جگمگاتی تقریبات سے خالی سڑکوں تک، ہالی وڈ فوٹو جرنلسٹ کی ڈائری سے ایک صفحہ


25 اپریل 2021 کو لاس اینجلس کے یونین اسٹیشن میں ہونے والی آسکر ایوارڈ 2021 کی تقریب کی جھلکیاں ۔ فوٹو کرس پزیلو ، اے پی

امریکہ پچھلے برس مارچ میں جب عالمی وبا سے متاثر ہونا شروع ہوا تو ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹو جرنلسٹ کرس پزیلو کے پاس کام بالکل ختم ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو عجیب و غریب حالات میں گھرا پایا. وہ انٹرٹینمنٹ سے محروم دور میں انٹرٹینمنٹ فوٹوگرافر تھے۔ ان کے مطابق، اس برس انہیں نت نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کرس پزیلو نے پچھلے ہفتے لاس اینجلس کے ایک یونین اسٹیشن میں منعقد ہونے والے آسکرز ایوارڈ کی تقریب کی کور یج بھی کی ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے لیے لکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہالی وڈ کی کرونا کی وجہ سے تبدیل ہو جانے والی دنیا میں ایک سال سے پہلے آخری معمول کی رات میں انہوں نے بس ایک جوڑے کو ہی ماسک پہنے دیکھا۔ انہوں نے لکھا کہ یہ اتنا انوکھا ضرور تھا کہ انہوں نے فوراً ہی اس کی تصویر بنا لی تھی۔ انہیں بالکل نہیں پتہ تھا کہ آگے چل کر سب کو ہی ایسے ماسک پہننے پڑیں گے۔

یہ 9 مارچ 2020 کی رات تھی، جب ڈزنی کی فلم ’مولان‘ کے پریمئیر کے لیے امریکی شہر لاس اینجلس میں واقع ہالی وڈ بولیوارڈ کے ڈولبی تھیٹر میں ریڈ کارپٹ بچھایا گیا تھا اور ہالی وڈ ستارے ڈھیروں فینز کے جھرمٹ میں تقریب میں شرکت کر رہے تھے۔ اس تقریب کو کور کرنے کے لیے درجنوں فوٹوگرافر بھی موجود تھے۔

بقول کرس، اس تقریب کو ایک سال سے زائد ہو چکا ہے اور اس کے بعد ہالی وڈ میں ایسا سماں پھر کبھی نہیں بندھا۔

انہوں نے اے پی کے لیے لکھی اپنی ڈائری میں بتایا کہ اس تقریب کے دو روز بعد یہ خبر بریک ہوئی کہ ہالی وڈ کے نامور اداکار ٹام ہینکس اور ان کی اہلیہ ریٹا ولسن کو کرونا وائرس ہو چکا ہے۔ کرس کا کہنا تھا کہ فوٹوگرافر کے طور پر انہوں نے ہالی وڈ کے اس معروف جوڑے کی کئی بار تصویر بنائی تھی۔ اس خبر سے کرونا وائرس کو ہالی وڈ اور پورے امریکہ میں ایک جانا پہچانا نام مل گیا تھا۔ چند ہی دن لگے اور ہالی وڈ سمیت پورا امریکہ بند ہو گیا تھا۔

کرس پزیلو رواں برس کے گریمی ایوارڈ کی تقریب کی عکس بندی کرتے ہوئے۔
کرس پزیلو رواں برس کے گریمی ایوارڈ کی تقریب کی عکس بندی کرتے ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف اس بات پر پریشان نہیں تھے کہ ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا، بلکہ مستقبل کے بارے میں بھی انہیں خدشات تھے کہ کیا وہ یہ ملازمت کر بھی پائیں گے۔ ان کے مطابق انٹرٹینمنٹ کے بغیر انٹرٹینمنٹ فوٹوگرافر کا کیا کام؟

لیکن وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد تاریخ بن رہی تھی، اور بقول ان کے، کون سا فوٹوگرافر ہو گا، جو اسے تصویری شکل دینے کا خواب نہ دیکھے گا؟

ان کے مطابق، وہ کئی ہفتے تک ہالی وڈ کی سڑکوں پر گھومتے رہے۔ وہ بازار اور شاہراہیں جہاں تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی تھی، وہ سنسان پڑے تھے۔ ہالی وڈ بولیوارڈ میں کوے بول رہے تھے۔

انہوں نے اپنی ڈائری نما رپورٹ میں لکھا کہ رفتہ رفتہ جب موسم بدلا تو انہوں نے لوگوں کی تصاویر اتارنا شروع کر دیں۔ کہیں کوئی وائلنسٹ اپنے گھر کے پاس وائلن بجا رہا ہے تو وہ وہاں موجود ہیں، کہیں ڈرائیو ان فلمیں لگ رہی ہیں تو وہ موجود۔ ایسے ہی ڈرائیو ان کانسرٹ ہو رہے ہیں تو کہیں ڈرائیو ان خیراتی تقریب، انہوں نے ایسی انوکھی تقریبات کی عکاسی شروع کر دی۔

ہالی وڈ تقریبات میں فوٹوگرافر سماجی فاصلہ رکھتے ہوئے۔
ہالی وڈ تقریبات میں فوٹوگرافر سماجی فاصلہ رکھتے ہوئے۔

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے کام کو پہلے سے نکھرتا ہوا پایا۔ اب ہالی وڈ کے ریڈ کارپٹ کی تقریب نہیں ہوتی تھی، جہاں 40 سے 50 فوٹوگرافر کندھے سے کندھا جوڑے فوٹو لینے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ بقول ان کے وہ آسانی سے ہر زاویے سے جس کی چاہے فوٹو لے سکتے تھے۔

ایسے ہی انہوں نے بتایا کہ فنکاروں کی پورٹریٹس پہلے سے تو کم تھیں، مگر ان کا معیار بہت اچھا تھا۔ وہ قدرتی ماحول میں بھی فوٹوگرافی کر سکتے تھے۔ اب وہ ہوٹلوں کے کمروں یا ہالز میں فوٹو کھینچنے پر مجبور نہ تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اس دوران انہوں نے گلوکار جیسن مراز کی تصاویر ایسے بنائیں کہ وہ اپنے گھر میں کافی اگا رہے ہیں۔ ایسے ہی اداکارہ کیارہ براوو کی سائیکل چلاتی ہوئی تصاویر بنائیں، جہاں پس منظر میں رنگا رنگ میورل بنے ہوئے تھے۔

کرس کے مطابق انہوں نے وبا کے دوران انوکھی تقریبات کی تصاویر بنانی شروع کر دیں۔
کرس کے مطابق انہوں نے وبا کے دوران انوکھی تقریبات کی تصاویر بنانی شروع کر دیں۔

ستمبر میں ایمی ایوارڈز کی تقریب ہوئی تو کرس نے بتایا کہ انہوں نے باہر کھڑے ہو کر ان گنے چنے لوگوں کی کاروں کی تصاویر بنائیں جو اس تقریب میں شرکت کر رہے تھے۔ ایسے ہی اکتوبر میں ہونے والے بل بورڈ میوزک ایوارڈز کی تقریب میں وہ واپس ڈولبی تھیٹر میں موجود تھے جہاں انہوں نے این ووگ میوزک گروپ کو اپنے گیت پر پرفارم کرتے ہوئے عکس بند کیا جب کہ وہاں ان کا گیت سننے، اور ان کی پرفارمنس دیکھنے کے لیے ناظرین میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں برس آسکر ایوارڈ کی تقریب ایسے وقت میں ہوئی جب ویکسین دینے کا عمل کافی تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد گر رہی تھی اور حالات معمول پر لوٹ رہے تھے۔ لیکن بقول کرس پزیلو کے، یہ ان کی پروفیشنل زندگی کی سب سے ڈراؤنی تقریب تھی۔

عالمی وبا کی وجہ سے آسکر انتظامیہ نے صرف اے پی کو ہی اجازت دی تھی کہ اس کا فوٹوگرافر ریڈ کارپٹ پر ستاروں کی آمد اور جیتنے والوں کی عکس بندی کر سکتا تھا۔ ان کے مطابق، اس کا مطلب یہ تھا کہ میں وہاں اکیلا کھڑے ہو کر دنیا کے اکثر خبر رساں اداروں کے لیے تصاویر کھینچ رہا تھا۔

امریکن میوزک ایوارڈز کی تقریب
امریکن میوزک ایوارڈز کی تقریب

ان کا کہنا تھا کہ اے پی کے فوٹوگرافرز کو دباؤ میں کام کرنے کی عادت ہوتی ہے، مگر یہ تو بالکل الگ ہی قسم کا دباؤ تھا۔ بقول ان کے اگر وہ دن میرے برے دنوں میں سے ہوتا؟ اگر کیمرہ خراب ہو جاتا؟ ’’میں اسی لیے اپنے ساتھ بیک اپ لے آیا۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ اس سال کی آسکر تقریب لاس اینجلس کے یونین سٹیشن پر منعقد ہو رہی تھی اور ایسے میں سورج سارا دن بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتا رہا۔ بقول ان کے، میں سارا وقت بہترین روشنی کے انتظار میں تگ و دو کرتا رہا۔

تقریب کی شروعات سے پہلے وہ مسلسل شوٹ کرتے رہے۔ کبھی وائڈ شاٹ تو کبھی فل لینتھ، کبھی ہیڈ شاٹ تو کبھی تفصیلی شاٹ۔ ستاروں کی جیولری کا خیال تو کبھی ان کے کپڑوں کا۔ بقول ان کے، اے پی کی ایڈیٹنگ کی ٹیم کا فوری طور پر ان تصاویر کا استعمال کرنا قابل داد ہے۔

ان کے مطابق، اس سب محنت کے نتائج بھی حیران کن تھے۔ کہیں ہیلی بیری کے میجنڈا رنگ کے کپڑوں کی تصاویر کھنچ رہی ہیں تو کبھی کیری ملیگن کے گولڈ رنگ کا گولڈ رنگ کا گاؤن کیمرے پر کمال دکھ رہا ہے۔

بقول ان کے جب اگلے روز دنیا کے تمام میڈیا آؤٹ لیٹس پر رنگ برنگی تصاویر کے نیچے کرس پزیلو کا نام دیکھا تو اس کے بعد بہت سے ایسے فوٹوگرافرز کے پیغام ملنے شروع ہو گئے جو عام حالات میں بہترین تصاویر لینے کے لیے مجھ سے مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ سب مبارکباد کے پیغام بھیج رہے تھے۔

کرس پزیلو کہتے ہیں کہ یہ سب بہت تشکر آمیز تھا۔ لیکن بقول ان کے وہ امید کرتے ہیں کہ انہیں ایسا دوبارہ کبھی نہ کرنا پڑے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments