کورونا کسی یہودی کی سازش نہیں، ایک خوفناک بیماری ہے


سمجھ نہیں آ رہی کہ کہاں سے شروع کروں۔ میں آج کافی دنوں بعد لکھنے بیٹھی ہوں تو سوچ کے تمام دروازے بند ہیں اور ذہن سے تمام الفاظ غائب ہو چکے ہیں۔ میرے پاس کہنے سننے کو کچھ نہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے الفاظ کا قحط پڑ گیا ہے، ڈکشنری میں موجود تمام صفحے خالی ہیں اور دنیا میں بسنے والے سبھی انسان شاید گونگے بہرے ہیں جو کبھی کچھ نہیں بولے ہیں اور نہ ہی یہ تمام لوگ کبھی مجھے سمجھ سکیں گے۔

کیا ہے کہ غم ہی اتنا بڑا ہے کہ میں چاہ کر بھی اس کی شدت نہیں بتا سکتی، اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔ الفاظ انسان کا سہارا ہوتے ہیں ، یہ ہر وقت کام آتے ہیں لیکن جب کوئی اپنا پیارا دنیا سے چلا جائے تو پھر درد کی اس کیفیت کو بیان کرنے سے الفاظ بھی قاصر ہوتے ہیں۔

میری پیاری بہن اچانک اس دنیا سے چلی گئی، کتنے ہی دن ہو گئے ہیں اس سانحے کو، لیکن دل ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہا۔ کوئی ایسے بھی کرتا ہے بھلا جو وہ ہمارے ساتھ کر گئی۔ کاش وہ ہم سے ناراض ہو کے کہیں چلی جاتی، تو ہم اس کو منا کر تو لا سکتے۔ لیکن وہ تو ناراض بھی نہیں ہوئی اور چھوڑ بھی گئی۔ وہ میری بہن بھی تھی اور میری سہیلی بھی۔ مجھے نہیں پتہ اب میرے لیے دعائیں کون کرے گا، گھنٹوں فون پر میری باتیں کون سنے گا۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ اس کے جانے کا غم کب تک کم ہو گا۔ لیکن ابھی ہم سارے گھر والے سخت صدمے میں ہیں۔ یہ صدمہ اتنا شدید ہے کہ کوئی کسی کو تسلی بھی نہیں دے پا رہا۔

کورونا کا وجود سچ میں ہے۔ اس کا یقین تب آیا ہے جب یہ میری ماں جائی کو کھا گیا۔ میرے جیسے جاہلوں کی یوں تو کمی نہیں ہے، جو کورونا کو سنجیدہ نہیں لیتے اور کورونا کو مذاق ہی سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم بہن بھائیوں نے تھوڑی بہت کچھ احتیاط کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن پھر بھی جانے کیسے غفلت ہو گئی اور جو نہیں ہونا نہیں چاہیے تھا وہی ہو گیا۔

اسے کچھ دنوں سے کھانسی ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر نے سیرپ لکھ دیا، فرق نہیں پڑا، سیرپ بدل دیا گیا۔ کھانسی کا آرام تو نہیں آیا لیکن ساتھ بخار ہو گیا۔ ڈاکٹر کے مشورے سے گھر میں ٹریٹمنٹ شروع ہوا لیکن تیسرے دن طبیعت کے زیادہ خراب ہونے پر اسے ہسپتال لے جانا پڑا۔ وہاں رات چار بجے واش روم جاتے ہوئے گر پڑی تو ڈاکٹر نے سول ہسپتال بھیج دیا، وہاں اس کا سانس خراب ہوا، تو اس کو کورونا وارڈ میں منتقل کر دیا گیا لیکن وہ خراب سانس سے زیادہ دیر مقابلہ نہیں کر سکی۔

تین چار دن رہنے والا بخار اس کی جان لے گیا۔ سولہ اپریل کو جمعہ کے دن وہ ہم کو روتا چھوڑ کر چلی گئی اور ہم یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ اسے ہوا کیا ہے۔ اسے ہماری ناسمجھی کہیے یا قسمت کی ستم ظریفی کہ کوئی سمجھ ہی نہ سکا کہ یہ کوئی عام بخار نہیں۔ یہ کورونا تھا جس نے اس کے پھیپھڑوں کو متاثر کیا تھا۔ اس کی زندگی نے اتنی مہلت نہیں دی کہ اس کا مرض تشخیص ہو سکتا۔ اس کی وفات کے بعد اس کی رپورٹ آئی تو پتہ چلا کورونا سے تو لوگ سچ میں مرتے ہیں، نہیں مرتا تو کورونا خود نہیں مرتا ہے۔

گھر سے جوان بہن کی میت اٹھی تو احساس ہوا کہ کورونا کسی صیہونی یا یہودی کی سازش نہیں۔ کورونا کا تو اپنا الگ وجود ہے۔ اور یہ کسی کے کہنے پہ بھی نہیں چلتا، اس کا ریموٹ کسی بھی سازشی کے ہاتھ میں نہیں۔ اس کی تو اپنی ہی چالیں ہیں۔ چالیں چلتا یہ نہیں دیکھتا کہ سامنے مسلمان ہے، عیسائی ہے، یہودی ہے، کافر ہے یا پھر کسی بھی خدا کو نہ ماننے والا۔ اس کو پروا نہیں کوئی نیک ہے یا بد۔ یہ تو بس چپکے سے وار کرتا ہے اور پھر تماشا دیکھتا ہے، اکھڑی سانسوں کے ساتھ انسانوں کی بے بسی دیکھتا ہے۔ مجھے لگتا ہے موت کا رقص دکھانے کے باوجود یہ انسانوں کی دلیری پر حیران تو ہوتا ہو گا جو اس کے قہر ڈھانے کے باوجود اس سے ڈر کر احتیاط نہیں کر رہے۔

کچھ دن پہلے فرنود عالم کا کالم پڑھ رہی تھی۔ جناب فرنود عالم صاحب لکھتے ہیں ’لوگ موت کی وجہ کورونا بتانے سے گریز کرتے ہیں کہ کورونا سے مرنے کا اگر اعتراف کر لیا جائے تو پھر لوگوں کی بے احتیاطیوں پر سوال اٹھتا ہے‘ ۔ تو جناب فرنود عالم صاحب آپ غلط ہیں۔ یہاں بے احتیاطی کے الزام سے کون ڈرتا ہے۔ کورونا کا وار چل جانے کے بارے لوگ اس وجہ سے نہیں بتاتے کہ جنازے میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد کہیں کم نہ ہو جائے۔

اور اگر لوگ جنازہ پڑھنے سے رہ گئے تو میت کے جنت مکین ہونے کی خوشخبری دنیا والوں کو نہیں مل سکے گی۔ اس لیے لوگوں کے جم غفیر کو اکٹھا کرنا ضروری ہے پھر چاہے وہ بھی اسی مرض میں مبتلا ہوں ہماری بلا سے۔ دسویں اور سوئم کے ختم شریف میں اگر رشتہ دار شامل نہ ہو سکے تو گھر والوں پر بے حسی کی تہمت لگ جائے گی کہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے پیارے کا ختم دلانے کے قابل بھی نہیں۔ شریکوں کا ختم شریف میں شریک ہونا لازم ہے ورنہ وارثین کی ناک کٹ جائے گی۔

لوگ کورونا سے مرنے کی وجہ بتانے اس لیے بھی گریز کرتے ہیں کہ تعزیت کے لیے لوگ نہیں آئیں گے۔ وجہ چھپا کر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی کے تعزیت کرنے سے ان کا پیارا واپس نہیں آئے گا لیکن کسی دوسرے کا پیارا اس موذی مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے، کسی دوسرے کے پیارے کی جان جا سکتی ہے۔

کچھ بھی ہو جائے ہم لوگ کتنے ہی شدید صدمے سے دوچار کیوں نہ ہوں لیکن ہم دنیا کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ جبکہ جن چیزوں سے خائف ہونا چاہیے ان کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہیں۔ ایک تأثر کہ کورونا ہمارے اعمال کی سزا ہے تو جناب کورونا کا پھیلاؤ ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ ہو نہ ہو لیکن یہ ہماری بے احتیاطیوں کی وجہ ضرور ہے۔ کورونا سے واحد بچاؤ احتیاط ہے اور یہی وہ واحد چیز ہے جس سے ہم بچتے پھرتے ہیں۔ عجیب و غریب باتیں پھیلا رکھی ہیں جن کا سر ہے نہ پیر۔

حکومت کہتی ہے لاک ڈاؤن لگایا تو غریب مر جائے گا اور غریب کہتا ہے کورونا کا وجود ہی نہیں تو احتیاط کیسی۔ کورونا نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے رکھا ہے، لیکن کوئی اسے ماننے کو تیار نہیں۔ گھر اجڑتے جا رہے ہیں لیکن کوئی اس پہ دھیان نہیں دے رہا۔ حکومت نے لاک ڈاؤن کو انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے جبکہ یہ سراسر صحت کا مسئلہ ہے، زندگیاں بچانے کا مسئلہ ہے اور عوام نے بھی میں نہ مانوں کی ضد لگا رکھی ہے۔

آکسیجن چینی یا ٹماٹر نہیں جس کے استعمال کے بغیر گزارہ ہو جائے گا۔ اس کی قلت ہونے پہ کہہ دیا جائے کہ استعمال نہ کرو تو بھی فرق نہیں پڑے گا۔ آکسیجن ختم ہو گئی تو زندگیاں ختم ہو جائیں گی۔ ابھی بھی حالات کو قابو کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ضد اور ہٹ دھرمی دونوں طرف برابر رہی تو پھر انڈیا سے بھی برے حالات ہوں گے۔ اور یہ شاید واحد چیز ہو جس کی ذمہ داری سابق حکومت پر نہ ڈالی جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments