عمران خان قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ایف آئی اے میں کیس کا اندراج چاہتے تھے : سابق ڈی جی ایف آئی اے


فیکٹ فوکس ڈاٹ کام نے ایک اہم خبر بریک کی ہے جس میں صحافی شاہد اسلم کے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر احمد میمن سے کیے گئے انٹرویو کے حوالے سے تہلکہ خیز دعوے کیے ہیں۔ یہ رپورٹ مندرجہ ذیل ہے۔

عمران خان کے علاوہ شہزاد اکبر، اعظم خان اور ایف بی آر کے اشفاق احمد اس سارے معاملے میں شامل تھے : سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر احمد میمن کے انکشافات
اشفاق احمد ایسی کسی میٹنگ میں شرکت کی تردید کیے بغیر کہتے ہیں کہ انہیں ایسی کوئی میٹنگ یاد نہیں۔
شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کا موقف دینے سے انکار
وزیر اعظم کبھی ڈی جی ایف آئی اے کو ایسی ہدایات جاری نہیں کرتا: وزیر اطلاعات، فواد چودھری

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مبینہ سازش، وزیر اعظم سمیت اعلیٰ حکومتی شخصیات کا کردار؟

اہم واقعات کے چشم دید گواہ سابق ڈی جی ایف آئی اے کا خصوصی انٹرویو۔
(یہ انٹرویو گیارہ اپریل کو ریکارڈ کیا گیا)

دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے کے قریب فون کی گھنٹی بجتی ہے اور آپریٹر کال اپنے باس کو ٹرانسفر کر دیتا ہے۔ ’چاچا کیسے ہیں! آپ جلدی سے وزیر اعظم آفس تشریف لے آئیں وزیر اعظم صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘ ۔

پیغام دینے والے وزیر اعظم کے سٹاف کے ایک سینئر رکن تھے جبکہ پیغام وصول کرنے والے ایف آئی اے کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل بشیر احمد میمن تھے۔ وزیر اعظم کے سٹاف کے یہ اہم اور سینئر رکن بشیر احمد میمن کو وزیر اعظم آفس میں واقع اپنے دفتر میں بھی اکثر اوقات چچا کہہ کر ہی مخاطب کرتے کیونکہ دونوں کی آپس میں پہلے سے ہی خاصی جان پہچان تھی۔ جب کبھی کبھار چچا کہنے پہ بشیر احمد میمن انہیں ٹوکتے کہ یار آپ خود سینئر افسر ہیں جس پہ وہ بھی کہہ دیتے کہ کیا سینئر افسران کے چاچے مامے نہیں ہوتے۔

اپنی سرکاری گاڑی میں بشیر احمد میمن کچھ دیر بعد وزیر اعظم آفس پہنچے جہاں انہیں سیدھا وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے دفتر میں بھجوا دیا گیا۔

بشیر احمد میمن کے جانے سے پہلے ہی اعظم خان کے دفتر میں ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ اور وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر بھی پہنچ چکے تھے۔ جیسے ہی بشیر احمد میمن اعظم خان کے دفتر میں پہنچے تو وہ اور شہزاد اکبر انہیں لے کر وزیر اعظم عمران خان کے دفتر میں چلے گئے۔ اس وقت وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر اعظم عمران خان سمیت یہ چار لوگ ہی تھے یہاں تک کہ وزیر اعظم کے قریب بیٹھنے والے سٹاف کے سینئر رکن جو بشیر احمد میمن کو چچا کہہ کر مخاطب کرتے تھے وہ بھی اس ملاقات میں موجود نہیں تھے۔

’کیا حال ہے بشیر! تم ہمت کرنا، تم بڑے اچھے افسر ہو اور ٹیم کو چلا لو گے۔ تم پہلے بھی بڑے اچھے کیس بناتے ہو اس کیس میں بھی ہمت کرنا اور اچھا کیس بنانا‘ ، وزیر اعظم عمران خان بشیر احمد میمن کو یہ کہتے ہوئے مخاطب ہوئے۔

’جی سر! یہ میرا کام ہے اور میں اسے اچھے طریقے سے ہی کرنے کی کوشش کروں گا‘ ، خصوصی انٹرویو میں وزیر اعظم آفس میں ہونے والی اس ملاقات کو یاد کرتے ہوئے بشیر احمد میمن مزید بتاتے ہیں کہ اعظم خان اور شہزاد اکبر بھی وزیر اعظم کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولے ہاں سر یہ (بشیر احمد میمن ) کر لیں گے۔

اس ملاقات میں ایف آئی اے کے سربراہ کو ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم کس شخص کے خلاف ایک تگڑا کیس بنانے کی بات کر رہے تھے۔

بشیر احمد میمن نے بتایا کہ وزیر اعظم کے ساتھ ان کی یہ ملاقات کوئی دو یا تین منٹس کی ہی تھی جس کے بعد ہم تینوں وہاں سے اٹھے اور وزیر اعظم آفس کے اسی فلور کے سب سے آخر میں ایک کونے پر واقع شہزاد اکبر کے دفتر میں چلے گئے وہ شاید اس لئے کہ اعظم خان کے دفتر میں ہر وقت ایک بھیڑ لگی ہوتی تھی تو یہ مجھ سے علیحدگی میں کوئی بات کرنا چاہ رہے تھے۔

بشیر احمد میمن نے دعویٰ کیا کہ شہزاد اکبر کے دفتر میں جاکر انہیں پہلی مرتبہ پتا چلا کہ وزیر اعظم اندر کس کیس اور شخصیت کے متعلق تحقیقات کی بات کر رہے تھے۔

’آپ سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف ایف آئی اے کی تحقیقات کی بات کر رہے ہیں، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘ ، بشیر احمد میمن نے حیرانی کے عالم میں شہزاد اکبر اور اعظم خان دونوں سے سوال کیا۔

’ہمارے پاس کافی چیزیں ہیں، ریکارڈ موجود ہے آپ بس بسم اللہ کریں‘ ، ایف آئی اے کے سربراہ کو فوراً جواب دیا گیا۔ بشیر احمد میمن کے بقول انھوں نے دونوں اشخاص کو بتایا کہ ایف آئی اے اعلیٰ عدلیہ سمیت کسی جج کے خلاف تحقیقات نہیں کر سکتی۔

جب بات قانونی نقطے پر پھنسنے لگی کہ ایف آئی اے کیسے سپریم کورٹ کے ایک سینئر اور حاضر سروس جج کے خلاف تحقیقات کر سکتی ہے تو اعظم خان اور شہزاد اکبر بشیر احمد میمن کو کہنے لگے کہ چلیں وزیر قانون کے پاس چلتے ہیں جو آپ کو مزید اس پہ بتا سکتے ہیں۔

ایف آئی اے کے سابق سربراہ کے مطابق وہ تینوں وہاں سے اٹھے اور وزیر قانون فروغ نسیم کے دفتر میں چلے گئے جہاں پر ایف بی آر کے کمشنر انکم ٹیکس ڈاکٹر اشفاق احمد بھی پہلے سے ہی موجود تھے۔ اس وقت کمرے میں ہم کل پانچ لوگ تھے۔

بشیر احمد میمن کے مطابق وزیر قانون کے دفتر میں بیٹھتے ساتھ ہی فروغ نسیم کو بتایا گیا کہ میمن صاحب کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تحقیقات کرنے پہ کچھ اعتراضات ہیں۔

’میں نے کہا کہ اعتراضات کی بات نہیں بھائی خدا کے لئے وزیر اعظم کو سمجھائیں کہ وہ ایسا کام نہ کریں۔ ہمیں وزیر اعظم صاحب کو بتانے کی ضرورت ہے کہ ایف آئی اے معزز ججز کے خلاف تحقیقات نہیں کر سکتی کیونکہ یہ سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے جو آپ ایف آئی اے سے لینا چاہتے ہیں‘ ۔

بشیر احمد میمن کے بقول حالانکہ انھوں نے اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل کا متعلقہ آرٹیکل پڑھا بھی نہیں تھا لیکن کیونکہ پولیس افسر کے طور پر ان کی ساری زندگی تفتیشوں اور انکوائریوں میں گزری ہے اس لئے انہیں پتا تھا کہ ہم عدلیہ کے خلاف تحقیقات نہیں کر سکتے۔

’ہمارے پاس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ساری دستاویزات ہیں اور پھر یہ کیس میں خود لڑوں گا اور آپ کراچی میں اتنا عرصہ نوکری کرتے رہے ہیں آپ کو تو پتا ہے کہ میں آج تک کوئی کیس ہارا نہیں ہوں‘ ، بشیر احمد میمن کے مطابق فروغ نسیم نے انہیں یہ کہتے ہوئے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

ایف آئی اے کے سابق سربراہ نے مزید بتایا کہ اس ملاقات میں موجود اشخاص کو انھوں نے پھر یاد کروایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے ایک معزز جج ہیں اور ہم یہاں بیٹھ کر ان کے خلاف ایف آئی اے سے تحقیقات کروانے کی بات کر رہے ہیں؟

’کیا آپ تاریخ بدلنا چاہتے ہیں، آئین اور قانون بدلنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو اب ایف آئی اے تفتیش کیا کرے گی‘ ، بشیر احمد میمن کے بقول اعظم خان اور شہزاد اکبر کہنے لگے کہ آپ آئین اور قانون کو چھوڑیں وہ فروغ نسیم صاحب زیادہ جانتے ہیں۔

بشیر احمد میمن کے بقول انھوں نے اس ملاقات میں موجود انکم ٹیکس کمشنر اشفاق احمد کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’دیکھو اشفاق تم اس کام میں مت پڑنا، میں نے اپنے کیرئیر کی پیک دیکھ لی ہے میں ڈی جی ایف آئی اے ہوں اور اس سے بڑی پوسٹ پولیس میں ہے نہیں لیکن تمھارا ابھی 7، 8 سال کیرئیر پڑا ہے اس لئے تم یہ مت کرو۔ فروغ نسیم اور شہزاد اکبر وغیرہ کو کچھ نہیں ہونا اور ان کی ضمانت بھی ہو جانی ہے لیکن اس سارے معاملے میں کندھا ہمارا استعمال ہو گا‘ ۔

بشیر احمد میمن کے مطابق اشفاق احمد کہنے لگے کہ سر ہم ساتھ جائیں گے اور ایگزیکٹیو کلاس میں لندن کے ٹور ہوں گے اور گھومیں پھریں گے جس پہ میں نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا کہ بھائی کیا تم نے لندن کی سیر کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف تحقیقات کا حصہ بننا ہے؟

اسی ملاقات کے دوران ایف آئی اے کے سابق سربراہ کو مزید کہا گیا کہ دیکھیں سپریم کورٹ کے جج صاحب نے فلاں کے خلاف، متحدہ کے خلاف، پی ٹی آئی کے خلاف اور دیگر کے خلاف ایسے فیصلے دیے ہیں جس پہ ان کے بقول وہ کہنے لگے کہ وہ سپریم کورٹ کے سارے فیصلے نہیں پڑھتے اس لئے انہیں نہیں پتا کہ ان فیصلوں میں کیا لکھا گیا ہے۔

یاد رہے کہ نومبر دو ہزار سترہ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد کے فیض آباد کے مقام پر تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے پر سوموٹو نوٹس لیا تھا جس پر اس دو رکنی بینچ نے سماعت مکمل کرتے ہوئے فروری دو ہزار انیس میں اپنا فیصلہ سنایا دیا اور وہ فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہی تحریر کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جہاں پیمرا، میڈیا، الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھائے وہیں مسلح افواج کے سربراہان کو بھی ہدایات دیں کہ وہ ان تمام فوجی افسران کے خلاف بھی کارروائی کریں جنھوں نے دھرنے کے دوران اپنے خلف کی خلاف ورزی کی تھی۔

یاد رہے کہ دھرنا ختم کروانے میں دونوں فریقین یعنی تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان تحریری معاہدے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بھی بطور ضامن دستخط کیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا گیا کہ دھرنے کے اختتام پر اس وقت کے پنجاب رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اظہر نوید حیات دھرنا مظاہرین میں لفافے بانٹ رہے تھے جن میں کچھ اطلاعات کے مطابق ایک ایک ہزار روپے کے نوٹ تھے۔

اس فیصلے کے محض تین ماہ بعد ہی یعنی بیس مئی دو ہزار انیس کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس فائل ہو گیا۔ بشیر احمد میمن کی وزیر اعظم آفس اور وزارت قانون میں یہ ملاقاتیں ریفرنس فائل ہونے سے تقریباً ایک مال قبل ہوئیں۔

بشیر احمد میمن یاد کرتے ہوئے بتاتے ہی کہ اس موقع پر فروغ نسیم دوبارہ بولے کہ آپ یہ سب چھوڑیں میں ہوں نا یہ سب میں کر لوں گا آپ بس کیس بنائیں میں کچھ نہ کچھ کرلوں گا۔ ایف آئی اے کے سابق سربراہ بشیر احمد میمن کے مطابق انھوں نے ملاقات میں موجود تمام افراد کو صاف بتا دیا چونکہ ملک کا آئین اور قانون ایسی کوئی اجازت نہیں دیتا اس لئے ایف آئی اے اس کیس میں پارٹی نہیں بنے گی۔

انھوں نے کہا کہ انہیں وہاں یہ بات بھی یاد کروائی گئی کہ ان تحقیقات کا وزیر اعظم خود کہہ رہے ہیں جس پہ بشیر احمد میمن نے کہا کہ اگر ان کی ملاقات وزیر اعظم سے دوبارہ ہوئی تو وہ انہیں ضرور یہ مشورہ دیں گے کہ وہ ایسے کام کا حکم نہ دیں۔ بشیر احمد میمن کے مطابق وہ یہ سب آئین اور قانون کے مطابق کہہ رہے تھے حالانکہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کبھی ملے بھی نہیں البتہ ایک مرتبہ ان کی کورٹ میں پیشی پر ضرور گئے تھے جہاں آٹھ فٹ کی دوری سے ہی انہیں دیکھا تھا۔

ایف آئی اے کے سابق سربراہ نے مزید بتایا کہ انھوں نے اشفاق کو یہ بھی کہا کہ دیکھو خود کو خراب کر کے تمھیں کیا ملے گا، اگر چیئرمین ایف بی آر کی بات ہے تو وہ شاید تم ویسے بھی لگ جاؤ پھر اس کے لئے یہ سب کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ فروغ نسیم کہنے لگے کہ آپ نے کرنا ہے تو ٹھیک ورنہ اشفاق کو بدظن نہ کریں۔

رابطہ کرنے پر ایف بی آر کے گریڈ 21 کے افسر اور ممبر آپریشنز ڈاکٹر اشفاق احمد کہتے ہیں کہ انہیں یاد نہیں پڑتا کہ وزیر قانون کے آفس میں ایسی کوئی ملاقات ہوئی تھی جس میں بشیر احمد میمن بھی موجود تھے اور وہاں سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف ریفرنس تیار کرنے کے حوالے سے کوئی بات ہوئی تھی۔

ڈاکٹر اشفاق احمد کے مطابق انہیں جہاں تک یاد ہے ان کی بشیر احمد میمن سے ایک بار ہی ملاقات ہوئی اور وہ بھی ایف بی آر کے دفتر میں۔ ڈاکٹر اشفاق احمد نے مزید بتایا کہ سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بنائے گئے ریفرنس میں ان کا کوئی کردار نہیں۔

بشیر احمد میمن کے مطابق انھوں نے اپنے دفتر میں بھی یہ بات کسی سے شیئر نہیں کی البتہ اپنے سٹاف سے یہ سوچ کر سپریم جوڈیشل کونسل کے متعلق کچھ چیزیں ضرور منگوا لیں تاکہ پڑھ سکیں کہ ان کا جو موقف اس ملاقات میں تھا وہ صحیح بھی تھا یا نہیں۔

ایف آئی اے کے سابق سربراہ کے مطابق اس ملاقات کے بعد کئی ہفتے گزر گئے لیکن ان سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تحقیقات کرنے یا ریفرنس بنانے کے حوالے سے کبھی کوئی بات نہیں کی گئی۔ ’اس ملاقات کے چند ہفتے بعد شہزاد اکبر نے اچانک مجھے بلایا اور کہا کہ انہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کی ٹریول ہسٹری مہیا کروں‘ ۔

بشیر احمد میمن کے بقول انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ سپریم کورٹ کے ایک معزز جج ہیں اور وہ ان کی ذاتی معلومات انہیں مہیا نہیں کر سکتے، یہ غیر قانونی ہے۔ ’ٹھیک ہے پھر ہم سیکرٹری داخلہ کو کہیں گے کہ وہ تحریری طور پر آپ سے یہ معلومات لے کر ہمیں دیں‘، شہزاد اکبر کے کہنے پر بشیر احمد میمن نے جواب دیا کہ وہ تحریری طور پر آئی درخواست پر بھی یہ معلومات شیئر نہیں کریں گے۔ بشیر احمد میمن نے مزید بتایا کہ اس روز انہیں احساس ہوا کہ حکومت اب بھی اس معاملے پہ بضد ہے حالانکہ وہ سمجھ رہے تھے شاید ریفرنس بنانے کا معاملہ ختم ہو گیا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں ایف آئی اے کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ انہیں شک ہے کہ حکومت کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کی لندن میں جائیدادوں کی تفصیلات اس ڈیٹا سے ملیں جو ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت برطانیہ سمیت یورپ کے دیگر ممالک سے پاکستان کو شیئر کیا گیا تھا جس میں ان تمام پاکستانیوں کی تفصیلات درج تھیں جنھوں نے برطانیہ اور یورپ میں جائیدادیں خرید رکھی تھیں۔

بشیر احمد میمن کے مطابق وہ یہ بات اس لئے کر رہے ہیں چونکہ پاکستانیوں کی ان جائیدادوں کی تفصیلات انھوں نے ایف بی آر سے متعدد بار مانگیں تھیں تاکہ وہ ان کے ساتھ مل کر جرمانے کے ذریعے ریکوری کر واکر قومی خزانے میں کچھ رقم جمع کروا سکیں جیسا انھوں نے دبئی پراپرٹیز کے سوموٹو کیس میں کی بھی کیا تھا لیکن انہیں وہ معلومات نہیں دی گئیں اور اتفاقا انکم ٹیکس کے کمشنر ڈاکٹر اشفاق احمد اس وقت اسی سیل کو دیکھ رہے تھے جن کے پاس پاکستانیوں کا وہ سارا ڈیٹا پڑا ہوا تھا۔

بشیر احمد میمن کے مطابق وہ خود اور سیکرٹری داخلہ ان معلومات کے لئے اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر سے بھی ملے تھے اور ان کی اجازت کے باوجود بھی انہیں اس ڈیٹا تک رسائی نہ دی گئی۔ اس سوال کے جواب میں کہ ان کے پاس ان ملاقاتوں کے کیا شواہد ہیں بشیر میمن نے بتایا کہ وزیر اعظم آفس جانے والے ہر بندے کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور اگر وزیر اعظم آفس کا ریکارڈ دیکھا جائے تو آسانی سے پتا چل جائے گا کہ فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے بعد میں انہیں کب کب ملا۔

ایک سوال کے جواب میں ایف آئی اے کے سابق سربراہ نے کہا انھوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کا ٹریول ریکارڈ حکومت کو نہیں دیا اگر وہ ریکارڈ کسی اور ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو تو وہ کہہ نہیں سکتے کیونکہ پاکستان کے بہت سے سول اور خفیہ اداروں کے پاس مسافروں کے ٹریول ڈیٹا کو دیکھنے کی رسائی ہوتی ہے۔

اتنے سال اس ہم ترین مسئلے پر خاموش رہنے اور اب جاکر اس پہ بولنے کے سوال پر بشیر احمد میمن نے کہا کہ کیا آپ کے خیال میں وہ بطور ڈی جی ایف آئی اے اس وقت کیا کرتے۔ کیا وہ بطور ڈی جی ایف آئی اے اسلام آباد پریس کلب جاتے اور جاکر اس پہ تقریر کرتے؟ ’نہیں یہ میرا کام نہیں تھا‘ ۔

بشیر احمد میمن کے مطابق سرکاری ملازمین کے پاس ایسا کو نسا فورم موجود ہے جس پہ وہ اس طرح کی معلومات شیئر کر سکیں اور وہ بھی کس سے؟ ’مجھے آپ بتائیں نا میں یہ بات کس کو جاکر بتاتا، کیا میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو جاکر بتاتا کہ سر آپ کے خلاف یہ ہو رہا ہے۔ نہیں یہ میرا کام نہیں تھا بھائی‘ ۔

ایف آئی اے کے سابق سربراہ کے بقول انہیں تو تسلی تھی کہ یہ ریفرنس نہیں بنائیں گے اور اگر اصرار کریں گے تو پھر بھی تحقیقات کے لئے ایف آئی اے کے پاس ہی آئیں گے لیکن مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ ایف بی آر کے ایک کمشنر اس کام پہ زور شور سے لگے ہوئے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب اسی لئے بول رہا ہوں تاکہ اس ملک میں کوئی رول آف لاء ہو، کوئی قانون کی عملداری ہو۔

اس سوال پر کہ اگر سپریم کورٹ یا سپریم جوڈیشل کونسل انہیں بطور عینی شاہد بلاتی ہے تو کیا وہ پیش ہوں گے اس پہ بشیر میمن کا کہنا تھا کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ یا سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل انہیں بلاتی ہے تو وہ ضرور پیش ہوں گے اور اس کیس سے جڑے تمام حقائق ان کے سامنے رکھیں گے۔

ایسی کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے اپنی ریٹائرمنٹ سے محض چند دن قبل استعفیٰ دے کر گھر جانا پڑ گیا، اس سوال پر بشیر احمد میمن کہنے لگے کہ ان کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ رہتے تھے اور انھوں نے عمرہ ادائیگی کے لئے چھٹی لے رکھی تھی لیکن چھٹی پہ جانے سے دو روز قبل انہیں یہ پیغام ملا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ملاقات کے لئے بلایا ہے اور ایف آئی اے کے اہم کیسز پہ بات کرنی ہے۔

’میں جتنے بھی اہم کیسز تھے وہ لے گیا اور وزیر اعظم کو بریف کیا۔ اس روز مجھے پتا چلا کہ وہ مجھ سے بہت زیادہ ناراض ہیں‘ ۔

ایف آئی اے کے سابق سربراہ کے بقول وزیر اعظم کا خیال تھا کہ میں نے نواز شریف کے خلاف کیسز نہیں بنائے، مریم نواز صاحبہ کو دہشت گردی کے مقدمات میں چالان نہیں کیا، اورنج لائن ٹرین پہ شہباز شریف کو جیل میں نہیں ڈالا، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز پہ بہت زیادہ کیسز نہیں بنائے، نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر، سعد رفیق، احسن اقبال، خواجہ آصف (پہ غداری کا مقدمہ) ، امیر مقام، خورشید شاہ، سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی بیٹی نفیسہ شاہ، مصطفی نواز کھوکھر، رانا ثناء، جاوید لطیف، اسفندیار ولی سمیت ایسے کئی سیاستدانوں پر ان کے کہنے کے باوجود مقدمات نہیں بنائے اور یہی شاید ناراضگی کی وجہ بھی تھی۔

میں وزیر اعظم کو یہ بار بار کہتا رہا کہ سر ان سب لوگوں کے خلاف کیسز ضرور بناتے ہیں لیکن ابھی تک کوئی انکوائری نہیں ہوئی، کوئی شواہد بھی تو ہوں، عدالتیں ثبوت مانگتی ہیں۔ بشیر میمن کے بقول اس بات پہ وزیر اعظم کہنے لگے کہ میرے دوستوں کے تو تم پیچھے پڑ جاتے ہو، عارف نقوی کے خلاف تم نے انکوائری کرائی اور اس کی کمپنی تم نے تباہ و برباد کردی۔ بشیر میمن کے مطابق انھوں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ سر عارف نقوی کے خلاف انکوائری میں ستاسی ارب روپے ثابت کیے ہیں جو اب بڑھ کر سوا سو ارب ہوچکے ہوں گے۔

مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں کیوں ایف آئی اے نے بہت کم کیسز حکومتی لوگوں پہ بنائے اس کے جواب میں بشیر میمن کا کہنا تھا کہ ہم یا تو کیسز سورس رپورٹ پہ بناتے ہیں یا مختلف ادارے ہمیں بھیج دیتے ہیں کہ یہ معاملہ دیکھیں ہم انکوائری کر لیتے ہیں اور اس دور میں بھی ہم نے نارووال سٹی کمپلیکس جو احسن اقبال صاحب نے بھیجا تھا اس سمیت جعلی اکاؤنٹ کیس کئی اور کئی ہائی پروفائل کیسز پہ تفتیش کی تھی۔ ’اب جتنا کچھ ہمیں بھیجا جائے گا اتنی ہی انکوائریاں ہم کریں گے نا‘ ۔

ایف بی آر کے ممبر آپریشنز ڈاکٹر اشفاق احمد نے ایک اور سوال کے جواب میں مزید بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایف بی آر کی طرف سے معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے حوالے سے جو رپورٹ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل بھیجی گئی ہے اس کے بنانے میں بھی ان کا کوئی کردار نہیں۔ ڈاکٹر اشفاق احمد کا مزید کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو جو رپورٹ بھجوائی گئی ہے اسے متعلقہ فیلڈ کے لوگوں نے تیار کیا ہے اور چیئرمین ایف بی آر نے اسے آگے بھجوا دیا ہے۔

اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا کہ ریفرنس کی تیاری کے حوالے سے ان سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ تو مکمل طور پر بے خبر تھے کیونکہ انہیں تو وزارت قانون نے اس وقت بتایا جب وہ اس کی کاپی وزیر اعظم آفس بھیج چکے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ریفرنس بنانے کے بعد انہیں بس یہ آگاہ کیا گیا تھا کہ انہوں نے اس ریفرنس کے حوالے سے متعلقہ فورم پہ پیش ہونا ہے۔ انور منصور خان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے ایوان صدر سمیت کسی جگہ بھی اس ریفرنس پہ کوئی پریزنٹیشن بھی نہیں دی۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بتایا کہ وزیر اعظم کبھی بھی ڈی جی ایف آئی اے کو بلا کر ایسی ہدایات جاری نہیں کرتا کہ فلاں کے خلاف انکوائری کرو اور فلاں کے خلاف نہیں۔ یہ بس باتیں اور کہانیاں ہوتی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ بشیر احمد میمن کو جبری طور پر ریٹائر کیا گیا تو ان میں حکومت کے حوالے سے غصہ تو ہے اسی لیے وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم۔ کا موقف جاننے کے لئے دو ہفتوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود شہباز گل سے کوئی جواب موصول نہیں ہوسکا۔

وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے بتایا کہ وہ ایسی کسی میٹنگ میں شامل نہیں تھے جس میں بشیر میمن کے ساتھ وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تحقیقات کرنے کی بات کی تھی۔ انھوں نے ایسی تمام ملاقاتوں سے انکار کر دیا۔

مشیر برائے داخلہ و احتساب مرزا شہزاد اکبر سے مسلسل دو ہفتے سے زائد ٹیلی فون اور میسجز کے ذریعے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ فروغ نسیم کے سٹاف افسر جواد احمد اور ان کے پی آر او سے بھی متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کا سابق ڈائریکٹر جنرل فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) بشیر میمن کے الزامات پر ردعمل سامنے آیا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ بشیرمیمن کی شاہ زیب شو میں جھوٹ پر مبنی گفتگو دیکھی۔ بشیرمیمن کو قاضی فائزکےمعاملے پروزیراعظم یا مجھ سےملاقات کےلیے کبھی نہیں بلایا گیا۔ بشیرمیمن اور وزیر قانون کے درمیان بھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ بشیرمیمن کو کبھی بھی کسی انفرادی شخصیت کے خلاف کوئی کیس شروع کرنے کا نہیں کہا تھا۔ وفاقی کابینہ نے ایف آئی اے کو صرف بغاوت کا ایک کیس بھجوایا تھا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ بشیرمیمن کے بہتان پر قانونی کارروائی کے لیے وکلا کو ہدایات جاری کر دی ہیں، بشیر میمن کو کبھی بھی کسی مخصوص فرد کے خلاف کوئی کیس شروع کرنے کا نہیں کہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments