مجلس ترقی ادب: منصور آفاق کا اصل مسئلہ کیا ہے؟


مجلس ترقی ادب میں نئی تقرری کا معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ ادبی اور صحافتی حلقوں کی طرف سے تاحال تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ راقم نے بھی گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ سنجیدہ لکھاریوں کو اس معاملے سے قطعاً کوئی دل چسپی نہیں کہ مجلس کا ناظم کون بن گیا اور کسے بننا چاہیے تھا بلکہ دکھ کی بات یہ ہے کہ سابق ناظم کو جس بھونڈے اندازمیں عہدے سے ہٹایا گیا اور جس طرح منصور آفاق کی طرف سے سابق ناظم ڈاکٹر تحسین فراقی پر بہتان لگائے جا رہے ہیں ’یہ امر قابل افسوس اور قابل احتجاج ہے۔

منصور آفاق کے گزشتہ کالم میں لگائے جانے والے الزامات کا تفصیلی جواب (ڈاکٹر تحسین فراقی کے خط کی صورت میں ) محترم حسن نثار نے اپنے گزشتہ کالم میں دے دیا۔ محترم عطاء الحق قاسمی نے بھی اپنے کالم میں راقم کی بات کی تصدیق کی کہ ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساتھ جو ہوا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ یہ ادارہ اور یہ سیٹ اگر سیاسی بن گئی تو مستقبل میں اس عظیم ادارے کا نام ”مجلس ترقی ادب“ کی بجائے ”مجلس ترقی حکومت“ رکھنا پڑے گا۔ مزید یہ کہ مجلس کی سیٹ کو اگر سیاسی بنانا اور من پسند صحافیوں کو نوازنا ہی تھا تو طریقۂ واردات بدلا جا سکتا تھا، اس بھونڈی حرکت کا ذمہ دار کوئی بھی ہو، ناقابل معافی ہے۔

منصور آفاق کے کالم کے بعد راقم نے استاد مکرم ڈاکٹر تحسین فراقی سے اس معاملے کی تصدیق کرنے کے لیے تفصیلی رابطہ کیا۔ نئے ناظم نے اپنے کالم میں یوں تو کئی بلنڈر مارے مگر یہ کہنا کہ مجلس میں کئی ایسے لوگ کام کر رہے تھے ، جو کبھی دفتر نہیں آئے مگر تنخواہیں کھا رہے تھے ، یہ تشویش ناک ہے۔ بقول ڈاکٹر تحسین فراقی کہ اس شخص کا نام احمد رضا ہے اور وہ امتیاز علی تاج کے دور سے مجلس کے ساتھ بطور مدون کے کام کر رہا ہے۔ شہزاد احمد کے زمانے میں اس کا کنٹریکٹ ری نیو نہ ہو سکا۔

ہم نے اپنے دور میں جب محسوس کیا کہ ہمیں ایک مدون کی ضرورت ہے جو منجھا ہوا بھی ہو اور تحقیق و تدوین کے کام سے گہری واقفیت رکھتا ہو تو احمد رضا کا نام ذہن میں آیا۔ مختصر یہ کہ اسے واپس لایا گیا ، اس شخص کو ابھی ڈیوٹی جوائن کیے ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا جس سے اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اس نے استعفیٰ بھجوا دیا، انسانی ہمدردی اور مجلس سے پرانی وابستگی ہونے کی وجہ سے ہم نے اسے کہا کہ تدوین کا کام گھر پر بھی ہو سکتا ہے ، آپ چونکہ ہمارے پرانے دوست ہیں لہٰذا جب تک آپ صحت یاب نہیں ہوتے، کام آپ کے گھر بھجوا دیں گے ، آپ کام جاری رکھیں۔

یوں اس شخص کا استعفیٰ واپس کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ کوئی ایک بندہ بھی ایسا نہیں جو دفتر نہ آتا ہو اور اسے تنخواہ دی جا رہی ہو۔ دوسرا الزام لگایا گیا کہ مجلس بھوت بنگلہ تھا اور صفائی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ یہ بات بھی ماننے میں نہیں آتی کیونکہ فراقی صاحب صفائی کی نگرانی تک خود کیا کرتے تھے۔ کالم میں یہ بھی کہا گیا کہ مجلس کی لائبریری عرصہ دراز سے بند پڑی ہے، یہ بھی سفید جھوٹ ہے کیونکہ راقم درجنوں بار مجلس کے دفتر گیا ، مجلس کی لائبریری سے استفادہ کیا۔

اورینٹل کالج اور گورنمنٹ کالج سے سینکڑوں ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالرز مجلس کی لائبریری جاتے تھے، لائبریری میں موجود کلاسیکی ادب سے مستفید ہوتے تھے۔ کالم میں موصوف نے یہ بھی کہا کہ کتب خانے میں موجود درجنوں قلمی نسخے چوہے کھا گئے ، حالانکہ وہاں کوئی قلمی نسخہ ایسا نہیں ہے جو شائع نہ کیا گیا ہو یا جس کے شائع کرنے کے انتظامات نہ کیے گئے ہوں۔ نو منتخب سیاسی ناظم نے یہاں تک کہا کہ مجلس نے ادب عالیہ کے تراجم نہیں کیے، اب خدا جانے ان کے نزدیک ادب عالیہ کسے کہتے ہیں مگر مجلس کے مقاصد میں معیاری تراجم کا کہا گیا ، ادب عالیہ کا ذکر نہیں ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ کلاسیکی کتب کے دیباچے سینکڑوں صفحات پر ہیں، یہ بھی جھوٹ ہے۔

محبان منصور آفاق کی طرف سے یہاں تک کہا گیا کہ مجلس کی زیر اہتمام شائع ہونے والا تحقیقی مجلہ بھی اپنی انفرادیت اور اہمیت گنوا چکا ، اس میں چونکہ شاعروں کو جگہ نہیں دی گئی لہٰذا مجلس کے سابقہ رسالے کسی کام کے نہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب مقصدر مجلس کی نظامت تھا، وہ تو مل گئی۔ اب سابقہ ناظمین جو ادبی قد کاٹھ میں منصور آفاق سے ہزار درجے بلند مرتبے پر فائز ہیں ، ان پر الزام لگانا،  ان کے کام کو فضول اور بے مقصد کہنا کہاں کی ناانصافی ہے۔

منصور آفاق اساتذہ کو نااہل اور بے کار ثابت کر کے وہ حکومت کو کیا جتانا چاہتے ہیں؟ یا تو موصوف، بزدار حکومت سے کسی اور بڑی تقرری کے خواہش مند ہیں یا پھر وہ جھوٹ بول کر اپنے تقرری کو سو فیصد درست ثابت کرنا چاہتے ہیں، اس کے علاوہ مجھے اور کچھ نہیں سمجھ آتا۔ میں اب بھی ان ادیبوں اور دانش وروں کی خاموشی پر حیران ہوں جو فراقی صاحب کے زمانے بھی ان کے دفتر کے چکر کاٹتے تھے اور اب منصور آفاق کے زمانے میں محض اس لیے خاموش ہیں کہ کہیں مجلے سے ہماری غزل نہ نکال دی جائے یا مجلس کی کسی کانفرنس یا سیمینار میں ہم باہر نہ ہو جائیں۔

میرے گزشتہ کالم کے بعد کہا گیا کہ چونکہ میں فراقی صاحب کا شاگرد ہوں ، لہٰذا شاگردی کی وجہ سے کالم لکھا۔ میں یہاں واضح کر دوں کہ میں نے فراقی صاحب سے کلاس روم میں بیٹھ کر ایک دن بھی نہیں پڑھا (جس کا افسوس ہے ) ۔ مگر ان کی کتب، تحقیقی مقالہ جات اور کانفرنسوں میں دیے گئے خطبوں سے بہت کچھ سیکھا ، لہٰذا میں ان کا (باقاعدہ نہ سہی) شاگرد ہونے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ میں ابھی بھی کئی ایسے ناقدین اور دانش وروں کے احتجاجی مضامین اور کالموں کا انتظار کر رہا ہوں جنہیں اس ناانصافی اور ظلم پر آواز اٹھانی چاہیے تھی مگر نہیں اٹھائی گئی۔

کم از کم پاکستان کے نامور ادیبوں اور لکھاریوں کو احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے، یہ احتجاج اس لیے نہیں کہ ہمیں کوئی منصور آفاق سے دشمنی ہے بلکہ اس لیے کہ جس بھونڈے طریقے سے ایک استاد اور محقق کو بے عزت کر کے عہدے سے ہٹایا گیا اور اب ان پر مسلسل بہتان لگائے جا رہے ہیں‘ یہ قابل افسوس اور ناقابل برداشت ہے ، یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔ پاکستان بھر کی جامعات سے شعبہ اردو کے صدور اور ادبی اداروں کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ حکومت کو خط لکھیں اور معاملے کی سنگینی سے آگاہ کریں۔

کیونکہ اگر فراقی صاحب کے حق میں صدائے احتجاج بلند نہ کی گئی تو یاد رکھیے گا ، ایک دن آئے گا جب اکادمی ادبیات پاکستان، اردو سائنس بورڈ ، ادارۂ فروغ زبان اردو، نیشنل بک فاؤنڈیشن سمیت دیگر ادبی اداروں کے سربراہان بھی صحافی ، کالم نویس اور حکومتی چاپلوس ہوں گے۔ خدارا اس دن سے ڈریں اور حکومت کو کم از کم ایک خط لکھ کر معاملے کی سنگینی سے آگاہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments