بشیر میمن کے انکشافات الزامات کے سوا کچھ نہیں


پاکستانی عوام کے ہر دن کا آغاز ایک نئے ایشو کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے عوامی ایشوز پیچھے اور سیاسی ایشوز اہمیت اختیار کر جاتے ہیں، آج کل سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے وزیراعظم عمران خان پر بے بنیاد الزامات کا ایشو سرفہرست ہے، وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے الزامات بے بنیاد ہیں، میں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہیں، بلکہ خواجہ آصف کے خلاف تحقیقات کا کہا تھا۔

بشیر میمن اومنی گروپ کی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی میں پیش رفت پر بریف کرتے تھے، ان کا کام ریفرنس فائل کرنا نہیں تھا، اس لیے کبھی خاتون اول کی تصویر کے معاملے میں مریم نواز پر دہشت گردی کا مقدمہ بنانے کا کہا نہ ہی کبھی (ن) لیگ یا پیپلز پارٹی کے خلاف کیسز بنانے کا کہا ہے، تاہم مسلم لیگ (ن) قیادت نے مطالبہ کیا ہے کہ بشیر میمن کے انکشافات کی تحقیقات کرائی جائیں، نیب نیازی گٹھ جوڑ کی حقیقت اور احتساب کے نام پر جاری ڈھونگ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی سیاست میں ایک کے بعد ایک پنڈورا باکس کھولنا روایت رہی ہے، تاہم اس طرح ایک شخص کا بغیر کسی دستاویزی ثبوت کے زبانی جمع خرچ سے ایسی فضاء پیدا کرنا ناقابل فہم ہے کہ سب حلقے باتوں کے سحر میں مبتلا ہو گئے ہیں، ایک شخص تسلیم کر رہا ہے کہ مجھے کوئی لکھ کر حکم نہیں دیا گیا، ایسی زبانی کلامی باتیں ہوئیں، جنہیں میں نے تسلیم نہیں کیا، اس کے باوجود زیر بحث ہے، یہ کام کوئی منجھا ہوا شخص ہی کر سکتا ہے کہ الزام لگاؤ اور پکڑے بھی نہ جاؤ۔

یہ کتنی حیرانگی کی بات ہے کہ بشیر میمن ایک سرکاری ملازم تھے اور وزیراعظم اپنے ماتحت سے التجا کرتے رہے کہ میری بات مان کر سیاست دانوں پر جھوٹے مقدمے بناؤ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کسی مقدمے میں ملوث کرو، مگر بشیر میمن بڑی دلیری سے انکار کرتے رہے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ عوام کو پہلے بھی ایسی ہی بے سروپا باتوں سے بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے، مگر اس بار عوام ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وزیراعظم کوئی بات اپنے ماتحت سے کہیں اور وہ انکار کرتا چلا جائے، اگر واقعی اتنے کھرے سچے تھے تو انہوں نے ساری باتیں اتنے برس تک چھپائے کیوں رکھیں؟ اس وقت کیوں نہ کیں کہ جب انہیں ریٹائرمنٹ سے پندرہ دن پہلے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا؟

کیا ہماری تاریخ چھ چھ ماہ بعد ڈی جی ایف آئی اے بدلنے سے بھری نہیں پڑی ہے، کیا بشیر میمن کو معلوم نہیں تھا کہ وزیراعظم کی بات نہ ماننا عہدے سے برطرفی کا موجب بن سکتا ہے، اگر وزیراعظم کو واقعی ایسے کام کرانے ہوتے تو کسی جونیئر افسر کو ڈی جی ایف آئی اے لگا کر سب کروا سکتے تھے، انہیں پھر واجد ضیاء جیسے پروفیشنل افسر کو ڈی جی ایف آئی اے لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔

درحقیقت بشیر میمن نے اپنے ضمیر کے جاگنے پر نہیں کسی پشت پناہی میں وزیراعظم عمران خان کو ٹارگٹ کیا ہے، انہوں نے چن کر ایسی باتیں کی ہیں کہ جو حالات کے تناظر میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ وزیراعظم انتقام کی آگ میں مخالفین سے بدلہ لینا چاہتے ہیں، بشیر میمن بے خبری میں الزامات تو لگا گئے، مگر انہیں معلوم نہیں کہ سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے کارروائی نہیں کی جا سکتی اور مریم نواز پر مقدمہ ایف آئی اے نہیں متعلقہ پولیس درج کر سکتی ہے۔

بشیر میمن شاید اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ صرف ایف آئی اے ہی ملک کا واحد ادارہ نہیں، بلکہ بہت سے ایسے ادارے ہیں کہ جو قانونی کارروائی کا اختیار رکھتے ہیں، بشیر میمن نے سب کچھ ایک ایسے وزیراعظم کے بارے میں کا کہا ہے کہ جو بات بات پر قانون کا حوالہ دیتا اور آزاد عدلیہ کی بات کرتا ہے، وہ کیسے اپنے ماتحت افسر سے قانون شکنی کی بات کر سکتے ہیں۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بشیر میمن ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ تأثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مبینہ طور پر جو کام میں نے نہیں کیے ، بعد ازاں نیب سے کرائے گئے ہیں، تاکہ نیب نیازی گٹھ جوڑ کا الزام درست ثابت ہو جائے، اسی لیے بشیر میمن کے انکشافات پر حکومت مخالف حلقے بیدار اور متحرک ہو چکے ہیں، وہ ایک شخص کے زبانی الزامات پر بڑی بڑی انکوائریاں چاہتے ہیں، کوئی سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہا ہے تو کوئی اسے عدلیہ پر حملہ قرار دے رہا ہے۔

مریم نواز بھی اسے بدترین دہشت گردی قرار دے رہی ہیں، انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اصل سسلین مافیا حکومت میں بیٹھا ہے۔ پا کستانی سیاست میں کتنا آسان ہے کہ کسی بھی زیر کو زبر کر دیا جائے، تاہم زیر کو زبر کرنے کے پیچھے بھی سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں سرگرم ہوتی ہیں، محض بہت مصالحے دار گفتگو کرنے کی بنیاد پر کوئی سابق ڈی آئی جی میڈیا کے ذریعے ہاہا کار نہیں مچا سکتا ہے۔

بلاشبہ ہر ملک میں اہم عہدوں پر رہنے والے افسران اور سیاست دان ایک خاص مدت کے بعد انکشاف ضرور کرتے ہیں، مگر وہ انکشافات وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے پس منظر میں ہوتے ہیں، مگر ہمارے ہاں تو ہمیشہ گنگا الٹی ہی بہتی ہے، یہاں پر ہونے والے انکشاف واقعات پر نہیں، گفتگو کے تناظر میں کیے جاتے ہیں، ایسی باتوں کی کوئی پکڑ ہو سکتی ہے نہ ہی کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے، تاہم سنسنی خیزی ضرور پھیلائی جاتی ہے۔

بشیر میمن کے انکشافات میں حقائق سے زیادہ سنسنی خیزی ہے، انہوں نے جو باتیں بھی کہی ہیں، ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوا ہے، انہوں نے کہیں نہیں کہا کہ میں نے وزیراعظم کے کہنے پر فلاں بندے کے خلاف کارروائی کی اور اسے جیل میں ڈال دیا، جس پر میں شرمندہ ہوں۔

بشیر میمن جیسے زبانی کلامی باتوں کے انکشافات تو کوئی بھی کر سکتا ہے، تاہم سنجیدہ حلقوں اور اہم اداروں کو نوٹس لیتے ہوئے سخت کارروائی عمل میں ضرور لانی چاہیے، تاکہ آئندہ کے لئے ایسے بے سروپا انکشافات کے نام پر سنسنی خیزی پھیلانے کا سدباب کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments