انتشار میں جو اپنی بقاء دیکھتے ہیں


کوئی پینتیس سال پہلے کوئٹہ کے جاڑوں میں 25 کیولری (Men of Steel) میں پوسٹ کمیشن اٹیچمنٹ کے دوران یونٹ لائبریری سے ”فار پویلین“ نامی ایک ناول ہاتھ لگا تھا۔ چند صفحے پڑھے تو انیسویں صدی کی برٹش انڈین آرمی کے ایک کیولری کپتان کی سحر انگیز کہانی دل میں اترتی چلی گئی۔ کتاب کا محض دھندلا سا خاکہ اب ذہن میں باقی بچا ہے۔ اگلے روز ناول میں مذکور ایک واقعہ مگر بوجہ یاد آ گیا۔

شمال مغربی سرحد پر تعینات ایک سنتری نے رات کے اندھیرے میں ایک مشکوک ہیولا اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو اسے مخصوص عسکری انداز میں للکارا۔ خبردار کیے جانے کے باوجود ہیولا بڑھتا چلا آیا تو سنتری تو اس پر فائر داغ دیا۔ صبح پتہ چلا کہ سنتری نے اپنی ہی کمپنی کے صوبیدار کو دشمن سمجھ کر اس پر گولی چلائی تھی، جو خوش قسمتی سے محفوظ رہا۔ سنتری کو 28 دن قید بامشقت سزا سنائی گئی۔ سات دن اپنے ہی ساتھی پر گولی چلانے اور بقیہ 21 دن بری نشانہ بازی (Bad Marksmanship) پر۔ آئے روز پیٹوں میں گولیاں مار کر جو بھاگ نکلتے ہیں، ایسے نکمے ’ٹارگٹ کلرز‘ کے ساتھ بھی، جو مخصوص بین الاقوامی اخبارات کو سرخیوں کا مواد فراہم کرتے ہیں، کچھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے۔ لگتا تو نہیں، تاہم ان نالائقوں کا تعلق عسکری اداروں سے ہے تو مزید تشویش کی بات ہے۔

اہم عہدوں پر فائز رہنے والوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کئی اہم امور سے واسطہ پڑتا ہے۔ مہذب معاشروں میں ذمہ داروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسے حساس امور کو (جو اس عرصے میں ان کے علم میں لائے گئے ہوں ) ایک مخصوص مدت سے قبل سر عام زیر بحث نہیں لائیں گے۔ ذاتی مفاد کی خاطر مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو ایسی گفتگو یا راز کہ جن کی پاسداری کا کبھی جنہوں نے حلف اٹھایا ہو، فاش کر نے سے نہیں چوکتے یا کم از کم کچھ افراد کو بلیک میل کرنے کی لئے ایسا کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔

ذاتی مفاد اور شخصی عناد میں جو رویہ شریف خاندان نے اپنایا ہے اس کی ہمیں مثال نہیں ملتی۔ اہم عہدوں پر براجمان رہنے والے اشخاص محض کسی ایک فرد یا ادارے کو نیچا دکھانے کی خاطر جب قومی مفادات کو داؤ پر لگاتے ہوئے غیر ذمہ دارانہ گفتگو کریں اور اس باب میں اپنے حواریوں کی بھی پشت پناہی کریں تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ نتیجتاً، وطن عزیز میں سرکاری اور عوامی عہدے بے وقار ہو چکے ہیں۔ معاشرہ انتشار کی سی کیفیت سے دو چار ہے۔ انتشار میں ہی مگر کچھ افراد اپنی بقاء دیکھ رہے ہیں۔

لندن میں بیٹھے ہوؤں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حکومت چھوڑنے سے عین قبل کس طرح ملک کی معیشت کو بین الاقوامی اداروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا گیا تھا۔ قومی سلامتی کے ادارے بھی گمبھیر معاشی صورت حال پر چیخ اٹھے تھے۔ پاکستان عالمی برادری کے ان ممالک میں سے ہے جو اپنی مخصوص علاقائی مجبوریوں کی بناء پر پال کینیڈی کے الفاظ میں ’بلٹ، بٹر اور گروتھ‘ کی ترتیب سیدھی کرنے میں الجھے رہتے ہیں۔ پانچ سو سال سے قوموں کو یہی مخمصہ درپیش رہا ہے۔

80 کے عشرے میں سوویت یونین کو بھی اسی ’عظیم مخمصے‘ کا سامنا تھا۔ سوویت لیڈر جانتے تھے کہ ترجیحات بدلیں گے تو شیرازہ بکھر جائے گا۔ بصورت دیگر معیشت ایک روز دم دے دے گی۔ آج امریکی بھی اسی مخمصے سے دو چار ہیں۔ جانتے ہیں کہ وہ اپنے عالمی اہداف کے تعاقب میں اس قدر دور چلے آئے ہیں کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد قرض دینے والے سب سے بڑے ملک کی بجائے اب وہ سب سے بڑی قرض دار قوم بن چکے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کل جاپان جیسی ’تاجر قوم‘ کو بھی اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر اپنی ترجیحات بدلنی پڑیں۔

ان ترجیحات کو طے کرنا اس قدر سادہ و آسان نہیں جس قدر اداروں سے مخاصمت رکھنے والے ظاہر کرتے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ صورت حال کی نزاکت اور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب کو سامنے رکھے ہوئے ہے۔ صورت حال کو سنبھالنے کے لئے حکومت کے ساتھ مل کر کچھ معاملات سدھارنے کی کوششیں سامنے آئی ہیں۔ معاملات کا سدھرنا کسی اور کو ہو نہ ہو، ان کو موافق نہیں جو معیشت کی مکمل تباہی میں اپنی بقاء دیکھ رہے ہیں۔

مدت ملازمت میں توسیع کے بل کی حمایت میں جو حلف لندن میں اپنے حواریوں سے اٹھوایا گیا تھا، اس کے بدلے میں صرف جیل سے رہائی نہیں، توقعات کہیں بڑھ کر تھیں۔ ستمبر 2020 میں جب امیدیں بر نہ آئیں تو بھرپور حملے کا فیصلہ ہوا۔ گولہ باری شدید تھی مگر گنجائش بہرحال ایک حد تک ممکن تھی۔ اب پانسہ پلٹ رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو خود مغرب زدہ لبرلز کے ترجمان انگریزی اخبار نے بھی اپنی لیڈ سٹوری میں ’حیران کن‘ کہا ہے۔

فیصلے کے فوراً بعد ایک سابق اہم سرکاری افسر کا مخصوص میڈیا چینل پر سنسنی خیز انٹرویو نشر ہوا ہے۔ کچھ اور ہو نہ ہو اس انٹرویو کی ’ٹائمنگ‘ بہت اہم ہے۔ کرپشن کے مقدمات دھول میں اٹ چکے ہیں۔ توقع یہی ہے کہ جن مقدمات میں سزائیں ہو چکی ہیں، ان پر نظرثانی کے لئے گزشتہ دنوں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی روشنی میں اب ’مناسب وقت‘ کا انتظار کیا جائے گا۔ روایتی سیاسی جماعتیں، مغربی میڈیا کی ’اردو نشریات‘ اور کم از کم دو مقامی میڈیا ہاؤسز کرپشن کے مقدمات میں روز اول سے ان کی پشت پر جم کر کھڑے ہیں۔

مغربی دارالحکومتوں میں ’جمہوریت مخالف قوتوں‘ سے نبرد آزما ’نہتی لڑکی‘ کا مقدمہ جب دن رات ’ریاست مدینہ‘ کے احیاء کی رٹ لگانے والے، ترک ڈراموں میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ تلاش کرنے والے شخص سے کیا جاتا ہے تو یورپ کی نفسیات میں صدیوں سے چھپا صلیبی جنگوں کا خوف جاگ اٹھتا ہے۔

پی ٹی آئی کا پنجاب ہی نہیں، کراچی سے بھی صفایا ہو چکا ہے۔ ریاست اپنے ہی بوجھ کے نیچے چٹخ رہی ہے۔ اسی دوران لاہور ہائی کورٹ سے اٹھنے والے الزامات نے ہم جیسے از کار رفتہ سپاہیوں کے دلوں کو چھید ڈالا ہے۔ ملکی سلامتی کے اداروں کو اس قدر بے بس شاید ہی ہم نے کبھی دیکھا ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments