وزیرِ اعظم سے قبل آرمی چیف کا دورہٴ سعودی عرب، مقاصد کیا ہیں؟


پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریاض میں سعودی چیف آف جنرل اسٹاف جنرل فیاض بن حمد الروئیلی سے ملاقات کی جس میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعاون بڑھانے اور خطہ میں امن کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان جمعے کو سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ جب کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔

اس دورے میں سیکیورٹی سمیت خطے کی صورتِ حال بالخصوص ایران اور سعودی عرب کے بہتر تعلقات پر بھی تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران اور سعودی تعلقات کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ گزشتہ روز سعودی عرب پہنچے ہیں۔ آرمی چیف کے ریاض پہنچنے پر پاکستان کے سعودی عرب میں سفیر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ بلال اکبر نے پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کے ہمراہ ان کا استقبال کیا۔

پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریاض میں سعودی چیف آف جنرل اسٹاف جنرل فیاض بن حمد الروئیلی سے ملاقات کی جس میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعاون بڑھانے اور خطہ میں امن کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

’پاکستان نے کبھی او آئی سی کے متبادل کسی فورم کی حمایت نہیں کی‘

دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان کے جمعے سے شروع ہونے والے دورے کے بارے میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کا ویژن اور سوچ واضح ہے کہ امداد اور قرض کے بجائے تجارت، معیشت، اقتصادیات، سیاحت و ثقافت اور دینی امور میں تعاون کو بڑھایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم پاکستان کے دورہٴ سعودی عرب کے دوران انتہا پسندی، دہشت گردی، فرقہ وارانہ تشدد، اسلامو فوبیا اور توہین مذہب جیسے مسائل کے بارے میں گفتگو کی جائے گی۔

حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کو اس دورے کی دعوت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دی تھی۔ وزیرِ اعظم دورے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے علاوہ اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل، آئمہ حرمین الشریفین، سعودی عرب کی مذہبی و سیاسی قیادت سے بھی ملاقات کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی تعاون تنظیم امتِ مسلمہ کا متفقہ فورم ہے۔ سعودی عرب کے پاس اس وقت اس کی قیادت ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کو مزید مضبوط اور مؤثر بنانے کے لیے ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان نے کبھی بھی اسلامی تعاون تنظیم کے متبادل کسی بھی فورم کی تشکیل کی حمایت نہیں کی ہے ۔

خیال رہے کہ وزیرِ اعظم کے اس دورے کے دوران پاکستان سعودی عرب سپریم کو آرڈینیشن کونسل، گرین پاکستان گرین سعودی عرب گرین مڈل ایسٹ اور مختلف دیگر معاہدوں پر دستخط ہوں گے۔

’کیا پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت پر اہم کردار ادا کرسکتا؟‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ البتہ پاکستان کو اب مشکل معاشی حالات سے نمٹنے کے لیے دوستوں پر انحصار کم کرنا ہوگا۔

سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ حالیہ دورے میں خطے کی صورتِ حال میں پاکستان ایک اہم ملک ہے۔ پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت پر اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

ان کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا اس دورے سے قبل جانا بہت سے سیکیورٹی معاملات پر بات چیت کے لیے اہم ہے۔

شمشاد احمد خان نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات تو ہیں لیکن ہم بار بار اپنے دوستوں کو معاشی مشکلات کے بارے میں نہیں کہہ سکتے۔ اب پاکستان کو اس سے باہر نکلنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان کسی کا بھی دورہ ہو وہ خطے کے لیے ہمیشہ بہت بہتر ثابت ہوتا آیا ہے۔ اس دورے کے بھی بہتر نتائج نکلیں گے۔ خطے میں اس وقت جو حالات ہیں ان میں پاکستان کے وزیرِ اعظم کا سعودی عرب جانا بہت اہم ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان عمران خان کی حکومت کے آغاز میں گرم جوشی اور بعد میں تناؤ نظر آیا۔ وزیرِ اعظم اور آرمی چیف کا یہ ایک سال کے بعد سعودی عرب کا دورہ ہے۔

قبل ازیں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ترکی اور ملائیشیا کے درمیان تعاون کے فروغ پر کام شروع کیا تھا اور اس مقصد کے لیے تینوں ممالک مل کر ایک نیا ٹی وی نیٹ ورک بھی قائم کرنا چاہتے تھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ استنبول کانفرنس بھی ہم خیال ممالک کے درمیان تعاون کے فروغ کے لیے تھی۔ لیکن بعد میں سعودی حکومت کے دباؤ پر پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی۔ اور پاکستان و سعودی عرب کے درمیان تناؤ دیکھنے میں آیا۔

مبصرین کے مطابق سعودی عرب استنبول کانفرنس کو او آئی سی کے متبادل کے طور پر دیکھ رہا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments