آرمی چیف کی خواہش


ملکی سیاسی منظرنامے پر غور کیا جائے تو چیزیں بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ بظاہر جو بگاڑ نظر آ رہا تھا وہ اب آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتا نظر آ رہا ہے۔ گزشتہ اڑھائی سال میں جو کچھ ہوا ہے ، اس کو دوبارہ سے اپنی جگہ پر آنے میں وقت لگے گا۔ کتنا وقت لگے گا تو اس کا جواب افتخار عارف کے اس شعر سے ملتا ہے کہ

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا

تو سوال یہ ہے کہ کیا تماشا ختم ہونے جا رہا ہے؟ بظاہر جو کچھ ہو رہا ہے اس سے تو یہی لگ رہا ہے کہ تماشا ختم ہونے جا رہا ہے اس کی دلیل مریم نواز شریف کا وہ بیان ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے تاکہ اس کو سیاسی شہید ہونے کا موقع نہ مل سکے۔ اس کیفیت پر بھی افتخار عارف کا شعر پیش خدمت ہے کہ

تماشا کرنے والوں کے خبر دی جا چکی ہے
پردہ کب گرے گا، کب تماشا ختم ہو گا

شاید اسی خبر کو بنیاد بناتے ہوئے مدت اقتدار پورا کرنے کا بیان دیا گیا۔ موقف دے دیا ، بات ختم ہو گئی، باقی کا کام پارٹی کے موجودہ صدر کے ذمہ ہے۔ شہباز شریف نے اندرون لاہور سے اپنی پرواز شروع کی ہے۔ فی الوقت ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور سب سے مل رہے ہیں، سب کی سن رہے ہیں مگر فی الحال بول نہیں رہے ، خاموش ہیں۔ بات وہ بھی حکومت کی مدت پوری کرنے کی ہی کریں گے مگر مناسب وقت پر اور وہ مناسب وقت بھی قریب ہی ہے ، باقی سیاسی بیان بازی ان کا حق ہے عوام کی تکالیف کے اوپر وہ ضرور اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔

اپنے خیالات کا اظہار تو قاضی فائز عیسیٰ نے بھی خوب کیا اور اسی سبب کامیاب بھی ہوئے اور دوبارہ سے قاضی کے منصب پر فائز ہو گئے۔ چار کے مقابلے میں چھ ججز نے ان کے حق میں فیصلہ دیا اور بلاشبہ اس فیصلے سے ملک کی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ فیصلہ بنیادی طور پر حالات کی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ اور ممکنہ تبدیلی کیا ہو سکتی ہے اس کا اندازہ آئندہ کچھ مدت میں عدالتوں میں ہونے والے فیصلوں سے ہو جائے گا۔

فیصلہ تو شاید کپتان کے قریب ”ترین“ سے متعلق بھی ہو چکا ہے اور کپتان کی ان اراکین اسمبلی سے ملاقات ہو گئی ہے جو مشکل ترین حالات میں ڈٹ گئے۔ شاید کچھ بہتر ہونے جا رہا ہے اس کا اندازہ کپتان کے دورہ ملتان کے دوران مخدوم کی تقریر سے کیا جا سکتا ہے مگر شاید یہ تقریر کافی دیر سے ہوئی جس کی وجہ سے مؤثر نہیں رہی۔ ویسے بھی حقیقت یہی ہے کہ کماؤ پوت گھر والوں کو عزیز ترین ہوتے ہیں۔

تو عزیزو کہانی کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہر کوئی مطمئن ہے ، چاہے وہ حکومت میں ہے یا پھر اپوزیشن میں۔ حصہ بقدر جثہ کی پختہ یقین دہانی نے حالات کو نارمل کیا ہے جس کی بناء پر طے ہوا کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ سیاسی محاذ آرائی میں قدرے سکون ملا تو آرمی چیف کی سینئر صحافیوں کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات جو کہ اب خفیہ نہیں رہی ، ہوئی۔ سوالات اور پھر ان کے جوابات کا ایک طویل سیشن ہوا۔ کھل کر ہر موضوع پر بات ہوئی۔ آف دی ریکارڈ بہت کچھ بتایا گیا ، آن دی ریکارڈ فریقین کی طرف سے گلے شکوے بھی ہوئے مگر خوش گوار ماحول میں۔

سوشل میڈیا کے ذریعے اس میٹنگ کا جو حال احوال ملا ، اس کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ وہ ملک کو نارمل حالات کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور میرے نزدیک اس میٹنگ کا مقصد ہی اس نقطے کی وضاحت تھی۔ آرمی چیف کی ملک کو نارمل بنانے کی خواہش بلاشبہ ایک مثبت اور حوصلہ افزا بات ہے۔ دوسروں کی جنگوں کے لیے ہم نے جو حال اپنے ملک کا کیا ہے اور جو حشر یہاں کی نسلوں کا ہوا ہے الامان الحفیظ۔ کولیشن فنڈز کے حصول کی خاطر جس طرح نوجوان نسل کو شدت پسندی اور انتہاپسندی کے جس بیانیے کے تحت پروان چڑھایا گیا، ایسی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔

اگر ملک کے مقتدر حلقے اس پر سوچ رہے ہیں اور اس کو تبدیل بھی کرنا چاہتے ہیں تو اس سے اچھی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ دیر آید درست آید۔ اگر مقتدر حلقے روایتی حریف کے ساتھ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ اس عمل کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ کیونکہ طے ہو چکا ہے کہ جنگوں سے مسائل حل نہیں ہوتے اور مہذب اقوام باہمی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے ہی حل کرتی ہیں۔ اور اس رویے کی ضرورت اس وقت بھی زیادہ ہوتی ہے جب جھگڑا دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ہو۔

ویسے بھی جھگڑا اب بنتا نہیں ہے۔ ایٹم بم سلامتی کی ضمانت تو ہیں مگر معروضی حالات یہ ہیں کہ دونوں ملکوں کے کروڑوں عوام کو پینے کا صاف پانی، صحت کی سہولیات، روزگار اور امن و امان نصیب نہیں ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کے عوام بھوک سے تنگ آ کر خودکشی پرمجبور ہیں۔ غربت اور افلاس سے انتہاپسندی جنم لے رہی ہے۔ امن وامان غارت ہو چکا ہے۔ ان حالات میں تو ایٹم بم کسی غریب کے دروازے پر بندھا ہوا وہ ہاتھی ہے جس کے کھانے کے گنے ہی پورے نہیں ہو رہے۔ ان حالات میں کہاں کی دشمنی اور کیسی دشمنی جب کورونا کے سبب شہری سڑکوں پر مررہے ہوں۔

اگر آرمی چیف حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی خاطر جنرل فیض کی اجیت ڈوول کی ملاقاتیں ہوئی ہیں تو یہ بروقت اور مناسب ہے۔ اس عمل کی مزید آگے بڑھنا چاہیے اور خطے کے پائیدار امن کے لیے کور ایشوز کو بات ذریعے حل ہونا چاہیے۔ جنرل صاحب آپ ٹھیک وقت پر ٹھیک سوچ رہے ہیں۔ ہمت کریں اور برسوں سے جاری اس تماشے کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ مرحلہ مشکل سہی مگر ناممکن نہیں ہے اور اسی میں کروڑوں انسانوں کی بھلائی ہے انسانیت کی فلاح ہے۔ قوم کو ٹھیک سمت میں لے جانے کے لیے کوشش کریں ۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments