غربت سے نجات کا چینی طریقہ


شہباز شریف جیل کی سختیوں کو جھیلنے کے باوجود پرعزم اور پرامید محسوس ہوئے جیل سے رہائی کے بعد ان سے ملاقات میں ان کے سامنے ایک ہی سوال رکھا کہ وطن عزیز کی معاشی حالت بتدریج مخدوش ہوتی چلی جا رہی ہے۔ آپ اس گرداب سے نکلنے کے لئے کیسے پر امید ہے؟ برسوں کی محنت دو ڈھائی برسوں میں ضائع ہو چکی ہے مگر ان کے جواب میں نہ صرف عزم تھا بلکہ حکمت عملی بھی ان کے پاس موجود ہے۔ میری مستقل طور پر یہ رائے قائم رہی ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے ساتھ غیر معمولی وابستگی رکھتے ہیں اور ان سے تازہ ملاقات میں یہ تصور مزید مضبوط ہوا کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ نواز شریف کی قیادت سے ہٹ کر کوئی اقدام کریں۔

شہباز شریف کے نزدیک یہ بالکل واضح ہے کہ معاشی میدان میں کارکردگی سے ہی معاشرے کا ہر مسئلہ منسلک ہوتا ہے اور کامیابی کے ثمرات عوام تک منتقل ہو رہے ہوں، یہی حقیقی کامیابی ہوتی ہے۔ اس راہ میں مسائل کا آنا، مشکلات سے نبرد آزما ہونا ایک معمول کا عمل ہے اور قیادت کے لیے اس معمول کے عمل پر فتح پانا ہی دراصل حقیقی کامیابی ہے۔ معاشی اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کسی حکومت کی حقیقی کامیابی یا کامیابی کا سفر دیکھنے کے لیے عوامی سطح پر موجود احساسات و واقعات ہی بہترین پیمانہ ہوتے ہیں۔

ماضی میں اگر ضروریات زندگی میں سے کسی شے کے لئے لائن نہ لگتی ہو، شناختی کارڈ دکھا کر یا انگوٹھوں پر نشان لگوانا امر لازم نہ کر دیا جائے بلکہ چینی ویسے ہی مل جائے اور دیگر اشیاء دستیاب ہوں تو ایسا دور بلاشبہ اس دور سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے کہ جس میں یہ تمام قباحتیں سامنے آ رہی ہوں۔ ان کے سبب سے معاشی کارکردگی کی زبوں حالی بالکل آشکار ہو جاتی ہے۔

دنیا میں یہ ایک حقیقت مسلمہ ہے کہ کامیاب معاشی پالیسی اپنے شہریوں کی زندگی کو بتدریج بہتر زندگی کی طرف لے جاتی ہے۔ مگر اس کے لیے حکمت عملی اور سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سیاسی عزم اور حکمت عملی کی بہترین مثال چین کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

خیال رہے کہ چین کی حکومتوں نے ایک حکومت کے یا لیڈر کے جانے کے بعد اس کو نیچا دکھانے کی غرض سے اس کی محنت کو اکارت نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے سفر کا آغاز وہیں سے کیا کہ جہاں اس کے پیشرو نے چھوڑا تھا۔ تمام ادارے بھی یکسو ہو کر حکومت کا ساتھ دیتے رہے تاکہ کسی کو گرانے یا منصب پر بٹھانے کی سازشوں کی بجائے حقیقی مقاصد کو حاصل کیا جائے اور ملک ترقی کرتا چلا جائے۔

اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ 25 فروری 2021 کو چین کے صدر شی چن پنگ نے چین کی غربت کے خلاف فتح کا اعلان کر دیا، اس میں کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ انقلاب کے بعد غربت کے اوپر فتح پا لینے کا دن چین کی قومی زندگی میں ایک انقلاب کی کامیابی کے دن کے ہمسر ہے۔ چین میں انیس سو ستر کی دہائی کے آخر میں یہ تصور بہت مضبوطی سے قائم ہو گیا تھا کہ چینی اگر اپنی افرادی قوت اور قومی وسائل کو درست انداز میں استعمال کریں تو اس بہت بڑی آبادی کو بھی غربت کی سطح سے نکال سکتے ہیں۔

اسی زمانے میں غربت کے خاتمے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ جب چین کے موجودہ صدر 2012 میں اقتدار میں آئے تو انہوں نے اپنی حکومت کی بنیادی ترجیح اس کو قرار دیا کہ چین کے عوام کو خط غربت سے نکال کر خوشحالی کی جانب منتقل کر دینا ہے۔ اقوام متحدہ بھی چین کی ان سرگرمیوں کا بغور جائزہ لے رہی تھی اور اس نے چین میں غربت کے خاتمے کے لیے 2030 کا سال مقرر کر رکھا تھا مگر جہاں پر عزم موجود ہو، وہاں آخری تاریخ کا انتظار نہیں کیا جاتا ہے۔ اسی لیے چین نے یہ ہدف کم و بیش دس سال قبل ہی حاصل کر لیا۔

چین میں اس دوران سات سو ستر ملین افراد کو غربت کی تکلیفوں سے نجات مل گئی۔ خیال رہے کہ دنیا میں اس دوران صرف تنہا چین نے عالمی غربت میں سے 70 فیصد کا خاتمہ کیا جب کہ باقی پوری دنیا کا اس خاتمے میں حصہ صرف 30 فیصد رہا۔ چین کے موجودہ صدر کے 2012 میں اقتدار میں آنے سے لے کر ان کے غربت پر فتح پانے کے اعلان تک 98.9 ملین افراد کو غربت کی کیفیت سے نجات دلائی گئی۔ کسی بھی ملک میں ایک حساس ترین مسئلہ اس ملک میں بسنے والے مختلف تہذیبی و ثقافتی پس منظر کے گروہوں کو مطمئن رکھنا ہوتا ہے اور ان میں بھی خاص طور پر ان گروہوں کو خوش رکھنا ہوتا ہے جو تعداد میں دیگر گروہوں سے کم موجود ہوتے ہیں تاکہ کسی قسم کی احساس محرومی جنم نہ لے سکے۔

چین میں ایسے 28 گروہوں کی شناخت کی گئی پھر صدر شی نے اس پر ذاتی طور پر توجہ دی کہ کوئی ایسا اقدام نہ ہو جائے کہ جس کے سبب سے قوموں میں احساس محرومی رچ بس جاتا ہے۔ چنانچہ 28 علاقائی گروہوں کو خصوصی توجہ کا مرکز بنایا گیا ان میں سے اکثریت مختلف دیہاتوں یا بڑے شہروں سے زیادہ فاصلے پر مقیم ہے مگر ان سب دشواریوں کے باوجود ان تمام گروہوں کو بھی ترقی دے دی گئی اور اسی سبب سے گزشتہ آٹھ سالوں میں 832 کاؤنٹیز اور ایک لاکھ 28 ہزار دیہاتوں کو ہدف بنایا گیا جو مقصد اقوام متحدہ کے مطابق اٹھارہ برسوں میں حاصل ہونا تھا، وہ 8 برسوں میں حاصل کر لیا گیا اور غربت پر فتح پانے کا اعلان کر دیا۔

غربت کو ماضی کا حصہ بنا دینے سے معاشرے میں موجود ہر قسم کی برائیوں کے انسداد کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے اور یہی ہدف ہونا بھی چاہیے۔ چین کی یہ کامیابی پاکستان کے لئے بھی ایک مشعل راہ ہے۔ ہمارے لئے یہ بہت مناسب ہو گا کہ معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غربت میں کمی لانے کے چینی تجربہ سے فائدہ اٹھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments