زمانے کے انداز بدلے گئے

عاصمہ شیرازی - صحافی


جس معاشرے میں مظلوم کو ظلم ثابت کرنا پڑے وہاں انصاف کی کیا مجال۔ گذشتہ ہفتے سینئیر صحافی ابصار عالم پر دن دیہاڑے حملہ ہوا۔۔۔ فوٹیج دستیاب لیکن پولیس خاموش اور ادارے انکاری۔۔۔ پھر وہی بے حسی کہ جس پر دل کٹ جاتا ہے۔

ابھی ابصار عالم اپنی گواہیاں اکٹھی کر ہی رہے تھے کہ بلوچستان سے روزنامہ آزادی کے عبدالوحید رئیسانی کے قتل کی خبر ملی۔ یہ بے معنی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی آزادی رائے کس درجے پر ہے، ہمیں نہ تو اس کی پرواہ ہے اور نہ ہی اس سے مطلب۔

ابھی تازہ تازہ خبر آئی ہے کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا ہوں گے، تجارت کھولنا ہو گی، خطے میں تنہائی ختم کرنا ہو گی، افغانستان کے شکوے بھی دور کرنا ہوں گے۔ یہ احساس اپنی جگہ بہت ہے کہ ہاتھوں سے لگائی گرہوں کو دانتوں سے کھولنا پڑ رہا ہے۔

موجودہ فوجی قیادت نے کرتارپور بھی کر دکھایا، افغانستان کے شکوے بھی کسی حد تک کم کیے گئے اور بجا طور پر سنجیدگی کے ساتھ معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن سوال اپنی جگہ موجود کہ جب سیاسی قیادت اس طرح کی خواہشات رکھتی رہی تو معتوب کیوں ٹہرتی ہے؟

اطلاع ہے کہ دسمبر میں انڈیا نے پاکستان کو خیر سگالی کا پیغام دیا۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے اور انڈین سیاسی قیادت کے بااعتماد اجیت دوول پاکستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتے ہیں مگر ہماری جانب سے بات چیت کون کر رہا ہے؟

کیا سیاسی حکومت نے کسی قسم کا مینڈیٹ اُس شخصیت کو دے رکھا ہے اور وہ اہم شخصیت کس کو رپورٹ کرتی ہے اس بارے میں شاید وزیراعظم کو ہی کچھ خبر ہو۔ اگر وزیراعظم باخبر ہیں تو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاسوں میں انڈیا سے چینی اور کپاس کی درآمد کابینہ کے اجلاس میں ریورس کیسے ہو گئی؟

کابینہ کے اجلاس میں اسد عمر، شیریں مزاری اور شاہ محمود قریشی کا کھُل کر انڈیا سے تجارت کے خلاف بولنا یا تو سیاسی حکومت کی دانشمندی تھی یا واضح پیغام کہ حکومت اس معاملے میں لچک کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ جو پالیسیز بند کمرے میں صحافیوں کے سامنے بتائی گئیں اُسے پارلیمان کے بند کمرہ اجلاس یا قومی سلامتی کمیٹی میں بیان کیوں نہیں کیا گیا؟ سوال یہ بھی ہے کہ امن کی آشا اپنی جگہ اہم مگر ستر سال کے قومی بیانیے کو کشمیریوں کی خواہشوں کے آنگن میں دفن کرنے کی جلدی کیوں ہے؟

سوال یہ ہے کہ قومی سوچ کے لیے قومی جماعتوں کواعتماد میں لینے کی ضرورت کیوں نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ انڈیا کی پاکستان سے تعلقات میں اچانک دلچسپی کی وجہ کہیں امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان میں اثر و رسوخ کا بڑھانا اور پاکستان کے ذریعے بلاتعطل تجارتی روٹ حاصل کرنا تو نہیں؟ اور پھر اس کے بدلے پاکستان کو کیا ملنے کی یقین دہانی ہے؟

سوال یہ بھی ہے کہ انڈیا سے بات کرنا ضروری تو ہے تاہم یہ طے کرنا ہو گا کہ بات چیت کا آغاز کہاں سے ہو گا؟

خطے کی بدلتی صورتحال میں فیصلے نہ تو تنہائی میں لیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی بند کمروں میں پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں۔ موجودہ فوجی قیادت کی نیت اور خلوص دونوں کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا لیکن انڈیا پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہے اس پر بحث ضرور ہونی چاہیے۔

ماضی میں انڈیا سے خفیہ بات چیت جاری رہی ہے تاہم قومی اعتماد اور بیانیے کو ہمیشہ مقدم رکھا گیا اور اب بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دور میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ کی اجیت دوول سے ملاقاتیں سیاسی اور فوجی قیادت کے نہ صرف علم میں تھیں بلکہ اُن کی رہنمائی میں ہوتی رہیں۔ شاہد خاقان عباسی سے پوچھا تو اُن کا جواب تھا کہ وہ قومی راز نہیں بتا سکتے تاہم یہ تصدیق ضرور کی کہ قومی سلامتی کے مشیر کی حد تک بات چیت ضرور تھی اور کسی بھی بریک تھرو کی صورت پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جاتا جس کی کبھی نوبت نہیں آئی۔

کشمیر کا معاملہ ہو یا انڈیا سے تعلقات کی بات، پاکستان کی پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر آگے بڑھنے سے کوئی ڈاکٹرائن کامیاب نہیں ہو گا۔

پالیسی ساز ادارے صحیح سمت دیکھ رہے ہیں۔ باجوہ ڈاکٹرائن بھی لاجواب ثابت ہو سکتا ہے مگر اس کے لیے صرف قومی اعتماد کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ قومی اور فوجی قیادت اس ایک پالیسی پر اکھٹے ہو کر آگے بڑھ سکتے ہیں مگر الگ الگ نہیں۔ زمانے کے انداز ضرور بدلے گئے ہیں لیکن پیراڈائیم شفٹ کے اس ساز میں قومی آواز بھی شامل کرنا پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).