہ اور الٰہیہ کی تعلیم دی جاتی۔

ویسالیئس اور علم الابدان کی دوبارہ پیدائش

برسلز میں پیدا ہونے والے آندریس ویسالیئس جو یونیورسٹی میں مردوں کی کاٹ پیٹ کر کے طلباء اور عوام کو جسم کے حصے دکھایا کرتا تھا کو یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ دل کے دائیں اور بائیں حصے میں جالینوس کی بیان کردہ کوئی جھلی نہیں جس سے خون گزر سکے۔ کیونکہ اس وقت تک جالینوسی طب عیسائی تعلیمات سے اس طرح خلط ملط ہو چکی تھی کہ اس انکشاف کو کفر سمجھ لیا گیا۔ بادشاہ چارلس پنجم نے ایک انکوائری بٹھا دی جس کا مقصد یہ تعین کرنا تھا کہ ویسالیئس کے دعوؤں سے کہیں توہین عیسائیت تو نہیں ہو جاتی۔ یہ ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ دمشق میں پیدا ہونے والے طبیب اور قانون دان ابن نفیس کو وہ پہلا شخص مانا جاتا ہے جنہوں نے تیرہویں صدی میں ہی پھیپھڑوں میں دوران خون کا پتہ لگا لیا تھا۔

ولیم ہاروے اور جدید فزیالوجی

1628 میں برطانوی شاہی طبیب ولیم ہاروے نے پہلی مرتبہ دل کے چار خانوں اور ان کے افعال کو سائنسی طور پر بیان کیا اور پھیپھڑوں سے دل کے تعلق کی تشریح کر کے جدید فزیالوجی کی بنیاد رکھی۔

ہنری فورڈ میوزیم میں رکھی ٹیسٹ ٹیوب میں کیا ہے؟ ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے لیکن آج کے ہر میڈیکل اسٹوڈنٹ کو علم ہوتا ہے کہ انسانی سانس کے اخراج میں 79 فیصد نائٹروجن اور 4 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے علاوہ 16 فیصد وہ عنصر ہوتا ہے جس کے بغیر زندگی ناممکن ہے اس عنصر کو آج پوری دنیا آکسیجن کے نام سے جانتی ہے۔
جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments