انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا



سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی، منصفانہ و شفاف نظام کے لیے انتخابی ساکھ کا سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا انتخابی نظام اپنی سیاسی ساکھ اور شفافیت کا پہلو قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری عمومی سیاسی تاریخ یہ ہی ہے کہ جو بھی انتخابات ہوئے ان کے نتائج کو نہ تو تسلیم کیا گیا بلکہ ان کی حیثیت کو متنازعہ سمجھا گیا۔ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی کامیابی کی ایک بڑی کنجی اصلاحات پر مبنی ایجنڈا ہوتا ہے۔

لیکن ہماری جمہوریت اور پارلیمانی نظام اصلاحات کے ایجنڈے کو ایک بڑی سیاسی طاقت دینے میں عملی طور پر ناکام رہا ہے۔ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے دو پہلو اہم ہیں۔ اول 2014 میں تحریک انصاف کے دھرنے کے نتیجے میں حکومت نے اس وقت ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جس نے انتخابی اصلاحات کا ڈرافٹ تیار کرنا تھا۔ دوئم انتخابی دھاندلی کے جائزہ کے لیے جو عدالتی کمیشن بنا تھا اس نے انتخابی بے ضابطگیوں پر کمیشن نے 42 کے قریب تجاویز دی تھیں، لیکن ان دونوں باتوں پر الیکشن کمیشن کچھ نہیں کر سکا او راس کا نتیجہ 2018 کے انتخابات میں بھی انتخابی دھاندلی کا شور دیکھنے کو ملا۔

اس وقت حکومت نے ایک بار پھر قومی سیاسی ایجنڈے میں انتخابی اصلاحات کا ایک نیا پیکج سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پیکج کے تحت وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے بقول ہماری انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا چار نکات پر مبنی ہے۔ ان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین، ای ووٹنگ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق، بایؤ میٹک سسٹم اور قانون سازی کا عمل شامل ہے۔ قانون سازی کے نکات میں سینٹ کے انتخابات کو کھلے ووٹ کے ذریعے کرنے کے لیے آئینی ترمیم یعنی صوبائی ارکان اسمبلی اپنی پارٹی کے سربراہ کے حکم پر ووٹ ان کو دکھا کر دیں گے۔

اسی طرح غیر ملکی پاکستانیوں کو بھی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دینا بھی حکومتی تجویز کا حصہ ہے اور اگر وہ انتخاب جیت جاتا ہے تو اسے اپنی غیر ملکی شہریت کو چھوڑنا ہوگا۔ لیکن اس انتخابی اصلاحات کے پیکج پر اس وقت حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جو سیاسی تناؤ یا بداعتمادی ہے اس میں حزب اختلاف حکومت سے تعاون کرنے میں سنجیدہ نہیں اور انہوں نے برملا حکومت کی حمایت کرنے سے واضح طور پر انکار کر دیا ہے۔ اب حکومت نے وفاقی کابینہ کی منظوری سے دو آرڈنینس الیکٹرانک ووٹنگ اور اوورسیز کو ووٹ کے حق دینے کو منظور کیا ہے۔ بقول فواد چوہدری کے ہم عید کے آخر تک ووٹنگ مشین پر پروٹو ٹائپ ماڈل تیار کر لیا جائے گا۔

ایک مشکل یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے راہنما چوہدری احسن اقبال بضد ہیں کہ ہمیں حکومت پر اعتماد نہیں اور انتخابی اصلاحات کا معاملہ الیکشن کمیشن کو مختص کیا جائے اور وہی تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخابی اصلاحات کو یقینی بنائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر انتخابی اصلاحات عملی طور پر الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہے تو پھر اس پارلیمنٹ کا کیا کردار رہ جاتا ہے۔ انتخابی اصلاحات کی بنیادی ذمہ داری پارلیمنٹ کی ہے اور یہ حق بھی پارلیمنٹ کا ہی ہے کہ وہ اتفاق رائے سے انتخابی اصلاحات کو یقینی بنائے۔

یہ عجیب مخمصہ ہے کہ ہماری سیاست اور جمہوریت سے ہی جڑے لوگ اپنی ذمہ داری خود ادا کرنے کی بجائے دوسرے اداروں پر ڈال کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کریں۔ انتخابی اصلاحات ایک بڑا مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ کیونکہ اس انتخابی نظام پر ہماری سیاسی اور جمہوری ساکھ جڑی ہوتی ہے۔ انتخابی قوانین، انتخابی اصلاحات میں بہتری لانا اور ان پر عملدرآمد کا منصفانہ اور شفاف طریقہ کار دو مختلف چیزیں ہیں۔ کیونکہ ہمارا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم بہتر پالیسی، قانون سازی یا اصلاحات تو کرلیتے ہیں لیکن عملدرآمد کا نظام عدم شفافیت یا بے جا مداخلتوں سے جڑا ہوا ہے۔ خود الیکشن کمیشن جسے ہم ایک خود مختار ادارہ سمجھتے ہیں اس کی اپنی صلاحیت کے سوالات بھی بنیادی نوعیت کے ہیں۔

اصولی طور پر تو حکومت، حزب اختلاف اور معاشرے میں وہ تمام سول سوسائٹی یا میڈیا کے ادارے جو انتخابی نظام کی شفافیت کے حامی ہیں ان کے ساتھ مشاورت کر کے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔ اس لیے یہاں انتخابی اصلاحات کو محض کسی ایک سیاسی جماعت یا حکومت کی سیاسی انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے اسے ایک بڑے قومی مسئلہ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ کیونکہ اگر ہم نے یہاں منصفانہ اور شفاف انتخابی سطح کی اصلاحات پر توجہ نہ دی تو پھر 2023 کے انتخابات میں بھی ہمیں دھاندلی کا بیانیہ دیکھنے کو ملے گا او رجو بھی جماعت انتخابات میں جیت نہیں سکے گی وہ انتخابی نتائج کو قبول نہیں کرے گی۔

اس لیے جو لوگ یہ منطق دے رہے ہیں کہ انتخابی اصلاحات کوئی اہم ایجنڈا نہیں یہ تجزیہ درست نہیں۔ کیونکہ جس قسم کا انتخابی نظام عدم شفافیت کی بنیاد پر یہاں موجود ہے اس میں بڑی نمایاں تبدیلیوں کے ہم کچھ نہیں کرسکیں گے۔ 2014 میں جو پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی تھی اس نے ایک مفاداتی قسم کی ترمیم پیش کی جس کے تحت انتخابات لڑنے والوں پر اپنے اثاثے کو ظاہر کرنے کی پابندی ختم کردی گئی تھی۔ اس پابندی کو عائد کر کے سیاسی قیادت نے ایک بڑی موقع پرستی کی سیاست کو فروغ دیا جس کی کسی بھی سطح پر حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔

انتخابی اصلاحات میں دو مسائل اور بڑے سرفہرست ہیں۔ ان میں یہ جو مکمل انتخابی نظام دولت کے کھیل کا حصہ بن گیا ہے اور اس تناظر میں تمام انتخابی قوانین کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی ان قوانین پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ انتخابی نظام میں دولت کے کھیل کا خاتمہ اور عام آدمی کی عملی طور پر انتخابی نظام میں بطور امیدوار شرکت کو کیسے یقینی بنایا جاسکے۔ اسی طرح اسٹیبلیشمنٹ یا انتخابی نظام میں مداخلتوں کا کھیل ہے اس کو کیسے روکا جائے۔

کیونکہ جو بھی انتخابات ہوتے ہیں ہارنے والے کا بڑا الزام بھی اسٹیبلیشمنٹ پر ہی لگتا ہے۔ ہمیں یقینی طور پر بھارت سے ہمیں یہ سبق سیکھنا ہوگا کہ کیسے وہاں انتخابات میں شکست کھانے والے نہ تو انتخابی دھاندلی کا واویلا مچاتے ہیں اور نہ ہی نتائج کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کی انتخابی فنڈنگ کے معاملات پر بھی قانون سازی درکار ہے او ریہ کام دیگر ممالک کی طرح ہونا چاہیے کہ براہ راست سیاسی جماعتیں انتخابی فنڈ نہ اکٹھا کریں اور یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ہی ہونی چاہیے اور وہی سیاسی جماعتوں کو ان کی سیاسی حیثیت کے مطابق انتخابی فنڈ جاری کرے۔ انتخابی اصلاحات ہی کے تناظر میں ہمیں انتخابی نظام کی شفافیت کے لیے پولیٹکل پارٹیز ایکٹ میں بنیادی نوعیت کی ترمیم لانی ہوگی کیونکہ ہماری سیاسی جماعتوں کا اپنا داخلی نظام عدم جمہوریت کا شکار ہے اور یہ کیسے شفافیت پر مبنی انتخاب کو اپنا ایجنڈا سمجھتے ہیں۔

بہت سے لوگ الیکٹرانک ووٹنگ کے نظام پر تنقید کر رہے ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت جو کچھ بھی کرنا چاہتی ہے اس پر تمام فریقین کو اعتماد میں لے ان کو مکمل طور پر آگاہ کرے کہ یہ طریقہ انتخاب کیسے شفافیت کو بحال کرسکے گا۔ کیونکہ جو لوگ پرانے نظام کی دلیل دیتے ہیں ان کو یہ بھی ماننا ہوگا کی اسی پرانے نظام کی بنیاد پر ہم انتخابی دھاندلی کا ماتم کرتے ہیں۔ ہمیں یقینی طور پر باہر کے ملکوں کے تجربات سے سیکھنا ہوگا کہ انہوں نے کیسے اپنے انتخابی نظام کو شفاف بنایا اور خاص طور پر بھارت نے اپنے الیکشن کمیشن کو کیا خود مختاری دی ہوئی ہے اس کا بھی جائزہ لے کر اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔

ہمیں انتخابات کی مدت پانچ برس کی بجائے چار برس، قومی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں انعقاد، جرائم پیشہ افراد کی انتخابی عمل میں عدم شمولیت، سیاسی جماعتوں کی سطح پر انتخابی نتائج کو قبول کرنے کا عہد، پیشہ وارانہ افراد کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد، الیکشن کمیشن کی صلاحیتوں میں اضافہ اور خودمختاری، سیاسی جماعتوں کے داخلی جمہوری نظام کی یقین دہانی، ٹکٹوں کی خرید و فروخت، سینٹ کے براہ راست انتخابات، مقامی حکومتوں کے نظام کے تسلسل، ووٹ ڈالنے کی شرح میں اضافہ، دو سے زیادہ نشستوں پر انتخابات لڑنے پر پابندی کو ہر سطح پر یقینی بنانا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments