ہم نے کووڈ 19 کے لئے کیا حفاظتی تدابیر اختیار کیں؟


دنیا اس وقت جس وبا سے دوچار ہے اس کی وجہ سے نہ صرف کار ہائے زندگی متاثر ہوئے ہیں بلکہ حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھتے ہوئے زمانے کے طور طریقے بھی بدل گئے ہیں اور ایسا ضروری بھی تھا۔ اس وقت تک دنیا میں چودہ کروڑ ستر لاکھ انسان اس بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں جن میں سے اکتیس لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ وبا پوری شد و مد کے ساتھ ظہور پذیر ہے۔ اب تک آٹھ لاکھ افراد اس بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں جن میں سے سترہ ہزار لوگ خالق حقیقی سے جا ملے۔

یہ ساری صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم بھی بیماری سے بچنے کے لئے تمام تر حفاظتی تدابیر کو دل و جان سے قبول کریں اور اپنائیں کیونکہ اسی میں ہماری صحت اور جان کی بقاء ہے۔ میں کچھ حفاظتی تدابیر کا ذکر کر رہا ہوں مگر میں یہ نہیں لکھوں گا کہ یہ کریں اور وہ نہ کریں بلکہ میری تحریر سے واضح ہو گا کہ میں نے اور میرے گھر والوں نے ان تدابیر کو کس انداز میں اپنایا۔

سب سے پہلے یہ اعتراف حقیقت ہے کہ جب تک کسی بھی معاملے میں اللہ کا فضل شامل حال نہ ہو تمام تدابیر دھری کی دھری رہ جاتی ہیں لہٰذا اللہ کے فضل کے متمنی ہونے کے ساتھ عجز و انکسار کے ساتھ رب العالمین کے حضور دعا گو ہونا چاہیے کہ ہمارے ساتھ رحم کا معاملہ فرمائے اور ہمیں اس وبا سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

22 مارچ 2020 سے ہم نے خود کو قرنطینہ میں رکھا اور ہنوز ہیں۔ قرنطینہ سے مراد کہ ہم ویسے اللہ کے فضل و کرم سے تندرست تھے مگر غیر ضروری باہر نکلنے پر خود ساختہ پابندی عائد کر دی۔

باہر برآمدے میں شو ریک رکھ دیا اور گھر کے اندر اور باہر پہننے والے جوتے علیحدہ کر دیے۔ ڈرائنگ روم کو ہم نے سٹور بنا لیا کیونکہ وبا کے دوران آنا جانا تو مفقود ہو گیا۔ گروسری ہم نے آن لائن آرڈر کر کے لینے کی ابتدا کی۔ مہینے بھر کی مقدار گھر پر پہنچ جاتی جو کہ چند روز سٹور ( ڈرائنگ روم) میں پڑے رہنے کے بعد زیر تصرف آتی۔ اسی طرح دوائیاں بھی ہم ہسپتال جانے کے بجائے ڈیواٹسن سے گھر پر ہی ڈلیور کروا لیتے جو پہلے سٹور میں رکھتے اور ایک یا دو روز بعد استعمال کی جاتیں۔

اس کے علاوہ تمام تر ضروریات زندگی آن لائن منگوائی جاتیں جو ٹی سی ایس کے ذریعے ڈلیور ہوتیں۔ ہر باہر سے آنے والی چیز دو روز سٹور میں رکھنے کے بعد استعمال ہوتی۔ پھل اور سبزی کا معاملہ کچھ مختلف تھا۔ اس کے لئے ہم ہفتہ بھر میں استعمال ہونے والے پھل اور سبزیوں کی فہرست بناتے، میں اور بیگم کے ساتھ ایک مخصوص دکان پر جاتے۔ ہم ماسک اور سنگل استعمال والے دستانے پہن کر جاتے۔ ویسے بھی ہماری گاڑی میں ماسک دستانے اور سینی ٹائزر ہر وقت موجود رہتے ہیں۔

گاڑی کا شیشہ ہلکا سا نیچے سرکا کر ہم فہرست باہر لٹکاتے اور دکاندار فہرست کے مطابق سامان لاتا۔ میں گاڑی میں بیٹھے اس کا بوٹ کھولتا اور وہ اشیاء رکھ کر بند کر دیتا۔ گھر پہنچ کر بیٹ مین اشیاء بیگز میں سے نکال کر کچن بیسن کے قریب رکھ دیتا۔ میری بہو تمام اشیاء سوپ لوشن کے ساتھ تسلی سے دھوتی جسے بعد میں بیٹ مین خشک کر کے فریج میں رکھ دیتا۔

صفائی والی خاتون کو ہم نے منع کر دیا اور یہ ذمہ داری گھر والوں نے پوری کی البتہ صفائی کرنے والی خاتون کا مشاہراہ جاری رکھا۔ اسی طرح دھوبی کی بجائے کپڑے خود استری کرنے شروع کر دیے اور دھوبی کو بھی ماہانہ پیسے بھجواتے رہے کیونکہ اس کی سروسز نہ لینا ہمارا فیصلہ تھا، اس کا قصور نہیں تھا۔ حجام کے پاس جانا ترک کر دیا۔ اس سہولت کا منقطع کرنا تکلیف دہ تھا مگر جی کڑا کر کے یہ فیصلہ بھی کر لیا اور آن لائن ہیئر کٹنگ کٹ منگوا کر گھر پر بال تراشنے شروع کر دیے۔ جب بھی گیٹ سے کوئی گھنٹی بجاتا تو بغیر ماسک پہنے کوئی باہر نہیں نکلتا۔ اگر ٹی سی ایس کا نمائندہ آتا تو بغیر دستانہ پہنے پیکٹ وصول نہیں کیا جاتا۔

اخبار بغیر استری کیے نہیں پڑھا جاتا اور یہ فریضہ ہماری بیگم صاحبہ انجام دیتی ہیں۔ ایک ایسا اے ٹی ایم ہم نے چنا ہوا ہے جو بغیر کیبن کے ہے۔ اس اوپن اے ٹی ایم سے دستانے پہن کر پیسے لئے جاتے ہیں اور یہ رقم اور اے ٹی ایم کارڈ ایک روز سٹور میں رکھے جاتے ہیں اور اس کے بعد نوٹ استری کیے جانے کے بعد استعمال میں لاتے ہیں۔ دودھ کے لئے کوپن بیگ میں ڈال کر گیٹ پر لٹکا دیے جاتے ہیں۔ ڈیری فارم والے کوپن نکال کر دودھ کے پیکٹ بیگ میں ڈال کر گیٹ پر لٹکا دیتے ہیں۔ دودھ کے پیکٹ استعمال سے قبل سوپ لوشن سے دھوئے جاتے ہیں۔

جب سے وبا نے گھیرا ہوا ہے باہر نکلنا انتہائی ضرورت کے تحت ہوتا ہے۔ واک بھی ٹریڈ مل پر کرنے پر مجبور ہیں ورنہ ہر روز جاگنگ ٹریک پر جانا ہوتا تھا۔ میرا بیٹا اور بہو آفس جانے کے لئے ڈبل ماسک پہن کر ( اندر کی طرف این 95 اور باہر سادہ ماسک) گاڑی میں سوار ہوتے ہیں اور گھر واپسی تک پہنے رکھتے ہیں۔

پچھلے ایک سال سے غمی و خوشی کے کتنے ہی مواقع پر ہم شریک نہیں ہو سکے ماسوائے ان دو نکاح کے مواقع پر جب انہوں نے ہمارے انکار کی راہیں مسدود کر دیں کہ ہمارا نام گواہان نکاح میں شامل تھا اور یہ پہلی لہر کے بعد قدرے امن کا وقت تھا۔ جب کورونا کی پہلی لہر زوروں پہ تھی ان دنوں ہمارے واش روم لائٹ کا سوئچ خراب ہو گیا۔ ہم نے احتیاطاً الیکٹریشن کو نہیں بلایا اور تین مہینے تک متبادل لائٹ سے کام چلایا۔ پھر جب بیماری کا زور ہلکا ہوا تو لائٹ ٹھیک کروائی۔

اس ایک سال کے دوران ملنا جلنا نہ ہونے کے برابر رہا۔ تین مہینے کے بعد ہماری بڑی بیٹی بچوں کو ملوانے کے لئے لائی۔ سب نے ماسک اور پولی تھین اوور آل پہنے ہوئے تھے ہم نے بھی ماسک پہن کر فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے ملاقات کی۔ بچوں کو اٹھایا نہ پیار کیا۔ اس کے بعد بیماری کی شدت کم ہونے کے دوران ہم نے حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے ہوئے ان کو وزٹ کیا۔ چھوٹی بیٹی ایئرفورس کے سیکٹر میں رہتی ہے جہاں سے آنے کے لئے ان کو سال میں صرف ایک دفعہ آؤٹ پاس مل سکا اور وہ لوگ چند گھنٹوں کے لئے ملنے آئے اور باہر کے لوگوں کے لئے وہاں جانے کے لئے بھی پابندی ہے۔

بہن اور بھائی کے گھر سال بھر سے جانا نہیں ہوا۔ فون پر رابطہ ہے۔ دوستوں سے بھی فون پر بات ہو جاتی ہے۔ تین روز قبل عزیزم زاہد کاظمی تشریف لائے تھے جو سال بھر میں ہمارے واحد مہمان تھے۔ باوجود چاہت کے ہم نے ان سے فاصلاتی ملاقات کی۔ ہمیں ان کے آنے کی انتہائی خوشی ہوئی۔ انہیں ہم گیسٹ آف دی ایئر بھی کہہ سکتے ہیں۔

اس عرصہ کے دوران دو دفعہ ہمیں ہلکے بخار نے آ لیا جس کی وجہ سے احتیاطاً ہم نے خود کو صحیح معنوں میں قرنطینہ کا پابند کر لیا۔ اس تمام عرصہ میں ہمارے بیٹ مین نے بھی انتہائی سمجھ داری کا ثبوت دیا۔ وہ بالکل باہر نہیں نکلا حتیٰ کہ رضاکارانہ طور پر چھ ماہ چھٹی پر نہیں گیا۔ جب چھٹی سے واپس آیا تو اس کو اس کے کمرے میں قرنطینہ کا پابند بنایا گیا اور بعد میں کام کروانا شروع کیا۔

آج کل کورونا کی تیسری لہر زوروں پر ہے ، اس لئے حفاظتی تدابیر کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ روز اول سے تھی۔ فرض سمجھ کر حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ اللہ ہم سب کو اور پوری دنیا کے لوگوں کو اس مہلک وبا سے محفوظ رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments