مغربی بنگال میں شکست، کیا نریندر مودی کی حکومت مقبولیت کھو رہی ہے؟


وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ داخلہ امیت شاہ (فائل فوٹو)

بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں انتخابی شکست کے بعد وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے الزام عائد کیا ہے کہ انتخاب جیتنے والی وزیرِ اعلیٰ ممتا بنر جی کی جماعت ترنمول کانگریس(ٹی ایم سی) نے اس کے کارکنان پر حملے کیے ہیں جس کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔

بھارتی اخبار ‘ٹائمز آف انڈیا’ کے مطابق مغربی بنگال میں انتخابات کے بعد ہونے والے مبینہ پرتشدد واقعات میں مبینہ طور پر 11 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اور بھارت کی مرکزی وزارتِ داخلہ نے صورتِ حال کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔

مبینہ پرتشدد واقعات میں بی جے پی نے اپنے چھ کارکن ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بی جے پی کی جانب سے کارکنان کو تشدد کا نشانہ بنانے کی مبینہ ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہیں۔

ترنمول کانگریس کا کہنا ہے کہ انتخاب کے بعد ہونے والے میبنہ پُرتشدد واقعات میں اس کے چار کارکن ہلاک ہوئے ہیں۔ ترنمول کانگریس کی سربراہ اور وزیر اعلیٰ بنگال ممتا بنر جی نے امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل بھی کی ہے۔

اس کے علاوو حال ہی میں قائم ہونے والے انڈین سیکیولر فرنٹ نے ایک کارکن کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔

بی جے پی نے ان مبینہ پرتشدد واقعات کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے پانچ مئی کو پورے ملک میں دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کارکنان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مغربی بنگال کے دو روزہ دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔

پارٹی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کیے گئے ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی بنگال میں ٹی ایم سی کے ورکرز کے تشدد کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ملکی سطح پر دھرنا دیا جائے گا۔ دھرنے میں کرونا وائرس سے متعلق احتیاطی تدابیر کا خیال رکھا جائے گا۔

دوسری جانب مغربی بنگال کے گورنر جگدیپ دھنکر نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے انہیں فون کر کے بنگال میں امن و امان کی صورتِ حال سے متعلق تشویش سے آگاہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں بھی وزیر اعظم کی اس تشویش میں شریک ہوں کہ تشدد، توڑ پھوڑ، حملے اور قتل و غارت بلا روک ٹوک جاری ہیں۔ متعلقہ اداروں کو نفاذ قانون کی بحالی کے لیے لازمی اقدامات کرنے چاہیے۔

گورنر نے اپنے ٹوئٹ میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ اور حال ہی میں ریاستی انتخابات جیتنے والی جماعت ٹی ایم سی کی سربراہ ممتا بنر جی کو بھی ٹیگ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ‘اے این آئی’ کے مطابق اپنے ایک بیان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج کے اعلان کے 24 گھنٹوں کے اندر اس کے کئی کارکنان کو قتل کیا جاچکا ہے۔ پارٹی ورکروں کے گھر اور دکانیں جلائی گئی ہیں۔

‘اے این آئی’ کے مطابق بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے الزام عائد کیا ہے کہ بنگال میں جو بھی تشدد، مار دھاڑ اور ریپ ہو رہے ہیں ان سب کو ‘ریاستی سرپرستی’ حاصل ہے۔

خیال رہے کہ مغربی بنگال کے ریاستی انتخاب میں ممتابنر جی کی ترنمول کانگریس نے 294 میں سے 213 نشستیں حاصل کی ہیں جب کہ بی جے پی 77 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکی ہے۔

مغربی بنگال کا الیکشن اہم کیوں؟

بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں مغربی بنگال کے الیکشن کو سب سے زیادہ اہمیت دی جارہی تھی۔ مغربی بنگال میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے سمیت مرکزی قیادت نے انتخابی مہم چلائی۔

بی جے پی کے ساتھ ساتھ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کے کارکن بھی ممتا بنر جی کی جماعت کو شکست دینے کے لیے میدان میں تھے۔

ممتا بنر جی کو اپنی نشست پر تو شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان کی جماعت ریاست میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

‘بی جے پی کا مقابلہ ممکن ہے’

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق بھارت میں اپوزیشن کی جماعتیں اور سیاسی مبصرین مغربی بنگال کے انتخابی نتائج کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔

ان کے نزدیک مغربی بنگال کے انتخابی نتائج اس بات کا اشارہ ہیں کہ نریندر مودی اور ان کی جماعت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا مقابلہ ابھی ممکن ہے۔

‘رائٹرز’ کے مطابق ملک میں کرونا وائرس کی صورتِ حال پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے نریندر مودی اور ان کی جماعت کو بنگال میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

وزیر اعظم نریندرمودی نے مغربی بنگال میں بڑی انتخابی ریلیوں سے خطاب کیا۔ جب کہ دوسری جانب ممتا انتخابی مہم کے دوران زخمی ہونے کی وجہ سے وہیل چیئر پر اپنی انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔

‘دی پرنٹ’ پر شائع ہونے والی تحریر میں کالم نگار شوبھا دی نے لکھا کہ آج جو بنگال نے کیا ہے کل پورا بھارت کرے گا۔

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ داخلہ اُمت شاہ
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ داخلہ اُمت شاہ

ممتا بنر جی کے سیاسی مشیر اور انتخابی مہم کی منصوبہ بندی کی وجہ سے شہرت پانے والے پرشانت کشور کا کہنا تھا ’’انتخابی نتائج نے ان لوگوں کو آواز اور امید دی ہے جو اس خطرے سے لڑنا چاہتے ہیں جسے بی جے پی کہتے ہیں۔‘‘

سیاست پرمودی کی مضبوط گرفت

سن ​ 2014 میں انتخابات جیتنے کے بعد نریندر مودی کی بھارتی سیاست پر گرفت مسلسل مضبوط ہو رہی ہے۔ 2019 میں ان کی جماعت نے قومی انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی تھی۔

رائٹرز کے مطابق کانگریس سمیت سیاسی جماعتیں بی جے پی کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی تھیں اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ مودی 2024 کے عام انتخابات بھی جیت جائیں گے۔ تاہم کرونا وائرس کے بعد پیش آنے والی صورتِ حال میں اسپتال کے بستروں، دواؤں اور آکسیجن کی کمی کے باعث ہونے والی اموات کے مناظر نے عوامی موڈ تبدیل کر دیا ہے۔

رائے عامہ کا جائزہ لینے والے ایک ادارے ​YouGov کے مطابق فروری میں کرونا کی دوسری لہر شروع ہونے کے بعد شہروں میں بسنے والے بھارتیوں کے وبا کو قابو کرنے کے حوالے سے حکومت پر اعتماد میں کمی آئی ہے۔

اپریل 2020 تک 89 فی صد شہریوں کا خیال تھا کہ حکومت نے ’بہت‘ یا ’کسی حد تک‘ اچھے انداز میں کرونا کی صورتِ حال کو سنبھالا ہے۔ تاہم اپریل 2021 یہ رائے رکھنے والے افراد کی تعداد 59فی صد ہو چکی ہے۔

خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے سیاسی مبصر نیرج چودھری کا کہنا تھا کہ لوگ آسانی سے اسپتال میں بستروں، آکسیجن اور ویکسین کی قلت بھولیں گے نہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگ یہ بھی نہیں بھولیں گے کہ جب ملک میں زندگی اور موت کی اصل کشمکش جاری تھی تو کس طرح بے جے پی کی قیادت نے بنگال میں جیت اور ہار کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا تھا۔

‘بی جے پی ہار کر بھی بنگال میں پیچھے نہیں’

بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ الیکشن ہارنے کے باوجود بی جے پی نے مغربی بنگال کے انتخابات میں کچھ حاصل بھی کیا ہے۔

’ٹائمز آف انڈیا‘ میں کمار شکتی شیکھر نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ 2019کے لوک سبھا کے الیکشن میں بی جے پی نے بنگال کی 42میں سے 18نشستیں حاصل کی تھیں اور اسے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں کے 40فی صد سے ووٹ ملے تھے۔

موجودہ ریاستی انتخابات میں بھی جے پی نے ریاستی اسمبلی (ودھان سبھا) کی 77 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے اور اسے پڑنے والے ووٹوں میں لگ بھگ دو فی صد کمی آئی ہے لیکن اس کے باجود بی جی پی اس انتخابات میں بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

اعداد وشمار کے مطابق 2011میں بی جے پی کو بنگال سے کوئی نشست حاصل نہیں ہوئی تھی اور اسے کل ووٹوں کا صرف چار فی صد ملا تھا۔

اس کے بعد 2014کے لوک سبھا کے انتخابات میں اسے صرف دو نشستیں ملیں اور ڈالے گئے ووٹوں میں سے 18 فی صد حاصل ہوئے۔ 2016 میں بنگال کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی نے تین نشستیں اورڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے 10 فی صد حاصل کیے۔

حالیہ ریاستی انتخاب میں بی جے پی نے بنگال سے 77 نشستیں حاصل کی ہیں اور ریاستی سطح کے الیکشن میں اس کے ووٹوں کی تعداد میں 28فی صد تک کا اضافہ ہوا ہے۔

ان کا مزید لکھنا ہے کہ اس انتخاب میں بی جے پی نے گزشتہ 64برس تک بنگال میں حکمران رہنے والی کانگریس اور دائیں بازوں کی جماعتوں کو میدان سے باہر کردیا۔

ان کے مطابق بی جے پی اس انتخاب میں بنگال کے اندر اپنی قیادت کھڑی کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ 2024کے عام انتخابات اور آئندہ ریاستی انتخابات میں پوری طرح تیار کی گئی انتخابی مشینری جماعت کی اس قیادت کی مدد کے لیے موجود ہوگی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments