بھارت میں پھر چار لاکھ سے زائد نئے کرونا کیس، تیسری لہر کی وارننگ بھی جاری


بھارت میں کرونا وائرس کی دوسری لہر کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ تاہم ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت کو کرونا کی تیسری لہر کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بھارتی وزیرِ اعظم کے اعلیٰ سائنسی مشیر ڈاکٹر کے وی وجے راگھون نے جمعرات کو نئی دہلی میں ایک نیوز بریفنگ میں بتایا کہ جس تیزی سے وائرس پورے ملک میں پھیل رہا ہے اس کے پیشِ نظر یہ انتباہ جاری کیا جاتا ہے کہ ملک میں کرونا کی تیسری لہر کا آنا ناگزیر ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ وہ یہ پیش گوئی نہیں کر سکتے کہ تیسری لہر کب آئے گی اور اس کی شدت کیا ہو گی۔ لیکن ہمیں اس کے لیے تیاری کرنی ہو گی۔

کے وجے راگھون نے کہا کہ نئے اسٹرین کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسین کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ویکسین لگانے کے عمل کو تیز کرنا ہوگا۔

راگھون نے کہا کہ ہم کرونا کی تیسری لہر سے نہیں بچ سکتے۔ ہمیں ہر حال میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

ان کے مطابق ریاستی حکومتوں کو اس کی اطلاع دے دی گئی ہے اور ان سے ضروری اقدامات اٹھانے کا کہا گیا ہے۔

دریں اثنا بھارت میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران چار لاکھ 12 ہزار 262 افراد میں کرونا کی تشخیص ہوئی ہے اور 3,980 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ریاست مہاراشٹرا میں 57 ہزار، کرناٹک میں 50 ہزار اور کیرالہ میں 42 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

ادھر آسام، مغربی بنگال، اڑیسہ، بہار اور جھارکھنڈ میں کرونا کیسز اور کرونا سے ہونے والی اموات میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

وائرس کا دیہی علاقوں میں پھیلاؤ

اس سلسلے میں ہونے والی ایک جائزہ میٹنگ کے بعد وزارتِ صحت کی جانب سے بتایا گیا کہ کرونا کیسز کے پھیلاؤ سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ وہ اب مشرق کی جانب بڑھ رہا ہے اور کئی دیہات اس کی زد میں آ رہے ہیں۔

لاک ڈاؤن کے معاملے پر ابہام برقرار

ماہرین کے مطابق کرونا کے بڑھتے کیسز کو کم کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کیا جائے۔ اپوزیشن جماعت کانگریس نے بھی ملک گیر لاک ڈاؤن لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

جب نیوز بریفنگ کے دوران ملک کے تھنک ٹینک ‘نیتی آیوگ’ کے رکن ڈاکٹر وی کے پال سے اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے لاک ڈاؤن کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ مختلف آپشنز پر تبادلۂ خیال ہوتا رہتا ہے اور کرونا کی چین توڑنے کے لیے ریاستی حکومتوں کو پہلے ہی رہنما ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔

وی کے پال کووڈ۔19 ٹاسک فورس کے سربراہ ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق وزیرِ اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال جب آٹھ گھنٹے کے نوٹس پر ملک گیر لاک ڈاؤن لگایا تھا تو ملک میں انسانی بحران پیدا ہو گیا تھا اور ملکی معیشت کو بھی زبردست نقصان ہوا تھا۔ وزیرِ اعظم کے اس اچانک اعلان پر شدید تنقید بھی کی جا رہی تھی۔

بھارت: اسپتالوں کے باہر کرونا مریضوں کی بے بسی
Photo Gallery:

بھارت: اسپتالوں کے باہر کرونا مریضوں کی بے بسی

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسی لیے اس مرتبہ حکومت ملک گیر لاک ڈاؤن لگانے سے گریز کر رہی ہے۔ البتہ وہ ریاستی حکومتوں کو ہدایت دے رہی ہے کہ ان کے لیے جو ضروری ہو وہ کریں۔ ملک کی کئی ریاستوں میں اس وقت لاک ڈاؤن نافذ ہے اور متعدد ریاستوں میں سخت پابندیاں جاری ہیں۔

ملک کے مختلف شہروں میں اسپتالوں کو اب بھی بیڈ، آکسیجن اور ضروری ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔

دریں اثنا آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، نئی دہلی (ایمس) اور رام منوہر لوہیا اسپتال،نئی دہلی میں آکسیجن بنانے کی مشین لگائی گئی ہے جو ایک گھنٹے میں ایک ہزار کلو آکسیجن تیار کرتی ہے۔ دوسری جگہوں پر بھی مشینیں لگانے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

کرونا کے باوجود خواتین کا جلوس

دریں اثنا حکومت کی سختی کے باوجود ملک کے مختلف علاقوں میں کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

رپورٹس کے مطابق گجرات میں کرونا پابندیاں نافذ ہونے کے باوجود ریاست کے سانند ضلع کے نیا پورا اور پانچ دیگر دیہات میں ہندو رسومات کے مطابق ہندو دیوی بلیا کو خوش کرنے کے لیے بڑی تعداد میں خواتین سروں پر گھڑے لے کر جلوس کی شکل میں پہنچیں اور انہوں نے مندر میں اجتماعی پوجا کی۔

سیکڑوں کی تعداد میں موجود خواتین کے اس جلوس کی ویڈیو منگل کے روز وائرل ہوئی۔ مقامی ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ بلیا دیوی کی پوجا کرنے سے بچوں کو خسرہ اور چیچک جیسی بیماریوں سے بچایا جا سکتا ہے۔

مقامی پولیس نے جلوس کے شرکا کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 23 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

احمد آباد ضلع کے پولیس افسر کے ٹی کھیمریا کے مطابق نیا پورہ کے سرپنچ سمیت متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ نیا پورہ سے 250 خواتین نے اس جلوس میں حصہ لیا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments