مسقط اور قرنقشوہ کا تہوار


آج سے ٹھیک بارہ برس پہلے رمضان ہی میں ہم پہلی بار مسقط کی زمین پر اتارے گئے تھے۔ اتارے گئے اس لئے کہ مسقط آنے کا کوئی سوچا سمجھا پلان نہیں تھا۔ حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی کہ دل اوبھ گیا۔ ایک روز ناشتے پر اخبار پڑھتے ہوئے عمان میں ڈاکٹر کی ضرورت کا اشتہار دیکھا تو انشا جی کا یہ شعر جانے کیوں یاد آیا

ہو جائیں گے پردیس میں جا کر کہیں نوکر
یاں سال میں اک بار بھی آیا نہ کریں گے

ایک درخواست ارسال کر دی۔ خوبیٔ قسمت انتخاب ہو گیا۔ چچا جان کو بتایا تو عجیب سا سوال کیا۔ ”تم مسقط جاؤ گی یا عمان“ ۔
ہماری معلومات کے مطابق مسقط عمان کا دارالخلافہ ہے اور یہ سوال ایسا ہی تھا جیسے کوئی پوچھے اسلام آباد جاؤ گے یا پاکستان۔

”مسقط“ ۔ ہم نے مختصر جواب تو دے دیا لیکن یہ سوال گھنڈی کی طرح دماغ میں اٹک گیا۔ یہاں آ کر الجھن اور سوا ہو گئی جب پتہ چلا کہ مسقط کے اندر ایک اور مسقط بھی ہے یعنی ڈبے میں ڈبیہ۔ کچھ لوگ عمان (Oman) کو اردن کے دارالحکومت عمان (Amman) سے خلط ملط کرتے ہیں۔

چلئے قارئین اور چک پھیریاں نہیں، آئیے اس گرہ کو کھولتے ہیں۔ دراصل 1956 سے 1970 تک اس مملکت کا نام سلطنت عمان و مسقط تھا۔ مسقط جزیرہ نمائے عرب کے ساحل کے ساتھ ساتھ پھیلی سلطنت کا نام تھا جو کہ آبنائے ہرمز، خلیج فارس اور خلیج عمان کے ساحلی علاقوں پر مشتمل تھی جبکہ عمان ساحل سے دور کہساروں کے پار صحرائی اور میدانی علاقوں کی سرزمین تھی۔ اور اس کا صدر مقام نزوا تھا۔ پہاڑی سلسلہ حاجر جو کہ متحدہ عرب امارات تک پھیلا ہوا ہے ، ان دونوں خطوں کو جدا کرتا ہے۔

یہ دونوں خطے اپنے جغرافیے، ثقافت، زبان اور بود وباش میں فرق رکھتے ہیں۔ اگرچہ مسقط اور عمان ایک ہی سلطان کے زیر نگیں تھے لیکن درحقیقت عمانی علاقے رجعت پسند، کٹر مذہبی اور قبائلی سوچ کے حامل رہنماؤں کے زیر اثر تھے جو وقتاً فوقتاً بغاوت کرتے رہتے تھے۔ اسلام اس خطے میں ساتویں صدی عیسوی میں آ چکا تھا۔ بعد ازاں مقامی اماموں نے عبادی فرقے کو جنم دیا جو کہ سنی فرقے ہی کی ایک فرع ہے۔ عمانی اکثریت عبادی مذہب کی پیروکار ہے لیکن سنی بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ شیعہ قلیل تعداد میں ہیں مگر انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے ، البتہ مذہبی رسومات چار دیواری تک محدود رکھنا لازم ہے۔ سڑکوں پر جلوس اور ماتم کی اجازت نہیں۔

دوسری طرف مسقط صدیوں سے خلیج فارس کی اہم بندرگاہ رہا ہے ، اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر پرتگالی، ایرانی اور برطانوی دلچسپی کا مرکز رہا اور وقتاً فوقتاً ان کے تسلط میں آتا رہا۔ جلیلی اور میرانی قلعے پرتگالی دور کی یادگار ہیں۔ یہاں کے باشندے بحری تجارت اور بیرونی دنیا سے روابط کی وجہ سے عمان کے مقابلے میں متمول اور جدت طراز تھے۔ مسقط کے حکمرانوں نے فتوحات کا سلسلہ مشرقی افریقہ کے علاقے زنجبار تک پھیلا دیا تھا۔

ال بو سعیدی خاندان کے زیر حکومت انیسویں صدی کی عظیم تر عمانی سلطنت میں مسقط اور عمان کے علاوہ آج کا متحدہ عرب امارات، پاکستان کا گوادر اور ایران کا آبنائے ہرمز کے ساحلی علاقے بھی شامل تھے۔ اسی لئے آج بھی یہاں افریقی، ایرانی اور بلوچی باشندے نظر آتے ہیں۔ 1856 میں سعید بن سلطان کی وفات کے بعد سلطنت ان کے دو بیٹوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک زنجبار کا حکمران اور دوسرا مسقط کا سلطان۔ 1958 میں پاکستان نے دس ملین ڈالر میں گوادر خرید لیا تاہم گوادر کے لوگوں کو عمانی شہریت ایک عرصے تک حاصل رہی۔

1964 میں زنجبار نے آزادی حاصل کر لی۔ 1970 میں متحدہ عرب امارات علیحدہ کنفیڈریشن کی حیثیت میں ابھرا۔ اس خطے میں انسانی غلاموں کی تجارت کا خاتمہ بھی اسی سال ہوا۔ عمانی سلطنت رو بہ زوال تھی۔ جدید تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں کا فقدان تھا۔ ایسے میں مغربی تعلیم یافتہ، روشن خیال اور ترقی پسند قابوس بن سعید نے اپنے والد سعید بن تیمور کو معزول کر کے عنان حکومت سنبھالی۔ مسقط اور عمان کو ضم کر کے ”سلطنت عمان“ کا سرکاری نام مقرر کیا۔

مسقط سلطنت عمان کا دارالحکومت قرار پایا۔ سلطان قابوس کے 49 سالہ دور حکومت میں عمان نے ترقی اور خوشحالی کا عروج پایا۔ سلطان نے قبائلی، علاقائی اور طبقاتی مسائل کو بہت احسن طریقے سے حل کیا۔ لوگوں کا معیار زندگی بلند کیا۔ مفت صحت اور تعلیم کی سہولیات مرحمت فرمائیں۔ آئین بنایا۔ کہانیوں والے رحم دل اور عقل مند بادشاہ کا جیتا جاگتا پیکر لوگوں کے دلوں میں بستا تھا۔ کینسر کے موذی مرض کے ہاتھوں 10 جنوری 2020 کو جان حزیں موت کے سپرد کر دی۔

لوگ پھوٹ پھوٹ کر روتے دکھائی دیے۔ فضاء میں اداسی گھلی رہی۔ موت سے پہلے سلطان سادگی سے تدفین کرنے کی وصیت کر گئے تھے لہٰذا صرف قریبی لوگوں نے اس میں شرکت کی۔ مجلس شوریٰ کو نیا سلطان منتخب کرنے کی اجازت تھی لیکن اگر اتفاق رائے نہ ہو سکے تو ایک بند لفافے میں سلطان نے اپنا انتخاب لکھ کر صلالہ کے محل میں رکھ چھوڑا تھا۔ اپنے سلطان کے شیدائی مجلس شوریٰ کے ممبروں نے حق انتخاب کی بجائے لفافہ کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح ہیثم بن طارق سلطنت عمان کے نئے سلطان بن گئے۔

2018 کی شماریات کے مطابق اس سلطنت کی آبادی 1.4 ملین ہے۔ انتظامی لحاظ سے اسے گیارہ محافظوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر محافظہ مزید برآں ولایتوں میں منقسم ہے۔ محافظہ مسقط میں چھ ولایتیں ہیں جن میں سے ایک کا نام مسقط ہے۔ یہ بندرگاہ سے ملحق قدیم مسقط کا علاقہ ہے۔

خوبصورت سیاہ اور بھورے پہاڑوں اور نیلے شفاف پانیوں کے ساتھ ساتھ پھیلا شہر مسقط نگاہ ذوق و قلب کے لئے طمانیت کا ذریعہ ہے۔ اس کے حسین ساحل کورنش کہلاتے ہیں۔ گہرے سمندر میں جا بجا ڈولفن اٹھکھیلیاں کرتی نظر آتی ہیں۔ مسقط میں ہمسایہ ملکوں کی طرح آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک قلیل منزلہ سفید یا بیضوی رنگ کی عمارتیں سکون اور آسودگی کا تأثر پیدا کرتی ہیں۔ زندگی یہاں فراٹے نہیں بھرتی بلکہ سہج سہج چلتی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے ٹیکسی یا ویگن استعمال کی جاتی ہے تاہم حال ہی میں بڑی سرخ بسیں کچھ روٹس پر چلنے لگی ہیں۔ بارہ سال پہلے جب پہلی بار ہسپتال جانے کے لئے ٹیکسی روکی تو ڈرائیور نے شیشہ اتار کر کہا ”Engaged“ ؟۔
اس غیر اخلاقی فقرے پر بوکھلا کر ہم پیچھے ہٹ گئے۔

اگلی ٹیکسی ڈرائیور نے ایسا کچھ تو نہ کہا البتہ ہمارے حسب نسب، فیملی جاب وغیرہ کے بارے میں پے در پے سوالات کی بوچھاڑ کر دی یہاں کے باتونی ڈرائیور اچنبھے کا باعث تھے۔ ہمارے ٹیکسی ڈرائیور تو ڈمی کی طرح بیٹھے ہوتے ہیں، پیچھے کیا ہو رہا ہے جیسے نہ سنتے ہوں نہ سمجھتے ہوں۔ ہسپتال کے دفتر میں پھر ایک خوشگوار حیرت ہوئی عربوں سے تعلق کے سابقہ تجربات کے بر خلاف ایڈمن نے مسکرا کر استقبالیہ جملے ادا کیے ۔

کاغذات کی تکمیل کے دوران وہ باتیں بھی کرتا رہا۔ اور تب ہی انگیجڈ کا عقدہ بھی حل ہوا۔ انگیجڈ کا مطلب ہے ٹیکسی کا پورا کرایہ آپ ادا کریں گے لیکن اگر تین اور مسافر بٹھا لیے جائیں تو کرایہ ایک چوتھائی ہو جائے گا۔ ملازمت پیشہ لوگ روزانہ کی آمد و رفت کے لئے اسی طریقے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ہماری مشرقیت کو غیر اور اجنبی مردوں کے پہلو میں بیٹھنا گوارا نہ ہوا ، اس لئے ہم انگیجڈ ہی سفر کرتے رہے تا آنکہ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیا اور اپنا ذاتی سیارہ یعنی کار خریدی۔ جدہ میں ہمارے فلائٹ انجینئر انکل کو جب تیز رفتاری پر روکا گیا تو شرطے (پولیس) نے سوال کیا:

”کیا کرتے ہو؟“ ۔
انکل نے کہا ”مہندس طیارہ (فلائٹ انجینئر)
شرطے نے برجستہ کیا ”ھذہ سیارہ ما فی طیارہ“ ، (یہ کار ہے طیارہ نہیں )

عمانی نرم خو، مہربان اور گھل مل جانے والے ہیں۔ قومی زبان عربی ہے مگر بلوچی سواحلی اور فارسی بھی بولی جاتی ہے۔ کتابی عربی تو نستعلیق ہے مگر عام بول چال کی عمانی عربی بقیہ خلیجی ممالک سے الگ ہے۔ اکثر لوگ انگریزی سمجھ اور بول سکتے ہیں۔ مردلمبا کرتا ڈشڈاشا پہنتے ہیں اور رسمی تقریبات میں کمر کے ساتھ روایتی خنجر اڑستے ہیں۔ دو تلوار اور ایک خنجر عمان کا قومی نشان ہے۔ خواتین جلابیہ پہنتی ہیں لیکن شہروں میں مغربی لباس عام ہے۔ گھر سے باہر اور ملازمت کے مقام پر عبایہ اور اسکارف پہنتی ہیں۔ مسقط کی خواتین چہرے کا پردہ نہیں کرتیں لیکن اندرون ملک کی بدو خواتین چہرے پر مخصوص چونگا نما ماسک پہنتی ہیں جو ماتھے ناک اور منہ کو ڈھکتا ہے اور چہرے سے اونچا اٹھا ہوتا ہے۔

غیر ملکی لوگوں پر لباس کی پابندی نہیں تاہم ساحلوں اور شاپنگ مالز میں بورڈ آویزاں دکھائی دیتے ہیں جن پر درج ہوتا ہے please dress modestly۔ عمانی عورتیں تعلیم یافتہ اور ہر شعبے میں پیکر عمل نظر آتی ہیں۔ عمانی عورتیں غیر عمانی سے شادی کر سکتی ہیں مگر ان کے شوہر اور بچوں کو عمانی شہریت حاصل نہیں ہوتی۔ جبکہ عمانی مرد کو یہ حق حاصل ہے۔ تاہم غیر عمانی عورت سے شادی کرنے کے لیے سرکاری اجازت درکار ہوتی ہے۔

اگرچہ نئی نسل مغربی فاسٹ فوڈ کی طرف مائل ہے لیکن روایتی کھانے اور عمانی حلوہ جات بھی طمطراق کے ساتھ ثقافت کا حصہ ہیں۔ عید، بقرعید یا خاص دعوت کے موقع پر عمان کی روایتی ڈش ”شواء“ بڑے اہتمام سے بنائی جاتی ہے۔ ایک گڑھے میں آگ سلگائی جاتی ہے اور مٹی کے بڑے سے برتن میں گوشت اور مسالے ڈال کر اس کا منہ آٹے سے سیل کر کے گڑھا پتھر سے ڈھک دیتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے بعد تیار گوشت نکال کر چاول کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ عمانی حلوہ بھی خاصے کی چیز ہے۔ یہ کارن اسٹاچ، چینی، زعفران ، مکھن اور میوہ جات سے مل کر بنتا ہے۔ یہ سنہرے یا ارغوانی رنگ کے حبشی حلوے جیسا دکھتا ہے لیکن ذائقے میں بہت مختلف ہے۔ کھجور عمانی حلوہ اور عمانی قہوہ مہمان داری کے لازمی جزو ہیں۔

عید الفطر، عید الاضحی کے علاوہ دو قومی دن 18 نومبر سلطان قابوس کی تاریخ پیدائش اور 23 جولائی ان کی حکمرانی اور عمان کی نشاہ ثانیہ کا دن، بہت جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ عمانی قرنقشوہ (qaranqishoh) بھی بڑے ذوق و شوق سے مناتے ہیں۔ چودہ رمضان کی افطار اور نماز مغرب کے بعد بچے روایتی لباس میں ٹولیاں بنا کر، ہاتھوں میں چراغ یا شمعیں لے کر نکلتے ہیں۔ موقع کی مناسبت سے مخصوص گیت گاتے ہوئے گلیوں میں چکر لگاتے ہیں۔

گھروں کے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور قرنقشوہ کہتے ہیں۔ بڑے دروازہ کھول کر قرنقشوہ کہتے ہیں اور چاکلیٹ مٹھائی اور عیدی دیتے ہیں۔ یہ قدیم تہوار سارے عرب میں منایا جاتا ہے تاہم کچھ عرب ممالک میں چودہ رمضان کے بجائے پندرہ شعبان کو ہوتا ہے اور اسے شعبانیہ، قریقان یا گریگان کہتے ہیں۔ گئے دنوں میں سندھ کے شہر لاڑکانہ میں شعبانیہ ہوتے دیکھا تھا۔

ارے لیجیے ہمارے دروازے پر دستک ہوئی ہے۔ بند دروازے کے پیچھے سے بھی ہم بچوں کی خوشی سے لبریز چہکار سن سکتے ہیں۔ چلئے دروازہ کھول کر قرنقشوہ کا جواب دیتے ہیں۔

قرنقشوہ قرنقشوہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments