راولپنڈی رنگ روڈ پھر سرد خانے کی نذر


لاہور رنگ روڈ 85 کلومیٹر طویل 6 رویہ ہے۔ یہ ایم 2 موٹروے اور این 5 نیشنل ہائی وے سے مربوط ہے ، رنگ روڈ میں درج ذیل 19 انٹرچینج اور پل ہیں۔ بابو صابو انٹرچینج، گلشن راوی انٹرچینج، سگیاں انٹرچینج، لاہور، نیازی انٹرچینج، بادامی باغ چوراہا، شاد باغ پمپنگ اسٹیشن کے قریب انڈر پاس، محمود بوٹی انٹرچینج، جی ٹی روڈ انٹرچینج (قائد اعظم انٹر چینج) ، کینال بینک روڈ میں ہربنس پورہ انٹرچینج، ریلوے لائن چوراہا، جلو روڈ اوور ہیڈ پل، برکی روڈ چوراہا، عبداللہ گل انٹرچینج (ایئر پورٹ معاون سڑک کی انٹرچینج) ، ایئر پورٹ انٹرچینج، غازی روڈ انٹرچینج، ڈی ایچ اے فیز 5 / 6 انٹرچینج، سوئی گیس سوسائٹی انٹرچینج، فیروزپور روڈ انٹرچینج اور شالیمار انٹر چینج ۔

لاہور رنگ روڈ شاندار منصوبہ ہے۔ لاہور رنگ روڈ کے بعد راولپنڈی میں رنگ روڈ بنانے کی بازگشت سنی جاتی رہی ہے۔ ماضی کی چار پانچ حکومتوں کے دور میں اس کی ضرورت محسوس کی گئی مگر فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث کبھی کام شروع نہیں کیا جا سکا۔ شہباز شریف دور میں سروے کرایا گیا تھا۔ بزدار حکومت نے گزشتہ سال راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے پر کام شروع کیا۔ ابتداء میں 40 ارب اور 50 ارب تخمینہ لگایا گیا تھا۔ جس کی منظوری کا اعلان وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے خود کیا تھا۔

بعد ازاں اس وقت کے کمشنر راولپنڈی محمد محمود نے بتایا کہ منصوبہ کی لاگت 160 ارب تک پہنچ گئی ہے اور یہ منصوبہ جی ٹی روڈ روات سے سنگجانی تک 64 کلومیٹر طویل ہو گا۔ کمشنر نے ماسٹر پلان بتاتے ہوئے کہا کہ رنگ روڈ کے ساتھ ریجنل ٹاؤن پلاننگ، مری روڈ سمیت راولپنڈی شہر و چھاؤنی میں 4 انڈر پاس، اندرون شہر و کینٹ میں پارکنگ پلازے، نئی بس سروس، لئی ایکسپریس وے اور روات کے پاس ڈیموں کی تعمیر کی جائے گی۔

راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ کے لئے زمین کی نشاندہی کے لئے 40 کلومیٹر ٹریک کا سروے مکمل ہو چکا جبکہ 31 کلومیٹر ٹریک کا قبضہ کلیئر کر کے بتیاں لگائی جا چکی ہیں۔ رنگ روڈ سٹارٹنگ پوائنٹ پر ریڈیو پاکستان انٹرچینج کے متبادل ڈیزائن پر بھی کام ہو رہا ہے تاکہ روات کے قریب ریڈیو پاکستان کے ٹاورز کو کسی دوسری جگہ منتقل نہ کرنا پڑے کیونکہ ٹاورز کی منتقلی کی لاگت ایک ارب روپے تک ہو گی۔ اس وقت کے کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر) محمد محمود کا یہ کہنا تھا کہ رنگ روڈ منصوبہ کا اہم حصہ اکنامک زونز ہیں جہاں شہر کے گنجان علاقوں میں موجود انڈسٹری کو منتقل کیا جائے گا۔

رنگ روڈ کی لمبائی 64 کلومیٹر سے بڑھ کر 65 کلومیٹر طویل ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ حتمی پلان ہے۔ پلان کے مطابق اس منصوبے میں 10 نئے تجارتی اور رہائشی زونز کو شامل کیا گیا ہے۔ جدید سہولیات سے آراستہ ایک ڈرائی پورٹ، پبلک ٹرانسپورٹ ٹرمینلز اور ایک بین الاقوامی ایکسپو سینٹر کو بھی منصوبے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ جدید سہولیات سے لیس ایک ہسپتال، پھلوں اور سبزیوں کی مارکیٹس بھی منصوبے کا حصہ ہیں۔

پھر راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی اے ) کے چیئرمین طارق مرتضیٰ بتاتے ہیں رنگ روڈ 65 اعشاریہ 8 کلومیٹر طویل اور 6 رویہ ہوگا اور یہ پلان حتمی ہے۔مرکزی سڑک کے ساتھ ملحقہ سڑکیں بھی تعمیر کی جائیں گی جبکہ اس پر ڈیڑھ لاکھ پودے بھی لگائے جائے گے اور راہداری کو سگنل فری بنایا جائے گا۔ آٹھ مختلف مقامات پر انٹرچینجز بنائے جائیں گے جبکہ چار انٹرچینجز کے ہمراہ رہائشی زونز کی تعمیر ہوگی۔ منصوبے میں ایک اسپتال شامل ہے جو چک بیلی انٹرچینج کے قریب بنایا جائے گا، جبکہ چکری اور مورات کے انٹرچینج کے مابین ایک تفریحی پارک بھی تعمیر کیا جائے گا۔ پھر انکشاف ہوتا ہے کہ رنگ روڈ کی لمبائی 85 کلومیٹر ہے اور یہ حتمی پلان ہے۔

اس پلان میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ کچھ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو فائدہ دینے کے لیے حدبندی تبدیل کر دی گئی ہے۔ جس پر وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا ہے کہ کن وجوہات اور کس کے کہنے پر اصل منصوبہ تبدیل کیا گیا، اور بتایا جائے کہ منصوبے میں تبدیلی سے کس کس کو فائدہ پہنچا، ماسٹر پلان میں غیر قانونی تبدیلی میں ملوث اہلکاروں اور ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔

جس حد بندی کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے ، اس کی منظوری 19 فروری 2021 کو وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر اقتصادی امور ڈاکٹر سلمان شاہ کی زیر صدارت پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ بورڈ کی پراجیکٹ ریویو کمیٹی نے دی تھی۔ جس میں مختلف محکموں کے 25 کے قریب اعلیٰ افسران شامل تھے۔ حد بندی کو ایشو بنا کر سابق پراجیکٹ ڈائریکٹر کمشنر راولپنڈی ڈویژن کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود کو ہٹایا گیا اور منصوبہ کو فاسٹ ٹریک سے ہٹا کر دوبارہ سرد خانے کی نذر کر دیا گیا ہے۔

منصوبے کے ٹرانزیکشنل ایڈوائزر (نیسپاک، کے پی ایم جی اور قاکسز لاء کے جوائنٹ وینچر ) نے 19 فروری کی میٹنگ میں بریفنگ دی اور بتایا تھا کہ 66 اعشاریہ 3 کلو میٹر لمبے رنگ روڈ منصوبہ کو ریڈیو پاکستان سے شروع کر کے ہکلہ انٹرچینج 6 رویہ بنایا جائے گا۔ اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ریڈیو پاکستان تا ہکلہ انٹرچینج والا حصہ خاص طور پر پرائیویٹ سیکٹر کے سرمایہ کاروں کے لئے پرکشش ہو گا اور پرائیویٹ سیکٹر ہکلہ انٹرچینج تا ایم ون انٹرچینج کی چار لائن کو آٹھ لائن کرے گا جو اپنی سرمایہ کاری ٹول ٹیکس کے ذریعے حاصل کرے گا جبکہ سنگجانی انٹرچینج تک کا ریونیو این ایچ اے کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔

یہ بات بھی واضح کی گئی تھی کہ منصوبہ کے نو انٹرچینجز میں سے چار منصوبہ میں شامل کیے گئے ہیں جبکہ باقی کے پانچ انٹرچیجز منصوبہ کے ساتھ موجود ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے بنوائے جائیں گے تاکہ منصوبہ کی لاگت میں کمی لائی جا سکے۔ کمیٹی نے منصوبہ کی لاگت 40 ارب 61 کروڑ 83 لاکھ 87 ہزار 35 روپے منظور کی تھی اورمنصوبہ دو سال میں مکمل ہونا تھا۔

میٹنگ کے منٹس 27 فروری کو جاری ہوئے تھے لیکن بعد میں منصوبہ کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے ۔پراجیکٹ ڈائریکٹر کو ہٹا دیا گیا۔ ڈپٹی پراجیکٹ ڈائریکٹر نے استعفی دے دیا اور منصوبہ کی بڈنگ منسوخ کر دی گئی ہے۔ منصوبے کو سرد خانے میں ڈالنے کی وجوہات میں کئی عوامل کارفرما ہیں۔

ہٹائے گئے کمشنر کیپٹن (ر) محمد محمود کی کاوش سے منصوبہ سی پیک عاصم باجوہ والے میں شامل ہو چکا تھا۔ وزیر اعلیٰ سمیت سیاسی جنتا کا عمل دخل ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ لاہور پر توجہ دینے کے حامی ہیں۔ شیرانوالہ بائی پاس اور گلاب دیوی انڈر پاس کی تعمیر اہم ترین ہے۔ اہم ترین وجہ رنگ روڈ کا میگا پراجیکٹ حکومت کے ہاتھوں سے نکل کر ریاستی اداروں کی صوابدید میں جا رہا تھا۔ جس کے باعث حکومتی نمائندوں کے لئے رنگ روڈ میں دلچسپی نہیں تھی۔ اس لئے اس گیم چینجرز منصوبے کو گیم پلان میں بدلا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments