عورتوں کے ڈرامے اور مردوں کی فلمیں


آپ اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالیں تو ایک اہم صنفی تفریق واضح دکھائی دے گی۔ اور وہ ہے مردوں اور خواتین کی اینٹرٹینمنٹ کا فرق۔ خواتین کی دلچسپی عموماً ایسی فلمیں ڈرامے دیکھنے میں ہوتی ہے جس میں عام طور پر ایک لڑکی ہیروئن کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ہیروئن یا تو شادی شدہ ہوتی ہے یا ہونے والی ہوتی ہے۔

اس کی تمام سسرالی خواتین اس پر ظلم و ستم کر رہی ہوتی ہیں۔ اس سے گھر بھر کا کام کروایا جاتا ہے۔ کھانے دھونے کی ذمہ داری اس کی ہوتی ہے۔ اس کی عیار ساس یا مکار دیورانی جٹھانی نظر چوکتے ہی اس کی پکائی ہانڈی میں نمک مرچ ڈال کر اسے خراب کر دیتی ہیں جس سے اس کا امپریشن خراب ہو جاتا ہے۔ اگر وہ جاب کرتی ہے تو جاب پر بھی اس کے لیے سنگین مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جن میں ہراسانی وغیرہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ سسرال میں بچہ نہ ہونے یا لڑکی پیدا ہونے وغیرہ پر بھی اس کے خلاف خطرناک سازشیں کی جاتی ہیں۔ اس کے مختلف سکینڈل بنا کر اس کے شوہر کو اس سے بدظن کیا جاتا ہے۔ حتی کہ شوہر اسے میکے بھی چھوڑ کر آ سکتا ہے۔

آج کل یہ ٹرینڈ بھی چل رہا ہے کہ گھروں میں ہی جنسی ہراسانی یا بے راہ روی دکھا کر ٹینشن پیدا کی جاتی ہے اور ہیروئن بہت استقامت سے اپنی عصمت کو بمشکل سنبھال سنبھال کر رکھتی ہے۔ ہاں اس کے شوہر پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی کیونکہ وہ جتنا بہکے اتنا ہیروئن کے غموں میں اضافہ ہوتا ہے۔

درمیان میں مزید غمگین جذبات ڈالنے کے لیے دو چار اہم کرداروں کا انتقال بھی کروایا جا سکتا ہے۔ ہیروئن بچاری سسکتی روتی کڑھتی اور ظلم و ستم برداشت کرتی اپنا وقت گزارتی ہے۔ یعنی اس ڈرامے میں ایک دکھیاری کو اس طرح پینٹ کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والیاں آٹھ آٹھ آنسو روتی ہیں کہ ہائے اس معصوم پر ظلم کے اتنے پہاڑ کیوں توڑے جا رہے ہیں۔

یعنی عورتیں رونے پیٹنے والی فلمیں ڈرامے دیکھنے کو تفریح سمجھتی ہیں۔

مردوں کو اس قسم کے جذباتی فلموں ڈراموں میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ کسی کو یوں سسک سسک کر زندگی گزارتے دیکھنے سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ مرد اپنی فطری رحم دلی کے باعث کسی کو اذیت میں مبتلا نہیں دیکھ سکتے۔ وہ نتائج پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کہیں ظلم و ستم ہو رہا ہے تو فوراً اس کا خاتمہ کر دیا جائے اور جتنے زیادہ قتل و غارت سے کیا جائے اتنا بہتر ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ایکشن فلمیں دیکھتے ہیں۔

ایکشن فلم میں جتنی زیادہ تباہی ہو وہ اتنی اینٹرٹیننگ سمجھی جاتی ہے۔ مزید دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کار ریسنگ وغیرہ بھی ڈال دی جاتی ہے جس میں دو چار بہترین قسم کی مہنگی گاڑیوں کو تباہ کرنا لازم ہوتا ہے۔ اس سے مردوں میں ایموشنل اٹیچمنٹ پیدا ہوتی ہے کیونکہ انہیں اپنی گاڑی میں پڑے ڈینٹ کا دکھ بھی یاد آ جاتا ہے اور سامنے گاڑی چلانے والا وہ خبیث ڈرائیور بھی جو نہ تو تیز چلتا ہے اور نہ راستہ دیتا ہے۔

ویلن جتنا زیادہ برا ہے اس کے اتنے زیادہ ٹکڑے کرنا مرد ایک اچھی تفریح سمجھتے ہیں۔ درمیان میں جذباتی ٹچ ڈالنے کے لیے پہلے ہیرو یا اس کے اقارب کی پٹائی دکھائی جاتی ہے، یا ہیرو کے سوا سب کو قتل تک کیا جا سکتا ہے اور پھر ہیپی اینڈنگ دینے کے لیے ویلن اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ انہیں سسک سسک کر کربناک زندگی گزارتے نہیں دکھایا جاتا۔ بس ایک ہی وار میں قصہ تمام کر کے کہانی آگے چل پڑتی ہے۔

خواتین اس قسم کے فوری انصاف سے قطعاً لطف اندوز نہیں ہوتیں اور کہتی ہیں کہ اس فلم میں تو جذبات کی گہرائی ہی نہیں ہے۔ ہیرو کی ماں مری ہے تو اس کا جنازہ، قل اور تیجا تو دکھایا ہی نہیں اور نہ ہی مناسب مقدار میں بین ڈالے گئے ہیں۔

ہاں ہارر فلموں پر مردوں اور عورتوں کا اتفاق ہو جاتا ہے۔ ان میں خنجر، آری، کلہاڑی وغیرہ سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے خون بہانے والے مناظر ہوتے ہیں جن سے مردانہ اور زنانہ دونوں قسم کے جذبات کی تسکین ہو جاتی ہے۔ ان مناظر پر خواتین حسب خواہش یا حسب روایت ”ہائے اللہ“ ، ”اف میں مر گئی“ اور ”ہائے یہ بچاری دروازہ کھلتے ہی مر جائے گی“ کہہ کر غمگین ہو سکتی ہیں اور مرد اس میں قتل کرنے کے نت نئے طریقے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان میں جتنا خون بہتا ہے اتنا ہی خواتین کے غموں اور مردوں کی خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ عورتیں بہت اذیت پسند ہوتی ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کی پسندیدہ ہیروئن کم از کم ایک سال تک سسکتی کڑھتی روتی اور ظلم و ستم برداشت کرتی رہے۔ جبکہ مرد کسی کو دکھ اور تکلیف میں زندگی گزارتے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ نہایت رحم دل ہوتے ہیں اس لیے وہ بدترین ویلن کو بھی سیدھی ماتھے پر لگتی گولی بلکہ راکٹ لانچر سے پرزے پرزے ہو کر تمام دکھوں سے یکلخت مکتی پاتے دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments