صوبہ بہاول پور کے قیام کی 70 سالہ قدیم کہانی


اگست 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد ریاست بہاول پور نے نوزائیدہ مملکت پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ الحاق کے ابتدائی چند برسوں میں بہاول پور کے حکمران نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی اور حکومت پاکستان کے درمیان متعدد معاہدے کیے گئے، انہی معاہدوں میں ایک 30 اپریل 1951ء کو ہونے والا ضمنی معاہدہ ”انسٹرومنٹ آف ایکسیشن“ بھی شامل ہے، جس کے تحت ریاست بہاول پور کے تمام مرکزی امور حکومت پاکستان نے لے لیے جبکہ صوبائی امور جو باقی صوبوں کو حاصل تھے، ان کا اختیار بہاول پور کو دے دیا گیا تھا۔

صوبے کا درجہ ملنے کے بعد بہاول پور میں پاکستان کے باقی حصوں کی طرح ”ایک فرد ایک ووٹ“ کی بنیاد پر عام انتخابات کا انعقاد ہوا تو اس وقت کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نے فتح حاصل کی اور صادق آباد سے تعلق رکھنے والے سید حسن محمود صوبہ بہاول پور کے وزیراعلیٰ بنے۔ منتخب ہو کر آنے والے وزیر اعلیٰ بہاول پور کو وہی اختیارات حاصل تھے جو دوسرے صوبائی وزرائے اعلیٰ کو حاصل ہوتے تھے۔

بہاول پور کی صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کے امور سرانجام دیے جاتے۔ صوبے کا اپنا الگ سکرٹریٹ اور اپنا پبلک سروس کمیشن تھا۔ ملک کے باقی صوبوں کی طرح بہاول پور صوبے کا بھی بجٹ پیش ہوتا تھا۔ اگرچہ بہاول پور کا رقبہ زیادہ بڑا نہیں تھا، تاہم ایک اندازے کے مطابق 1951ء اور 1952ء میں بہاول پور کا بجٹ اس وقت کے صوبہ سرحد کے برابر تھا۔

بہاول پور کی یہ صوبائی حیثیت 14 اکتوبر 1955ء تک ہی برقرار رہی جب وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت نے مغربی پاکستان کے صوبہ جات، پنجاب، سندھ، بلوچستان، بہاول پور اور شمال مغربی سرحدی صوبہ کو ملا کر ایک اکائی میں تبدیل کر دیا۔ اس صوبائی نظام کو ”ون یونٹ سکیم“ کا نام دیا گیا۔

ون یونٹ وہ منصوبہ تھا جسے پاکستان کی وفاقی حکومت نے مغربی پاکستان کے تمام صوبوں، ریاستوں اور قبائلی علاقہ جات کے انضمام کے لیے شروع کیا تھا۔ جس کے تحت مملکت پاکستان کے مغربی حصے کے تمام صوبوں کو یکجا کر کے 12 ڈویژن پر مشتمل ایک اکائی کی صورت دی گئی جبکہ اس کا دوسرا حصہ مشرقی پاکستان کی صورت میں موجود تھا۔ اس طرح پاکستان محض دو صوبوں پر مشتمل ایک ریاست بن گیا۔ ون یونٹ منصوبے کا اعلان وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے 22 نومبر 1954ء کو کیا تھا۔

ون یونٹ کی اس پالیسی کا مقصد بظاہر انتظامی بہتری لانا تھا لیکن کئی لحاظ سے یہ بہت تباہ کن اقدام تھا۔ مغربی پاکستان میں موجود بہت ساری ریاستوں نے اس یقین دہانی پر تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں اس ریاستی یقین دہانی پر شمولیت اختیار کی تھی کہ ان کی خود مختاری قائم رکھی جائے گی لیکن ون یونٹ قائم کرنے کے فیصلے سے تمام مقامی ریاستوں کا خاتمہ ہو گیا۔ اس سلسلے میں ریاست بہاول پور کے علاوہ خیرپور اور قلات کی ریاستیں بالخصوص قابل ذکر ہیں۔

یکم جولائی 1970ء کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر صدر جنرل یحییٰ خان نے لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے ونٹ یونٹ کا خاتمہ کرتے ہوئے متحدہ پاکستان کے تمام صوبوں کو بحال کر دیا۔ البتہ صوبہ بہاول پور کی صوبائی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے پنجاب میں ضم کر دیا گیا۔

ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بہاول پور کو علیحدہ یونٹ کے طور پر بحال نہ کرنے پر یہاں کے عوام نے شدید ردعمل دکھایا اور صوبائی حیثیت کی بحالی کے لئے ایک زبردست تحریک چلائی۔ اس تحریک کا مرکز بہاول پور کا فرید گیٹ بنا جہاں جلسے منعقد کیے جاتے تھے۔ یہ تحریک لگ بھگ 6 ماہ تک چلتی رہی۔ اس کے بعد تشدد سے اسے دبا دیا گیا۔ گولیاں چلیں، آنسو گیس کا استعمال ہوا۔ ان تمام افراد کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا جو اس تحریک سے وابستہ تھے۔

دسمبر 1970ء کو ہونے والے پاکستان کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات بہاول پور میں صوبے کی بحالی کی بنیاد پر لڑے گئے۔ اس میں ماسوائے پاکستان پیپلز پارٹی کے باقی تمام جماعتوں نے اسی مطالبے کی بنیاد پر ایک متحدہ محاذ بنایا، جس میں مسلم لیگ، تحریک استقلال، جماعت اسلامی وغیرہ شامل تھیں۔ اس پہلے عام انتخابات میں مرکزی اسمبلی کی 8 میں سے 6 اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی 18 میں سے 16 نشستوں پر بہاول پور سے وہ امیداوار کامیاب ہوئے جو بہاول پور کو علیحدہ صوبہ بنانے کے حامی تھے۔

انتخابات میں فقید المثال کامیابی کے بعد صوبہ بہاول پور متحدہ محاذ کے رہنماؤں نے ڈھاکا میں شیخ مجیب الرحمان سے ملاقات کی۔ جن کی جماعت عوامی لیگ مرکزی اسمبلی کی کل 300 میں سے 160 سیٹیں جیت کر واضح اکثریت کر چکی تھی۔ متحدہ محاذ کے رہنماؤں سے ملاقات کے دوران مجیب الرحمان نے کہا کہ میں وزیراعظم بننے والا ہوں، میں بہاول پور کو علیحدہ صوبے کے طور پر ضرور بحال کروں گا۔ تاہم اس کے بعد کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے کہ صوبہ نہ بن پایا۔

برصغیر کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک بہاول پور صوبائی حیثیت کھونے کے بعد اب محض تین اضلاع کے ڈویژن پر مشتمل ہے۔ وسط میں بہاول پور، اس کے مغرب میں رحیم یار خان اور مشرق میں بہاولنگر کے اضلاع ہیں۔ بہاول پور ڈویژن کا رقبہ 45 ہزار 588 مربع کلو میٹر ہے۔ اس میں چولستان 20 ہزار 200 کلو میٹر ہے جبکہ اس علاقے کی لمبائی 480 کلو میٹر ہے۔ اس کا مشرقی اور جنوبی حصہ انڈیا کے ساتھ لگتا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے جنوبی پنجاب سکرٹریٹ قائم کرنے کے باوجود بہاول پور کے عوام کی اکثریت اب بھی بہاول پور کے علیحدہ صوبے کی حامی ہے۔ تحریک بحالی صوبہ بہاول پور کے مرکزی رہنما قاری مونس بلوچ کے مطابق بہاول پور نے جو ترقی ریاست کے دور میں شروع کی وہ صوبے کے دور تک جاری رہی، مگر پھر تھم گئی اور آج تک جامد ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments