ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے


سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ”ایران ایک ہمسایہ ملک ہے اور ہم سب ایران کے ساتھ اچھے اور خصوصی تعلقات کی خواہش رکھتے ہیں“ ۔ العربیہ ٹیلی ویژن کو دیے گئے انٹرویو میں ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ”ایران کا طرزعمل منفی ہے لیکن ہم اب بھی اسے پڑوسی ملک کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور اچھے تعلقات استوار کرنے کے خواہش مند ہیں تاہم ایران اپنے متنازع جوہری پروگرام اور دوسرے ممالک میں باغیوں کی مدد کر کے تعلقات کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ ہے“ ۔

سعودی ولی عہد نے ایک سوال کے جواب میں ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہونے کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ”ایران کے ساتھ تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتے بلکہ ہماری خواہش ہے کہ ایران ترقی کرے۔ ہمارے مفادات ایران سے اور ایران کے سعودی عرب سے وابستہ ہیں ، دو طرفہ بہتر تعلقات کو فروغ دے کر ہم خطے کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں“ ۔

دو تین انداز میں کہی گئی ایک ہی بات کا اگر نچوڑ نکالا جائے تو مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کسی طور بھی یہ نہیں چاہتا کہ اس کے ایران یا ایران کے اس کے ساتھ تعلقات کسی کشیدگی کا شکار رہیں۔ کھچاؤ اور تناؤ کی یہ کیفیت دونوں ملکوں کے حق میں نہیں لہٰذا سعودی عرب چاہتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بہت اچھے تعلقات قائم ہوں۔

دنیا کا ہر ملک یہی چاہتا ہے کہ اس کے کسی بھی ملک سے تعلقات کی بنیاد کسی مخاصمت کی بجائے دوستی پر استوار ہونی چاہیے لیکن جو شے ہر ملک کی ہر دوسرے ملک کے ساتھ اچھے اور خوشگوار تعلقات میں ہمیشہ رکاوٹ کا سبب بنا کرتی ہے ، وہ ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہوا کرتے ہیں۔ ایک اور اہم رکاوٹ یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی بھی قسم کے تعلق میں کس کو غلبہ حاصل ہے اور کون دباؤ میں رہ کر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ شاید ہی کسی ملک کے کسی دوسرے ملک کے ساتھ برابری کے تعلق کی بنیاد پر کوئی قربت پائی جاتی ہو۔

یہی کچھ سعودی ولی عہد کے العربیہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے۔ بے شک سعودی عرب ایران سے اپنے برادرانہ تعلقات تو استوار کرنا چاہتا ہے لیکن وہ تعلقات غیر مشروط نہیں بلکہ کئی بڑی بڑی شرائط کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جن میں ایران کے ایسے ملکوں، تنظیموں اور گروہوں کے ساتھ تعلقات کا بھی ذکر ہے جو سعودی حکومت کے نزدیک ”باغی“ ہیں۔ یعنی وہ تنظیمیں، گروہ اور ممالک ایسے ہیں جو سعودی حکومت کے لئے نہ صرف خطرہ ہیں بلکہ سعودی عرب ان کے نشانے پر بھی رہتا ہے۔

اگر اس بات کو کوزے میں بند کیا جائے تو اس کو ”مفادات“ کا نام دیا جا سکتا ہے جو ہر ملک کے ہر دوسرے ملک سے بہر لحاظ مختلف ہوا کرتے ہیں۔ اگر ایران کسی ملک کے ساتھ اپنی کسی بھی قسم کی قربت کو فروغ دیتا ہے تو یہ کبھی ہو نہیں سکتا کہ وہ اپنی یا اپنے دوست ممالک کے مفادات کو ایک جانب رکھ کر کسی اور ملک کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ اسی طرح اگر کسی ملک کے تعلقات سعودی حکومت کے ساتھ کھچاؤ یا تناؤ کا شکار ہیں تو یہ ممکن نہیں کہ وہ تمام تر شدید اختلافات کے باوجود بھی ان سے برابری کی بنیاد پر اپنے تعلقات کو فروغ دے سکے۔

یہ تو وہ معاملات ہیں جو ہر ملک ہر دوسرے ملک کے ساتھ استوار کرتے ہوئے لازماً مدنظر رکھتا ہے لیکن سعودی ولی عہد کی یہ بات بہت ہی نامناسب محسوس ہوتی ہے کہ ایران سے اچھا تعلق استوار کرنے کی ایک شرط ایران کے ”ایٹمی پروگرام“ سے بھی وابستہ ہے۔ دنیا کے ہر ملک کو اس بات کا پورا پورا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دفاع کے لئے جو بھی زیادہ سے زیادہ اقدامات اٹھا سکتا ہے اٹھائے جس میں کسی بھی ملک کا جوہری ٹیکنالوجی میں ترقی کرنا بہت ضروری ہے۔

ایران ایک اسلامی ملک ہے اور اسلامی ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ہر قسم کی دفاعی صلاحیتوں کو فروغ دیں۔ ایران کا جوہری صلاحیتوں کو فروغ دینا جیسا ایک بہت مثبت عمل سعودی ولی عہد کی نظروں میں متنازع قرار دینا ایک ناقابل فہم بات ہے ہی اور پھر اس کو سعودیہ سے اچھے تعلق سے جوڑنا اور بھی حیران کن ہے۔ دنیا کے غیر مسلم ممالک اگر ہر قسم کے ہتھیار بنا لینے کے بعد گردنوں میں سریے ڈال کر پوری دنیا میں غنڈہ گردی کرنا اپنا طرۂ امتیاز سمجھ سکتے ہیں تو یہی تو ایک راستہ ہے جس سے ان کی گردنوں میں پڑے سریوں کو پگھلایا جا سکتا ہے۔

یہ بات یوں بھی ناقابل فہم ہے کہ ایران یعنی ایک اور مسلم ملک کا ایٹمی صلاحیت کا حامل ہو جانا سعودی عرب کے لئے کیوں اور کس لئے باعث تشویش ہے جبکہ اسرائیل سمیت تمام یورپی ممالک اور امریکا اس ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر پوری مسلم اور کمزور دنیا کے سروں پر آسمان سے لے کر زمین تک لٹکی ہوئی ایک تلوار بنے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کو ایران کے جوہری منصوبے کو ترک کر دینے پر زور دینے کی بجائے، ایران کے لئے بین الاقوامی سطح مزید ہموار کرنا چاہیے اور ایک بڑے اسلامی ملک ہونے کے ناتے اس کی ہر قسم کی مالی اور اخلاقی مدد بھی کرنی چاہیے۔

اگر موجودہ اسلامی ممالک میں کشیدگی کا جائزہ لیا جائے تو علامہ محمد اقبال کی یہ گہری بات کسی طور نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ موجودہ جدید خداؤں میں سب سے بڑا خدا ”وطن“ ہی ہے اور ہر وطن کی حدود میں رہنے والے سارے مرد و زن اپنے اپنے خدا کے پجاری ہیں۔ جب تک ایک ”امت“ کا تصور پیدا نہیں ہو گا، اس ٹکراؤ کو کسی طور ختم نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ درست ہی فرما گئے ہیں کہ

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

ضرورت اس بات کی ہے کہ بیشک ہم اپنے اپنے ”خدا“ پوجے جائیں لیکن کسی بھی لمحے ”امت“ کے تصور کو اپنی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیں ورنہ تہذیب نو کے سارے بھیڑیا صفت ممالک ایک ایک کر کے ہمیں چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments