ٔمچھلی کھلانے کی بجائے مچھلی پکڑنا سکھاو


میرے والد صاحب ایک پروفیسر تھے ، ان کی ایک عادت تھی کہ وہ جب کبھی باہر جاتے تھے تو وہ ٹھیلے والوں سے سے کچھ نہ کچھ ضرور خرید لیتے تھے۔ ان کے مطالعے کے کمرے میں مختلف رنگوں کی تسبیحیں، سستے، خشک روشنائی والے قلم یا چند اوراق پر مشتمل باریک سی نوٹ بکس کو دیکھتے ہوئے ایک دن میں نے کہا ”ابو، یہ بے کار چیزیں ہیں، آپ انہیں استعمال بھی نہیں کرتے تو پھر آپ خریدتے کیوں ہیں؟“ انہوں نے اپنی کتاب پر سے نظریں ہٹائے بغیر کہا ”ہوں گے ہماری نظر میں یہ بے کار مگر ان کے لیے تو ایک دن کی روٹی ہے جس کے لیے وہ اپنی ہمت کے مطابق محنت کر رہے ہیں، اگر کوئی بھی کچھ نہیں خریدے گا تو ان کی ہمت ٹوٹے گی اور پھر وہ کھانے کے لیے ہاتھ پھیلائیں گے اور یہ اچھی بات نہیں“ ۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں ہر کس و ناکس کے لیے محض پانچ روپے میں دو وقت کا کھانا فراہم کرنے والی، پروین سعید سے میں نے سوال کیا کہ آپ جس قیمت میں دو وقت کا کھانا کھلاتی ہیں، اس میں منافع تو کیا کوئی بچت بھی نہیں ہوتی، تو پھر آپ دوسرے لوگوں کی طرح مفت کھانا کیوں نہیں بانٹتیں؟ ان کا جواب مجھے یک دم میرے ابو کے کمرے میں انہی ”بے کار“ سی چیزوں کو خریدنے کی اہمیت سمجھا گیا۔ انہوں نے کہا، میں نہیں چاہتی کہ ان میں سے کوئی بھی مفت کھانے کی شرمندگی سے بچنے کے لیے بھوکا رہے، میری کوئی مالی بچت نہیں ہوتی مگر ان کی خودداری بچ جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو وقت کے کھانے کی خاطر چاہے وہ بس دس روپے کمانے جتنی محنت کریں، وہ محنت ضرور کریں گے بھیک کا کھانا نہیں کھائیں گے۔ کتنا سادہ سا کام ہے مگر اس کا اثر بڑا دوررس اور دیرپا ہے۔

ابھی چند روز قبل ضرورت مند خاندانوں میں راشن بانٹنے والے ایک دوست نے اپنا مشاہدہ بتایا کہ ان کے ادارے کی حانب سے ہر ماہ راشن بانٹنے کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری تھا، بس یونہی ان کا دل کیا کہ جس علاقے میں ماہانہ راشن دیا جاتا ہے وہاں جا کر دیکھا جائے کہ ان لوگوں کے اور کیا مسائل ہیں اور ان کی مزید کیا مدد کی جا سکتی ہے۔ اگلی سہ پہر جب وہ اس علاقے میں گئے تو ٹھٹک کر رہ گئے۔

وہاں ڈھابے پر خوش گپیوں میں مصروف مرد اور مختلف مقامات پر بے فکری سے موبائل ہاتھوں میں لیے دنیا دیکھنے میں مشغول لڑکے جن میں سے کچھ کے پاس تو موٹر سائیکلز بھی تھیں، وہ ان کے اس ”مجبور“ اور ”پریشان حال“ کے تصور سے بالکل الٹ تھے کہ جس کے تحت وہ کئی سال سے ان کو ماہانہ راشن دیتے آ رہے تھے۔ ان سے بات چیت کی گئی کہ ہماری این جی او آپ لوگوں کے لیے روزگار کا بندوبست کرنا چاہتی ہے تو ان حضرات نے اپنی ”مجبوریاں“ بتانی شروع کیں۔

ان میں سے کچھ کا کہنا تھا کہ جوڑوں کے درد کے باعث اب وہ چل پھر نہیں سکتے، کچھ کو بلڈ پریشر اور شوگر کا مسئلہ تھا، لڑکوں کی طرف رخ پلٹا تو کئی تو کھسک گئے ، جو ہاتھ آئے ان پر پہلے ہی اتنی ”ذمہ داریاں“ تھیں کہ وہ کام دھندہ کرنے سے قاصر تھے، انہیں گھر کے لیے پانی بھر کے لانا ہوتا ہے اور بازار سے چیزیں بھی تو لا کر دینی ہوتی ہیں تو وہ بھلا مستقل کام کیسے کریں۔ بس دال روٹی چل جاتی ہے ، راشن مل جاتا ہے کافی ہے۔ یہ صورت حال چشم کشا تھی اور ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اب راشن بانٹنے کی بجائے اس راشن کو کمانے کی تربیت دینے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔

جب کسی بھی معاشرے کے افراد تن آسانی میں پڑ جائیں، بغیر محنت کے ان کو دو وقت کی روٹی بھی مل جائے تو بھلا وہ گندم اگانے، پیسنے، آٹا گوندھنے اور روٹی پکانے کا تردد کیوں کریں؟ اور جب اس کی عادت پڑ جائے تو پھر ”محنت“ اور خودداری رخصت ہو جاتی ہیں، اسی لیے یہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ ”کسی شخص نے کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں کھایا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے کما کر کھائے“ (الجامع الصحیح)

اس تمہید کا مقصد یہ کہ ایک طرف تو میرا ملک عطیات یا چیریٹی دینے والے ممالک میں سرفہرست ہے تو دوسری طرف میرے ملک میں کل آبادی کا 24 فی صد حد غربت سے بے حد نیچے زندگی گزار رہا ہے اور 38 فی صدکے لگ بھگ ہیں جو اس حد سے اوپر تو ہیں تاہم اس حد سے نیچے جانے کی حد سے دور نہیں ہیں۔ کیوں؟ ہم غربت کا خاتمہ کیوں نہیں کر پا رہے ہیں؟ کیا ”انتہائی غربت“ کا خاتمہ صرف اعلیٰ تعلیم اور بڑی بڑی صنعتوں کا جال بچھا دینے ہی سے ممکن ہے یا اس کے ساتھ ساتھ کسی اور ”تربیت“ کی جڑیں گہری کرنے کی بھی ضرورت ہے؟

”غربت کے خاتمے کے لیے چین رول ماڈل ہے“ یہ تو اب روزمرہ کا جملہ ہو گیا ہے اور کوئی دو رائے نہیں کہ چین نے جس قدر قلیل مدت میں غربت کا خاتمہ کیا ہے وہ ناقابل یقین مگر قابل تقلید ہے۔ لیکن انہوں نے کس سے سیکھا کہ غربت کا خاتمہ کیسے ہو؟ ان کے سامنے کون سا ”رول ماڈل“ تھا؟ چین میں ایک کہاوت ہے کہ ”بھوکے کو مچھلی کھلاؤ نہیں، اسے مچھلی پکڑنا سکھاؤ“ ۔ درحقیقت اس اتنی بڑی کایا پلٹ کی بنیاد یہی اصول ہے۔ چین کی آبادی لگ بھگ ایک ارب چار سو تیس ملین ہے جو کہ دنیا کی مجموعی آبادی کا اٹھارہ اعشاریہ چار فی صد ہے۔

1990 میں پاکستان کا جی ڈی پی 371 ڈالر فی کس تھا جو 2019 میں 1284 ڈالر ہو گیا۔ ادھر چین کا جی ڈی پی 1990 میں 317 ڈالر فی کس سے بڑھ کر 2019 میں، 10، 261 ڈالر فی کس ہو گیا۔ ذرا تصور کریں 70 سال قبل اس ملک کو ایک مفلوک الحال ملک کہا جاتا تھا اور واقعتاً بہت سے علاقوں میں لوگ غاروں میں رہتے تھے اور اچھی خوراک کا حصول ان کے لیے خواب تھا۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے بے حد منظم منصوبہ بندی کی گئی، وسائل کا جائزہ لیا گیا، ریاست کے وسائل کو علاقوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا۔

سب سے اہم بات جو اس دوران مدنظر رکھی گئی ، وہ یہ کہ آبادی بھی بہت زیادہ اور رقبہ بھی بہت بڑا تھا، زرعی ملک بھی نہیں تھا۔یک دم پوری قوم کو سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی نہیں دی جا سکتی، یک دم صنعتوں کا قیام اور ان میں کام کرنے کی قابلیت بھی نہیں پیدا کی جا سکتی، تو پھر پہلا قدم کیا اٹھایا جائے کہ عوام کی بھوک کا بھی حل نکلے اور انہیں محض ایک وقت کی روٹی نہ دی جائے بلکہ اس کو خود سے حاصل کرنے کا مستقل سلسلہ بنایا جائے۔ یہاں پر ”مچھلی پکڑنا سکھاؤ“ کی سوچ ”مچھلی کھلاؤ“ سے زیادہ اہم تھی اور پھر حکومت نے شہروں سے لے کر دور دراز دیہات تک، ”صلاحیتوں کی بنیاد پر ترقی“ کو ترویج دی جسے ہم انگریزی میں ”سکل ڈیویلپمنٹ“ کہتے ہیں۔

آج اس ملک کی اس کامیابی کے پیچھے ہر فرد کو اس کی صلاحیت کے مطابق اس کے علاقے میں موجود وسائل کے مطابق تربیت دینے اور خود پر انحصار کرنے کے قابل بنانے کی دور اندیشی نظر آتی ہے۔ حکومت نے ان کے کام، ان کی پراڈکٹس کو بیچنے اور مزید ترقی دینے کے لیے پڑھے لکھے افراد کے ذریعے مارکیٹ تک رسائی دی۔ گھر میں دہی مکھن بنانے سے لے کر، مقامی دستکاریوں کے معیار کو بلند کرنے تک ہر جگہ حکومت نے ان کی اعانت کی اور اپنے وسائل کو بھی کسی عارضی حل میں نہیں جھونکا۔

آج تبت جیسے دور افتادہ اور مشکل ترین علاقے کی مقامی خواتین اپنے علاقے میں یاک کے دودھ سے بنائی جانی والی روایتی اشیاء کو بین الاقوامی مارکیٹ تک لے گئی ہیں، وہ اپنے لیے دو وقت کی روٹی کی بجائے اب کئی خاندانوں کے لیے باعزت روزگار کی سہولت دے رہی ہیں، مختلف علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے مقامی افراد اور وسائل استعمال کیے گئے، ہر فرد کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام سونپا گیا۔ لوگ بھی فارغ نہیں رہے، علاقے کی حالت بھی سدھری، عارضی نہیں مستقل بندوبست ہوا اور محنت ان کی تربیت کا حصہ بنی۔ سب سے بڑھ کر ”محنت“ اور ”محنت کرنے والے“ کو عزت دی گئی۔

محنت کش کو اگر اس کی محنت کا معقول معاوضہ نہ ملے، چوک پر قلم بیچنے والے سے دس روپے کے دو قلم نہ خریدے جائیں مگر ”خود ساختہ ہیجڑوں“ کی مغلظات پر ہنستے ہوئے ان کو بیس روپے پکڑا دیے جائیں تو قلم بیچنے والا بچہ محنت کش نہیں بنے گا بلکہ خودداری کا چولا اتار پھینکے گا کیونکہ محنت کی عظمت کا درس بھوے پیٹ کی گڑگڑاہٹ میں دب جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں محنت کش کو ”اوئے“ کہہ کر آواز دی جاتی ہے، بڑی دکان سے چند سو کے جو پھل سبزیاں بغیر بحث کے ہزار میں لے آتے ہیں ، انہی کی قیمت سو سے بھی کم کروانے کے لیے ٹھیلے والے کی تذلیل کرتے ہیں۔

کئی ہزار کے جوڑے خرید کر باہر کھڑے ”کی چین“ بیچنے والے سے قیمت کم کرواتے ہوئے اس کو رلا دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کی فالتو کتب ردی میں بیچ دیتے ہیں ، گھر کے ملازم کے بچوں کو پڑھانے کے لیے اس کی مدد نہیں کرتے۔ محنت کشوں کے اس عالمی دن پر بڑی بڑی تبدیلیوں اور صنعتوں کے لگانے کی بات کرنے سے پہلے ”محنت“ اور ”محنت کش“ کو عزت دینے ان کی ہمت بڑھانے اور ان کی محنت میں ان کی مدد کرنے کا اصول اپنا لیں تو ”خودداری“ کے ساتھ مستقل حل کی جانب رستہ کشادہ اور آسان ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments