کورونا سے سہمی اور موت کے منڈلاتے سائے میں ڈوبی دلی کا آنکھوں دیکھا حال

زبیر احمد - بی بی سی نیوز، دہلی


گذشتہ چند دنوں سے دہلی کے ہسپتالوں میں آکسیجن ختم ہونے، بستروں، ادویات اور وینٹیلیٹروں کی کمی کی اطلاعات کے درمیان میں سنیچر کی صبح اپنی گاڑی میں اس بحران کا جائزہ لینے کے لیے نکلا۔

میں نے کئی ہسپتالوں کا دورہ کیا، بس اڈے اور ریلوے سٹیشن کی حالت دیکھی۔

سڑکوں پر کم ہی گاڑیاں نظر آئیں۔ میری کار کے دونوں جانب سے ایمبولینسز شائیں شائيں گزر رہی تھیں اور ان کے سائرن کی بازگشت دیر تک سنائی دے رہی تھی۔

تقریباً دو کروڑ کی آبادی والا یہ میٹروپولیٹن شہر سنیچر کے روز توقع سے زیادہ خاموش تھا۔ دکانیں اور بازار سب بند تھے، صرف وہی لوگ گھر سے باہر تھے جن کو باہر جانے کی مجبوری تھی یا جن کے پاس باہر جانے کے لیے کرفیو پاس تھا۔

یہ بھی پڑھیے

وہ شہر جہاں سانس لینا بھی عیاشی بن گیا ہے

وہ تصاویر جو انڈیا میں کورونا بحران کی شدت کو بیان کرتی ہیں

’اب تو غم کا بھی احساس نہیں ہوتا، میں پوری طرح بے حس ہو چکی ہوں‘

امیر لوگ گھروں میں ہی ’منی آئی سی یو‘ کا انتظام کروا رہے ہیں

دلی میں پیر کی صبح تک لاک ڈاؤن اور کورونا کرفیو نافذ تھا جس میں اتوار کے روز وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے ایک ہفتے کی توسیع کر دی تھی۔

سنسان سڑکیں

ہسپتالوں کی حالت

میں نے دارالحکومت میں ہسپتالوں کی حالت دیکھی۔ یہاں کووڈ 19 کے مریضوں کے رشتہ دار یا تو اپنی سانسوں کو کسی طرح سے برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے تھے اور ہسپتال کے حکام سے مدد کی التجا کر رہے تھے۔

میں جہاں گیا اس ہسپتال کے باہر تختی پر لکھا تھا کہ ‘بیڈ دستیاب نہیں ہیں۔’

میں نے مریضوں اور متاثرین کے لواحقین کے چہروں پر مایوسی دیکھی، ان کی بے بسی کو محسوس کیا، ساتھ ہی میں نے ان کے پڑوسیوں کا جذبہ اور دوستوں کی قربانیوں کو بھی محسوس کیا۔

مجھے واقعی یہ محسوس ہوا کہ اس مشکل وقت میں جہاں تمام حکومتیں تقریباً غائب ہیں لوگوں میں بھائی چارہ زندہ ہے اور انسانیت اب بھی ان میں باقی ہے۔

کیا مسلمان، کیا ہندو، کیا امیر اور کیا غریب، تقریباً ہر طرح کے لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔

لواحقین

مریضوں کے لواحقین کی بے بسی

میرا پہلا سٹاپ دہلی کا معروف ہسپتال آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) تھا جہاں ملک بھر سے لوگ علاج کے لیے آتے ہیں۔

اس ہسپتال کا احاطہ اتنا وسیع ہے کہ اگر آپ کو اس کا بخوبی علم نہیں ہے تو پھر آپ کو یہاں بھٹکنے کا ڈر ہوتا ہے۔ یہ ملک کا پریمیئر ہسپتال ہے جہاں امیر اور غریب دونوں ہی طرح کے لوگوں کا علاج ہوتا ہے۔

یہاں مجھے کووڈ 19 وارڈ میں جانے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی میں اندر جانا چاہتا تھا۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ کورونا کا علاج یہاں بہت اچھا ہوتا ہے۔

پچھلے سال میرا بھائی کورونا انفیکشن کے بعد 12 دنوں تک یہاں زیر علاج تھا۔ جب وہ یہاں لایا گیا تو ہسپتال کے ڈائریکٹر رندیپ گلیریا نے کہا تھا کہ بھائی کے بچنے کے صرف 50 فیصد امکانات ہیں۔ آخر وہ صحت مند ہو کر باہر آیا۔

سنیچر کے روز یہاں کے کووڈ 19 وارڈ کے باہر بہت سارے لوگ جمع تھے۔ ان میں سے بیشتر دہلی کے باہر سے آئے تھے اور ان کا تعلق معاشی طور پر کمزور طبقے سے تھا۔ بہت سے لوگوں نے فرش پر ڈیرے ڈال رکھے تھے اور ان میں سے کچھ وہیں کھانا پکا رہے تھے۔

ہسپتال

ہسپتال بھی بے بس

ابھی میں ایمس کے باہر لوگوں سے بات کرنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ موبائل فون پر مجھے خبر ملی کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے روہنی کے جے پور گولڈن ہسپتال میں 20 افراد کی موت ہوگئی ہے۔ اس سے تین دن پہلے ہی دلی کے سر گنگارام ہسپتال میں 25 مریض اسی طرح دم توڑ گئے تھے۔

میں سیدھا جے پور گولڈن ہسپتال پہنچا جہاں کووڈ 19 کے 250 مریض انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں آکسیجن پر تھے۔

ہسپتال کے عملے نے بتایا کہ آدھی رات کے بعد آکسیجن کی سطح نیچے جانے لگی اور وہاں خوف و ہراس پھیل گیا۔

میں نے ریچالی اوستھی نامی ایک خاتون سے بات کی جو اپنے شوہر کے ساتھ وہاں آئی تھیں اور ہسپتال کے حکام سے کافی ناراض تھیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ مرنے والوں میں ان کی جیٹھانی سیما اوستھی بھی شامل ہیں۔ سیما اوستھی ایک مقامی سکول کی پرنسپل تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی جیٹھانی کے بچوں کی شادی ہونے والی تھی۔ انھوں نے افسردگی کے ساتھ کہا: ‘ہمارے معاشرے نے ایک قابل فرد کھو دیا ہے۔’

گولڈن ہسپتال

انھوں نے بتایا کہ وہ ایک رات پہلے ہی سیما اوستھی کے ساتھ واٹس ایپ پر چیٹ کررہی تھیں اور بعد میں وہ ہسپتال بھی آئیں۔ انھیں اندر جانے کی اجازت تو نہیں تھی لیکن واٹس ایپ میسجز سے اندازہ ہوا کہ ان کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔

انھوں نے سیما کی موت کے لیے ہسپتال حکام کو مورد الزام ٹھہرایا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال والوں نے انھیں آکسیجن کی کمی کی اطلاع نہیں دی تھی۔

میں نے ایک اور شخص سے ملاقات کی جن کے دو بڑے بھائی جے پور گولڈن ہسپتال میں داخل تھے۔ دونوں کی حالت اب بہتر ہے۔ وہ اپنے دوستوں کی مدد سے اپنی کار میں آکسیجن کا سیلنڈر رکھ رہے تھے۔

اس سیلنڈر کا استعمال ان کے ایک دوست کے والد اپنے گھر میں کر رہے تھے۔ وہ بھی کورونا کی زد میں تھے لیکن ان کی حالت زیادہ خراب نہیں تھی لہذا جب انھیں سنیچر کی رات گیارہ بجے ہسپتال سے فون آیا کہ آکسیجن ختم ہوچکی ہے اور انھیں اپنے بھائیوں کے لیے آکسیجن کا خوث انتظام کرنا ہے تو وہ اس سیلنڈر کو اپنے دوست کے گھر سے لے کر ہسپتال کے لیے بھاگے۔

سیلنڈر

مجھ سے بات کرتے ہوئے وہ جذباتی ہو گئے اور رونے لگے۔ انھوں نے کہا: ‘جس پر گزرتی ہو وہی جانتا ہے کہ کیا حال ہے۔’

وہ خدا کا شکر ادا کر رہے تھے کہ ان کے دونوں بھائی موت کے منہ سے نکل آئے تھے۔ انھیں آکسیجن سیلنڈر کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ اسی وقت آکسیجن سے بھرا ہوا ایک بڑا ٹینکر ہسپتال پہنچ گیا تھا۔

اس ٹینکر کو پولیس اہلکاروں کی سخت سکیورٹی میں لایا گیا تھا۔ جب ٹینکر ہسپتال کے احاطے میں داخل ہوا تو خوشگوار ماحول تھا اور مریضوں کے رشتے دار اور ہسپتال کے عملے نے سکون کا سانس لیا۔

ایک ہسپتال میں بحران ایک یا دو دن کے لیے ٹلا تو دوسرے ہسپتال میں بحران شروع ہوگیا۔

بہر حال پچھلے کچھ دنوں سے دہلی کے تقریباً تمام ہسپتالوں میں آکسیجن کی فراہمی کم رہی ہے لیکن بڑے نجی ہسپتالوں کی حالت زیادہ خراب ہے۔

سیلنڈر

جب میں جے پور گولڈن ہسپتال میں تھا تو خبر آئی کہ شالیمار باغ کے ہسپتال میں آکسیجن کی فراہمی دو تین گھنٹے میں ختم ہوجائے گی۔

جب میں وہاں پہنچا تو سکیورٹی اہلکاروں نے میڈیا والوں کو اندر جانے کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیا۔

میں نے فون پر ہسپتال کے ایک افسر سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ مرکزی حکومت، وزیر اعلیٰ کیجریوال دہلی کے نجی ہسپتالوں میں آکسیجن کے انتظامات میں گڑبڑ کے الزامات عائد کر رہے ہیں، کیا اسی وجہ سے ہسپتال میڈیا والوں سے بچنا چاہتا ہے؟

لیکن انھوں نے بتایا کہ نوئیڈا میں آکسیجن کا انتظام کیا گیا ہے اور اب ٹینکر نوئیڈا سے نکل رہا ہے۔

میں ایک گھنٹہ وہاں رہا لیکن اس وقت تک ٹینکر وہاں نہیں پہنچا تھا۔ بعد میں اس افسر نے تصدیق کی کہ آکسیجن ٹینکر وہاں پہنچ گیا ہے۔

چیکنگ

ڈاکٹروں کا عزم

میں نے سر گنگارام ہسپتال سے لے کر ایمس تک محسوس کیا کہ آکسیجن کی کمی، بستروں اور وینٹیلیٹروں کی کمی ہے، لیکن ان ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور صحت کے کارکنوں اور ان کے جذبے میں کوئی کمی نہیں ہے۔

سر گنگارام ہسپتال کی عمارت کے سامنے ایک چھوٹا سا پارک ہے جو ہسپتال کے احاطے کے اندر ہے۔ وہاں ہسپتال کے بہت سے عملے اور مریضوں کے رشتے دار بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے۔

وہاں پی پی ای کِٹس پہنے دو خواتین ڈاکٹر گھاس پر کپڑا بچھا کر ڈبے سے کھانا نکال کر کھانا کھا رہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ کھانا کھانے کے بعد وہ جلد ہی وارڈ میں واپس جائیں گی۔

انھوں نے بتایا کہ وہ پچھلے 10 دن سے بغیر کسی وقفے کے مستقل کام کر رہی ہیں اور وہ کچھ دنوں سے اضافی گھنٹے کام کر رہی ہیں۔

ان کا تخمینہ ہے کہ یہ بیماری مزید پھیل جائے گی اور اسی وجہ سے وہ اس کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور وہ جانتی ہیں کہ لوگوں کو ڈاکٹروں کی ضرورت ہوگی۔

جے پور گولڈن ہسپتال میں دیکھا کہ کچھ خواتین ریسپشن یعنی استقبالیہ کے سامنے بیٹھی تھیں اور ان میں سے ایک درد سے رو رہی تھی۔ اس کی بے بسی مجھ سے دیکھی نہیں گئی۔ میں نے استقبالیہ میں بیٹھی ایک خاتون سے پوچھا کہ کوئی بھی اس خاتون کو دیکھ کیوں نہیں رہا، تو انھوں نے کہا کہ ہسپتال میں بستر خالی نہیں ہے۔

انھوں نے بتایا کہ مریضوں کو اس کے بارے میں بتایا گیا ہے لیکن ان کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے لہذا وہ بستر خالی ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

مزدور

مزدوروں کی نقل مکانی

دہلی میں کورونا کرفیو اور لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد مزدوروں نے اپنے گاؤں کی طرف واپس جانا شروع کردیا ہے۔ زیادہ تر مزدور آنند وہار بس سٹینڈ سے بسوں کے ذریعے دہلی سے باہر جا رہے ہیں۔

آپ نے وہاں جمع لوگوں کی تصاویر دیکھی ہوں گی۔ اپنے سامان کے ساتھ وہاں موجود کچھ مزدوروں نے بتایا کہ انھیں دس دنوں کی چھٹی ملی ہے لہذا وہ ضلع بستی میں اپنے گاؤں جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جس عمارت میں وہ تعمیر کا کام کر رہے تھے اس میں کام رک گیا ہے۔

صرف کورونا والوں کے لیے

میں نے بس اڈے سے متصل آنند وہار ریلوے سٹیشن کے باہر ایک بہت بڑا ہجوم دیکھا۔ وہاں ٹرین کی کچھ کوچز کووڈ ہسپتال میں تبدیل کر دی گئی ہیں اور ہر جگہ بڑے حروف میں لکھا ہے کہ لوگوں کو اس زون کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔

دن بھر دہلی کے ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال میں گھومنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اب دہلی میں ایک عجیب سی خاموشی ہے۔

نہ ہی دکان اور بازار میں کوئی چہل پہل ہے اور نہ ہی گاڑیاں اور لوگ سڑکوں پر ہیں۔ کرفیو کی پیروی کی جارہی تھی لیکن دہلی واقعی خوفزدہ ہے۔ خوف و ہراس لوگوں کے چہروں پر صاف دیکھا جاسکتا ہے۔

سڑکوں پر اور ہسپتالوں میں، پولیس اور نیم فوجی دستے ہر جگہ کھڑے ہیں لیکن یہ ایک پوشیدہ دشمن کا خوف ہے جسے بندوقیں نقصان نہیں پہنچا سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp