تاریخ کے ساتھ تاریخی گھپلا کرنے والی قوم


مستنصر حسین تارڑ نے درست کہا کہ ہمارے ہاں تاریخ کو بری طرح مسخ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنے ایک ٹی وی ڈرامے ’پرچم‘ کی مثال بھی دی ہے جو کہ قیام پاکستان سے قبل سول سیکرٹریٹ لاہور کی عمارت سے برطانوی پرچم یونین جیک اتارنے کے حوالے سے دکھایا گیا تھا۔ اس میں ایک لڑکی نے یونین جیک نہیں اتارا تھا بلکہ متعدد لڑکیوں نے یہ کام کیا تھا لیکن مستنصر حسین تارڑ کے بقول بعد میں تین چار خواتین اس انفرادی دعوے کے ساتھ سامنے آ گئیں کہ برطانوی پرچم انہوں نے اتارا تھا۔

خیر سے ایک خاتون کو تو اس وجہ سے اہل پاکستان نے خوب عزت بھی دی اور ڈاک ٹکٹ تک پر اس کی تصویر تک چھاپ دی گئی تھی حالانکہ یہ کوئی بہت پرانی بات تو ہے نہیں کہ آپ اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے ۔ پرچم ایک نے اتارا تھا یا تین یا چار نے، معمولی سی تحقیق سے حقیقت سامنے آ سکتی تھی اور آ سکتی ہے لیکن ہمارے ہاں تو تحقیق کا رواج ہی نہیں رہا ، اسی لئے ہر جگہ آپ کو فراڈ لوگ کثرت سے نظر آرہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک تنکا بھی نہیں توڑا مگر قوم ان کو اپنے ہیروز سمجھ رہی ہے۔

کچھ کی اتفاق سے قائداعظم، علامہ اقبال یا کسی اور بڑے رہنما کے ساتھ تصویر بن گئی یا اس نے ٹمپرنگ کر کے تصویر بنا لی اور بن بیٹھا تحریک پاکستان کا سرگرم کارکن اور مزے کی بات ہے کہ ایسے لوگوں کی اصل حقیقت جاننے کی معمولی سی کوشش بھی کسی نے نہ کی اوران کو ایک زبردست تقریب منعقد کر کے تحریک پاکستان کے بزرگ کارکن کا اعزاز بخش دیا گیا اور ساتھ ہی ایک عدد گولڈ میڈل سے نواز دیا گیا۔

پھر یہ بزرگ کارکن اس بناء پر عوامی تقریبات میں بطور مہمان خصوصی بلایا جانے لگا ، ٹی وی سکرین کی رونق بڑھانے لگا، کوئی معمولی سی تحقیق کرے تو اسے پتہ چل جائے کہ جس نے اپنی تصویر قائداعظم یا علامہ اقبال کے ساتھ پیش کی ہے ، اس نے کبھی ان رہنماؤں کو نزدیک سے دیکھا بھی نہیں ہو گا۔

چلیے اب میں آپ کو اپنی آنکھوں دیکھے ایک ثبوت سے آگاہ کرتا ہوں ۔ میں ان دنوں روزنامہ خبریں لاہورمیں سب ایڈیٹر تھا، جب ایک روز گورنر ہاؤس لاہور کے قریب واقع تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ لائبریری میں مختلف فائلوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے اچانک میری نظر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے تحریک پاکستان کے مشہور ترین کارکن اصغر سودائی کی فائل پر پڑی اصغر سودائی کا دعوی ہے کہ’’پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لا الہ الا اللہ‘‘ نعرہ اس کی تخلیق ہے اور اس بناء پر اصغر سودائی کو تحریک پاکستان کا ورکر مان کر اس کو بھی گولڈ میڈل سے نوازا جا چکا ہے لیکن اس کی اپنی فائل میں ایک پریس ریلیز مع ثبوت لگی ہوئی چیخ چیخ کر اس کے دعوے کو جھٹلا رہی تھی۔

اس پریس ریلیز کے ساتھ ایک نظم کی فوٹو کاپی بھی منسلک تھی اور ساتھ کئی لوگوں کے نام بطور گواہوں کے درج تھے کہ اصغر سودائی کے دعوے سے بہت پہلے نہ صرف، پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الا اللہ، نعرہ تخلیق ہو چکا تھا بلکہ ایک نظم کی صورت میں چھپ بھی چکا تھا۔ مذکورہ پریس ریلیز سے صاف عیاں تھا کہ اصغر سودائی اس نعرے کے خالق نہیں ہیں اور انہوں نے یہ نعرہ چوری کیا ہے اور اس کی وجہ سے تاریخ کو بھی مسخ کیا ہے لیکن اس تاریخی گھپلے کے باوجود آج تک انہی کا نام اس نعرے کے ساتھ لیا جاتا ہے اور نعرے کے اصل خالق کی کسی کو خبر تک نہیں ہے۔

یہ تو وہ مثال ہے جو میرے علم میں کسی طرح آ گئی (یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ آج تک کسی اور نے یہ معاملہ نہیں اٹھایا ہے راقم الحروف وہ پہلا شخص ہے جس نے اس تاریخی حقیقت سے پردہ اٹھانے کی جرأت کی ہے ) اگر کوئی سرپھرا تھوڑی سی بھاگ دوڑ اور مغز ماری کرے تو پتہ نہیں کیسے کیسے ہوشربا انکشافات سامنے آ جائیں۔

خیر سے ایک مدت تک ہم پڑھتے اور سنتے رہے کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’پاکستان میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا تھا‘‘، لیکن اب محققین بتا رہے ہیں کہ قائد اعظم نے ایسی کوئی بات کبھی کی ہی نہیں تھی چلئے اب تاریخی گھپلوں کی بات ہو ہی رہی ہے تو یہ بھی کہتے چلیں کہ لائل پور کا نام فیصل آباد منٹگمری کا نام ساہیوال رکھنا کیا تاریخی گھپلا نہیں؟

اور ابھی جو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے لاہور کی قدیم اور تاریخی سڑک لارنس روڈ کا نام مجید نظامی روڈ رکھا ہے اس کے بارے میں میرے مہربان حسن نثار کیا کہیں گے؟ حسن نثار نے آج تک لائل پور کے نام کی تبدیلی کو نہیں مانا ہے۔ وہ اسے بدستور لائل پور ہی لکھتے اور پکارتے ہیں اور یہ بھی سن لیں کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا نام فرید آباد رکھنے کی سازش بھی کافی دیر سے ہو رہی ہے لیکن اس پر بہ وجوہ عمل نہیں ہو پا رہا۔

اپنے منٹو صاحب نے اس شہر کے نام پر اپنا شہرہ آفاق افسانہ لکھا تھا۔ جس دن احساس کمتری میں مبتلا لوگوں نے یہ نام تبدیل کروا لیا اس دن منٹو کی روح کتنا تڑپے گی، اس کا اندازہ شاید ہم جیسے لوگ کبھی نہیں کر سکیں گے اور سچ تو یہ بھی ہے کہ اگر منٹو کو پتہ ہوتا کہ اس کے جانے کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ کا نام تبدیل کر دیا جائے گا تو وہ شاید اپنا یہ شاہکار افسانہ لکھتا ہی ناں، ویسے اگر ہم میں تھوڑی سی بھی حیاء اور لحاظ ہو تو ایک صرف منٹو کی خاطر ہم اپنا یہ فضول سا ارادہ بدل ڈالیں، لیکن ہم ایسا کیوں کریں گے جی؟

ہم نے تو لگتا ہے قسم کھائی ہوئی ہے کہ ہم تاریخ کے پلے کچھ نہیں چھوڑیں گے۔ اس کی ایسی تیسی کر کے رکھ دیں گے۔ خیر اب آپ سے کیا چھپانا، اگر جناب حسن نثار نے لائل پور کے نام کی تبدیلی کو نہیں مانا ہے تو سچی بات ہے ہم نے بھی اپنے محلے کے نام کی تبدیلی کو کبھی نہیں مانا، یہ قیام پاکستان سے قبل کا محلہ ہے اور اچھا بھلا اس کا ایک منفرد اور خوبصورت سا نام ہے ’نقد پورہ‘ لیکن ایک دماغ میں موجود خناس نے کام دکھایا اور انہوں نے اس کا نام تبدیل کر دیا لیکن آج تک نہ ہم نے مانا ہے اور نہ ہی محلے کی اکثریت نے۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی کرتے چلیں کہ ہماری رہائش دو اہم اور تاریخی جگہوں کے عین درمیان میں واقع ہے ، ہمارے گھر کے دائیں جانب عالمی شہرت یافتہ لوک داستان ہیر رانجھا کے مرکزی کرداروں کا مزار واقع ہے اور اس کے بارے میں بھی تاریخی گھپلوں کی ایک لمبی داستان موجود ہے۔

اول تو یہ واقعہ ہی سرے سے جھوٹ ہے اور اس کو لکھنے والے بھی کئی ہیں۔ اکیلا وارث شاہ نہیں، وارث شاہ نے تو چند شعر لکھے تھے ، ہاں اس کے بعد آنے والوں نے اس میں اپنے اپنے اشعار ڈالے اور خوب ڈالے ۔ پنجابی کے سب سے جاندار اور تگڑے محقق ڈاکٹر قریشی احمد حسین قلعداری کے مطابق اس قصے میں کوئی دس ہزار دو سو ستاسی کے قریب مصرعے مختلف شاعروں کے ہیں ۔ ڈاکٹر قلعداری کے مطابق:

میاں رکن الدین کی فرمائش پر میاں احمد دین نے سولہ سو تہتر مصرعے
میاں پیراں دتہ۔ ۔ گیارہ سو بانوے مصرعے
محمد دین سوختہ۔ سات ہزار نو سو پینتالیس مصرعے
اشرف علی۔ ۔ پانچ سو مصرعے
عبدالرحمن۔ چھ سو پچاس مصرعے

اور ان کے علاوہ مولوی عزیز دین نے بھی کچھ مصرعے بڑھائے، اب آپ خود اندازہ کر لیں کہ اس میں گھپلے کے علاوہ اور ہے بھی کیا؟ اور اس کے ساتھ یہ بھی سن لیں کہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے ایک سابق پرنسپل اور نامور لکھاری پروفیسر سمیع اللہ قریشی مرحوم کی تحقیق کے مطابق ہیر یونانیوں کی محبت کی دیوی تھی اور اس مزار کے اندر جن قبروں کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اس میں کوئی صداقت نہیں، یہ قبریں ہیں بھی یا نہیں؟اور بنیں تو کب بنیں؟ اس کے بارے میں بھی تاریخ خاموش ہے ، اس لئے گھپلا کرنے والوں کو آسانی سے اپنے عزائم پورے کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے اس کہانی کو جو رخ دینا چاہا دے لیا۔

بہرحال یہ لوک داستان ان تاریخی گھپلوں کے باوجود اس وقت پوری دنیا میں جانی مانی جاتی ہے، اسی طرح ہمارے گھر کے بائیں جانب نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کی جائے پیدائش ہے ، اب یہ بھی ایک تاریخی اہمیت کی حامل جگہ ہے لیکن شکر ہے کہ ابھی تک اس کے ساتھ کوئی گھپلا نہیں ہوا ہے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ حکومت پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے محفوظ اور یادگارقرار دی جانے والی اس جگہ کو لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیا گیا ہے اور اب اس جگہ پر کیا ہو رہا ہے۔ یہ دیکھنے اور جاننے کی شاید کسی کو فرصت ہی نہیں۔

ویسے پتہ نہیں مجھے یہ کیوں لگتا ہے کہ جس دن اس جگہ کے ساتھ بھی کوئی بڑا تاریخی گھپلا ہوا ، اسی دن اس کی طرف بھی سب کی نظریں ہوں گی، یہ میں یونہی نہیں کہہ رہا، یہ ہماری تاریخ سے ثابت ہے۔  شاید ہم گھپلا پسند قوم بن چکے ہیں ، کسی کو یقین نہ آئے تو نامور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی سے پوچھ لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments