سی ایس ایس 2020: چترال کے پسماندہ علاقے سے پولیس سروس کا حصہ بننے والی شازیہ اسحاق

عزیز اللہ خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور


’اگر لڑکیوں کو گھر والوں کی حمایت بھی حاصل ہو تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ مجھے میرے والدین اور خاندان والوں کی مکمل سپورٹ حاصل تھی، اس لیے ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود میں یہ کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہوں۔‘

پاکستان میں سینٹرل سپیریئر سروس (سی ایس ایس) کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والی شازیہ اسحاق کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے چترال میں مستوج سے ہے اور سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کے بعد ان کی تعیناتی پولیس سروس آف پاکستان میں تجویز کی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنا ان کا جنون تھا، اسی لیے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے اس وقت تک کہیں اور ملازمت کی کوشش ہی نہیں کی جب تک کہ انھوں نے یہ امتحان دے دیا تھا۔ امتحان کے بعد رزلٹ آنے تک انھوں نے ایک سرکاری سکول میں ہیڈ مسٹرس کی نوکری کی۔

یہ بھی پڑھیے

سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے والی پانچ ’شیر بہنوں‘ کی کہانی

ڈاکٹر ثنا رام چند: ’کووڈ وارڈ کی ڈیوٹی کے ساتھ سی ایس ایس کی تیاری کی‘

خیبرپختونخوا کی پہلی خاتون ڈی پی او جنھیں سی ایس ایس کی تیاری ان کے شوہر نے کروائی

سی ایس ایس 2020:

سی ایس ایس 2020: کتنے پاس کتنے فیل

سی ایس ایس کے سالانہ امتحان 2020 میں کل 18553 امیدوار شامل تھے جن میں سے تحریری امتحان میں صرف 376 کامیاب قرار پائے جبکہ انٹرویو کے بعد کل کامیاب امیدواروں کی تعداد 364 رہ گئی تھی۔

ان میں 226 مرد اور 138 خواتین شامل ہیں۔ جن امیدواروں کو تعیناتی کے لیے منتخب کیا گیا ہے ان کی تعداد 221 ہے اور ان میں صرف 79 خواتین ہیں۔

مقابلے کے اس امتحان میں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مرد اور خواتین کامیاب ہوئے ہیں۔ اس طرح سنہ 2020 میں سی ایس ایس میں کامیابی کی شرح دو فیصد سے بھی کم رہی ہے۔

شازیہ اسحاق: ’سی ایس ایس کا جنون‘ رکھنے والی طالبہ

پاکستان میں سی ایس ایس کے نتائج کا اعلان گذشتہ روز کیا گیا اور اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر تمام کامیاب امیدواروں کو مبارکباد پیش کی گئی اور ان کی کامیابیوں کو سراہا گیا۔

شازیہ اسحاق ان نتائج کے اعلان سے پہلے چترال کے ایک سرکاری مڈل سکول میں ہیڈ مسٹرس تعینات تھیں۔ لیکن اس نتیجے کے اعلان کے بعد اب وہ ایک پولیس افسر ہیں اور چند برس بعد وہ کسی ضلع کی پولیس سربراہ یعنی ڈسٹرکٹ پولیس افسر ہوں گی اور یہ ترقی اس طرح جاری رہے گی۔

ان کے والد پاکستان آرمی سے صوبیدار کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ وہ دو بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ شازیہ ان میں سب سے بڑی ہیں۔

ان کا تعلق اپر چترال کے ضلع مستوج میں جنالی کوچ گاؤں سے ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپر چترال میں بونی اور آغا خان سکول سے حاصل کی اور پھر بی ایس پولیٹیکل سائنس کے لیے پشاور کی تاریخی درسگاہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

پولیٹیکل سائنس کی ڈگری انھوں نے سال 2018 میں حاصل کی اور پھر مقابلے کے امتحان کی تیاری شروع کر دی تھی۔

شازیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس امتحان کی تیاری کی وجہ سے انھوں نے کہیں اور ملازمت نہیں کی لیکن جب امتحان دے دیا تھا تو اس کے بعد محکمہ تعلیم میں این ٹی ایس میں شامل ہوئیں اور ان کا انتخاب سرکاری مڈل سکول میں ہیڈ مسٹرس کے طور پر ہوا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ان کی بہن اور دونوں بھائی سکول اور کالج کی سطح پر پڑھ رہے ہیں جبکہ ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون ہیں۔

پاکستان میں سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنا اور پھر اس میں اہم شعبہ جات میں منتخب ہونا کئی طلبا اور طالبات کا خواب ہوتا ہے۔

شازیہ نے بھی یہی خواب دیکھا اور اس خواب کی تعبیر کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔

اس راستے میں رکاوٹیں اور مشکلات بھی سامنے آئیں لیکن انھوں نے اس کا مقابلہ کیا۔ شازیہ اسحاق نے بتایا کہ جب وہ ان امتحان کی تیاری کر رہی تھیں تو بعض اوقات ان کے سننے میں ایسا آتا تھا کہ ’یہ تو بچی ہے، یہ کیا کر لے گی‘

مگر انھوں نے ان باتوں کو رد کیا اور صرف اپنا جنون سامنے رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ ’کسی بھی لڑکی کو گھر والوں کی کتنی حمایت حاصل ہے کہ وہ اپنے لیے کامیابیاں سمیٹ سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں مکمل حمایت حاصل تھی اور انھوں نے اب یہ ثابت بھی کر دیا ہے۔‘

چترال سے اور کون کامیاب ہوا؟

اس مرتبہ چترال سے چار امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اور ان چاروں کا تعلق اپر چترال کے پسماندہ علاقوں سے ہے۔

ان میں عمران الحق شامل ہیں جو بنیادی طور پر کیمیکل انجینیئر ہیں اور انھوں نے بارسیلونا سپین سے تعلیم حاصل کی ہے۔

عمران الحق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس میں تعیناتی کے لیے تجویز کیے گئے ہیں۔ جبکہ مجیداللہ نے نیشنل یونیورسٹی آف سائئنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) سے سول انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور انھیں فارن سروس آف پاکستان (دفتر خارجہ) کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

سلیم اللہ ایوبی نے ماحولیات کی تعلیم حاصل کی ہے اور انھوں نے پی ایم ایس کے امتحان میں بھی کامیابی حاصل کی ہے اور اس وقت وہ تربیتی افسر ہیں۔

مقامی صحافی سیف الرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ چترال میں صرف دو ڈگری کالج ہیں جبکہ یہاں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ’کہیں بجلی ہے اور کہیں وہ بھی نہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان چاروں امیدواروں کا تعلق انتہائی پسماندہ علاقوں سے ہے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ چترال میں تعلیم کے حصول کا رجحان ضرور ہے لیکن یہاں روزگار نہیں ہے، اس لیے اس علاقے میں غربت میں اضافہ زیادہ دیکھا جاتا ہے۔

اپنی منزل کیسے حاصل کی؟

ایک ایسے علاقے سے تعلق ہونا جہاں بجلی بھی مکمل دستیاب نہ ہوں انٹیرنیٹ کی سہولت تو دور کی بات ہوجاتی ہے ، وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا اور پھر مقابلے کے امتحان میں بھی کامیابی حاصل کرنا قابل تحسین ہے۔

شازیہ اسحاق نے بتایا کہ انھوں نے سی ایس ایس کے سیلیبس پر توجہ دی اور خود پڑھائی کی۔ مگر رہنمائی کے لیے انھوں نے ایک اکیڈمی میں بھی داخلہ لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اکیڈمی کا سٹاف قابل اور مسلسل رہنمائی کرتا رہا۔

شازیہ کے مطابق وہ سلیبس کے علاوہ جنرل کتابیں بھی پڑھتی تھی اور سیلبس سے متعلق دیگر آرٹیکلز اور معلومات کے حصول پر بھی توجہ دیتی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32469 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp