بی جے پی کی بنگال میں شکست: بے جے پی کے ’چانکیہ‘ کی چالیں بھی کام نہ آئیں

زبیر احمد - بی بی سی نیوز، دہلی


مغربی بنگال میں بڑے انتخابی دھچکے کے بعد اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے شاطر سیاستدان کہے جانے والے ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ مغربی بنگال میں اپنی شکست کا ماتم منا رہے ہوں گے یا پھر ریاست آسام میں اقتدار میں واپسی کی امید پر اطمینان کا سانس لے رہے ہوں گے۔

ممتا بینرجی کے کیمپ میں فتح کا جشن منایا جا رہا ہے۔ ریاست کیرالا میں ایل ڈی ایف اور تامل ناڈو میں ڈی ایم کے اتحادی کارکن بھی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔

اس بار بنگال اور دیگر ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کووڈ 19 وبا کی دوسری لہر کے سائے میں ہوئے ہیں۔

کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ بنگال میں آٹھ مرحلوں میں انتخابات کرانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا لیکن ایسا ہوا نہیں۔

بنگال میں جس طرح بی جے پی نے انتخابی مہم چلائی تھی اور اپنے حامیوں میں یہ توقع پیدا کی تھی کہ فتح ان کی ہوگی اسی تناظر میں دیکھیں تو پارٹی کے اعلی قائدین کے گھروں میں مایوسی چھائی ہوئی ہوگی۔

دوسری جانب ممتا بینرجی کی پارٹی کے نقطہ نظر سے دیکھیں کہ سنہ 2016 کے اسمبلی انتخابات میں صرف تین نشستیں جیتنے کے بعد اس بار اتنی بڑی تعداد میں نشستوں میں اضافہ پارٹی کے لیے باعث فخر ہوگا۔

ملک کے الیکشن کمیشن کے مطابق ممتا بینرجی کی پارٹی آل انڈیا ترنمول کانگریس کو 292 میں سے 210 نشستوں پر کامیابی ملی ہے جبکہ تین پر وہ آگے ہے دوسری جانب بی جے پی نے 76 سیٹیں جیتی ہیں اور ایک پر وہ آگے ہے۔

ممتا بینرجی ایک قومی رہنما کے طور پر ابھری ہیں

بنگال کے نتائج نے وزیر اعلیٰ کی ایک ‘فائٹر’ کی شبیہہ کو تقویت بخشی ہے۔ ان کے سامنے ان کے سیاسی کیریئر کا سب سے بڑا چیلنج تھا اور وہ اس پر پورا اتریں۔

یہ بھی پڑھیے

ممتا بینرجی کی واحد ’غیر متوقع‘ شکست اور بی جے پی کی انا کی جنگ

ممتا بینرجی بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھاری شکست دینے میں کامیاب

ان کے کچھ ساتھی انہیں چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوگئے لیکن ان کے ووٹروں نے انھیں نہیں چھوڑا۔ ان کی آل انڈیا ترنمول کانگریس کو 2011 اور 2016 کے اسمبلی انتخابات میں 44 فیصد ووٹ ملے تھے۔

یہاں تک کہ جب انہیں 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی کی طرف سے دھچکا لگا تھا اور لوک سبھا میں ان کی نشستیں کم ہوگئی تھیں تب بھی پارٹی کے ووٹوں کی فیصد کم نہیں ہوئی تھی۔

اس الیکشن کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے حامیوں اور ووٹروں نے ان پر اپنا اعتماد برقرار رکھا ہے۔

اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو اور مایاوتی اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال سمیت متعدد افراد نے انہیں مبارکباد کے پیغام بھیجے ہیں۔

مودی کے نعرے ‘دیدی اے دیدی’ بمقابلہ ممتا کے پاؤں کا پلاسٹر

وزیر اعظم مودی نے ان گنت جلسوں میں ممتا بینرجی پر طنز کیا تھا۔ مودی نے ‘دیدی او دیدی … بنگال کے عوام نے آپ پر کتنا بھروسہ کیا تھا’ جیسے جملے مزے لے لے کر کہے۔

شاید ووٹرز کو یہ پسند نہیں آیا۔ اس پر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے وزیر اعظم پر خواتین کی توہین کرنے کا الزام لگایا۔

دوسری طرف ان کے حلقے نندی گرام میں ایک چھوٹے سے واقعے کے دوران ممتا بینرجی کی ٹانگ میں چوٹ آئی جس کے بعد کئی دن تک ان کی ٹانگ پر پلاسٹر رہا اور انہوں نے وہیل چیئر پر انتخابی مہم چلائی۔

بی جے پی نے اسے ‘ممتا کا ڈھونگ’ قرار دیا اور اسے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کا سستا طریقہ کہا۔ اس وقت بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی ماہر رنجن مکھوپادھیائے نے بی بی سی سے کہا تھا ‘دیدی نے الیکشن جیت لیا۔ یہ امیج انہیں یقیناً الیکشن جتوائے گی’۔

چانکیہ چال بھیں کام نہ آئی

امت شاہ نے انتخابی جلسوں میں ڈنکے کی چوٹ پر دعویٰ کیا تھا کہ ان کی پارٹی کی 200 نشستوں کا ہدف پورا ہوگا۔ اپنے حامی ٹی وی چینلز پر سوال کرنے کے بجائے انہوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ پارٹی اس مقصد کو کیسے حاصل کرے گی۔

لیکن اب امت شاہ کا یہ دعویٰ جنہیں ’چانکیہ‘ کہا جاتا ہے، محض’انتخابی جملہ’ ہی ثابت ہوا۔ چانکیہ ایک تاریخی کردار ہے جو اپنی شاطر سیاسی پالیسیاں کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔

بی جے پی ہر حال میں مغربی بنگال کو جیتنا چاہتی تھی۔ پارٹی نے دسمبر کے مہینے سے ہی انتخابی مہم میں اپنے وسائل کا استعمال شروع کر دیا تھا۔

پارٹی صدر جے پی نڈا اور وزیر داخلہ امت شاہ نے روڈ شو کا آغاز کیا۔ ابتدائی دنوں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کا بنگال کا دورہ بھی اہم سمجھا گیا تھا۔

جیسے جیسے انتخابات کے دن قریب آنے لگے وزیر اعظم مودی اور امت شاہ نے درجنوں جلسے کیے۔ ان پر ہجوم ریلیوں کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔

مرکزی حکومت کی کابینہ میں ہر اہم وزیر، ہر رکن پارلیمنٹ نے بنگال کا سفر کرنا شروع کیا۔ اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی ریاست بھر میں متعدد جلسوں سے خطاب کیا۔

شوویندو ادھیکاری اور بہت سے دوسرے رہنماوں کا ممتا کی پارٹی ٹی ایم سی چھوڑنا اور بی جے پی میں شامل ہونا بی جے پی کی انتخابی مہم کے لیے بہت اہم سمجھا گیا تھا۔ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ ٹی ایم سی بکھرنے کے دہانے پر ہے۔

مہاراشٹر میں پچھلے اسمبلی انتخابات سے قبل نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے بہت سے رہنما بھی بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ اس وقت بھی یہ کہا جارہا تھا کہ این سی پی کو ختم کردیا جائے گا۔ لیکن انتخابی نتائج کے بعد این سی پی ایک مضبوط پارٹی کے طور پر ابھری تھی۔

اسی طرح بنگال میں حالیہ انتخابات نے یہ ثابت کردیا کہ جوڑ توڑ کی سیاست کام نہیں آئی۔

کولکتہ میں سیاسی تجزیہ کار اروندھتی بینرجی کے مطابق ٹی ایم سی سے ‘بغاوت’ کرنے والوں کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔

ریاست کے لوگوں نے ہندو مسلم نظریہ کو مسترد کر دیا

اروندھتی بینرجی نے کہا کہ بنگال میں انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ پولرائزیشن اور اسدالدین اویسی کے انتخابی میدان میں کودنے سے ممتا بینرجی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

ان کی پارٹی کے سابق لیڈر شوویندو ادھیکاری جنہوں نے نندی گرام میں ممتا بنرجی کو ‘بیگم’ کہہ کر انہیں ایک مسلم نواز اور واحد مسلم لیڈر کہنے کی کوشش کی اور پاکستان کا نام بھی لیا۔

اروندھتی کہتی ہیں ‘جب ہم نندی گرام گئے تو اس وقت یہ محسوس ہوا کہ پورا انتخابی حلقہ ہندو مسلم خیموں میں منقسم ہے۔ معاشرے میں تقسیم ضرور ہوئی خاص طور پر نندی گرام اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں لیکن ریاست کے لوگوں نے ہندو مسلم نظریہ کو مسترد کر دیا۔

کانگریس مسلسل زوال کا شکار

بنگال میں کانگریس پارٹی اور بائیں محاذ نے الیکشن لڑا۔ لیکن پچھلے دو انتخابات کے مقابلے میں کانگریس کی صورتحال بدتر ہوئی ہے۔

کیرالہ میں یو ڈی ایف کی قیادت کرنے والی کانگریس کے لیے اقتدار میں آنا ضروری سمجھا جا رہا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران کانگریس کے کچھ رہنماؤں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ‘ان کی جیت پختہ ہے کیونکہ حکمران ایل ڈی ایف کو بدعنوانی کے بہت سے سنگین الزامات کا سامنا ہے’۔

لیکن اس وقت بہت سے ماہرین نے واضح طور پر ایل ڈی ایف کی فتح کی پیش گوئی کی تھی اور کہا تھا کہ اگر کانگریس ہار گئی تو ریاست میں پارٹی کے بہت سے رہنما دوسری پارٹیوں میں چلے جائیں گے۔ اب کانگریس ریاست میں 10 سال سے اقتدار سے دور ہے جس کی وجہ سے پارٹی میں بےچینی اور بے اطمینان بڑھ جائے گا۔

کانگریس کے لیے یہ شکست اس لیے بھی بھاری ہوگی کیونکہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اس اتحاد نے کیرالہ کی 20 میں سے 19 نشستیں حاصل کی تھیں۔ پارٹی نے تمل ناڈو میں ڈی ایم کے سے معاہدہ کر کے اس ریاست میں اقتدار میں آنے کا راستہ ضرور کھولا ہے لیکن صرف ایک جونیئر پارٹنر کی حیثیت سے۔ پونڈی چیری میں بھی پارٹی کو دھچکا لگا ہے اور اقتدار میں آنے کا اس کا خواب ادھورا رہ گیا۔ ادھر آسام میں بھی اسے پانچ سال تک ایک بار پھر حزب اختلاف میں بیٹھنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp