مسجدِ اقصیٰ میں فلسطینیوں اور اسرائیلی فورسز میں جھڑپیں، 205 افراد زخمی


ہلال احمر ایمبولینس سروس کا کہنا ہے کہ 108 زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ جن کی اکثریت کو ربڑ کی گولیاں لگی تھیں۔
ویب ڈیسک — مسجدِ اقصیٰ میں فلسطینیوں اور اسرائیل کی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 205 ہو گئی ہے۔ جب کہ اسرائیلی پولیس کے 17 اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

رمضان کے دوران یروشلم، جسے مسلمان القدس کہتے ہیں، اور مغربی کنارے میں جاری کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ فلسطینی خاندانوں کی ان علاقوں سے بے دخلی ہے جس کے دعویدار یہودی آباد کار ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں جمعے کی شام کو ہونے والی جھڑپوں میں اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں پر ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کے گولے فائر کیے۔ جب کہ فلسطینیوں نے اسرائیلی پولیس پر پتھراؤ کیا۔

مشرقی یروشلم کے علاقے شیخ جراح میں رات کے اوقات میں جھڑپیں جاری ہیں۔ جہاں متعدد فلسطینی خاندانوں کو طویل مدت سے جاری عدالتی کیس کے سبب اپنے گھر خالی کرنے پڑیں گے۔

فلسطین کے ہلال احمر ایمبولینس سروس کا کہنا ہے کہ 108 زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے جن کی اکثریت کو ربڑ کی گولیاں لگی تھیں۔

دوسری طرف پولیس کی خاتون ترجمان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی طرف سے پولیس پر پتھراؤ، آتشی اشیا اور دیگر چیزیں پھینکی گئیں جس کی وجہ سے زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں کو اسپتال منتقل کرنا پڑا۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کے خلاف پر تشدد کارروائیاں کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

واضح رہے کہ فلسطینی یروشلم کو بیت المقدس کہتے ہیں اور یہ شہر مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس شہر ہے۔

اسرائیل کی سپریم کورٹ شیخ جراح سے بے دخل کیے جانے والے فلسطینیوں سے متعلق کیس کی سماعت آئندہ ہفتے پیر کو کرے گی۔ اس دن اسرائیلی 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے بعد مشرقی یروشلم حاصل کرنے کی یاد میں ‘یروشلم ڈے’ مناتے ہیں۔

اسرائیل کی سپریم کورٹ شیخ جراح سے بے دخل کیے جانے والے فلسطینیوں سے متعلق کیس کی سماعت اگلے ہفتے پیر کو کرے گی۔
اسرائیل کی سپریم کورٹ شیخ جراح سے بے دخل کیے جانے والے فلسطینیوں سے متعلق کیس کی سماعت اگلے ہفتے پیر کو کرے گی۔

اسرائیل کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی عام شہریوں میں زمین کے تنازع کو قومی مسئلہ بنا رہے ہیں تاکہ یروشلم میں تشدد کو ہوا دی جائے۔ تاہم فلسطینیوں کی طرف سے اس الزام کو رد کیا گیا ہے۔

اس موقع پر امریکہ اور اقوامِ متحدہ کی طرف سے کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جب کہ یورپی یونین اور اردن کی طرف سے فلسطینی خاندانوں کی ان علاقوں سے ممکنہ بے دخلی سے متعلق خبر دار کیا گیا ہے۔

اس سے قبل ہزاروں فلسطینی مسجدِ اقصیٰ سے متصل چوٹی پر نمازِ جمعہ کے لیے جمع ہوئے تھے۔ تاہم افطار کے بعد مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں جھڑپیں شروع ہو گئیں اور شیخ جراح کے قریب فلسطینیوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔

پولیس کی طرف سے بے دخل کیے جانے والے فلسطینیوں کے گھروں کے قریب مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن استعمال کیے گئے۔

مسجدِ اقصیٰ کے منتظمین کی طرف سے لاؤڈ اسپیکر سے پولیس کو مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے فائر کرنے سے فوری طور پر منع کیا گیا اور نوجوانوں کو تحمل اور خاموش رہنے کی تلقین کی گئی۔

فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے ان جھڑپوں کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھیراتے ہوئے اقوامِ متحدہ سے فوری طور پر اس واقعے سے متعلق اجلاس بلانے کا کہا گیا ہے۔

علاوہ ازیں مغربی کنارے میں بھی تشدد میں اضافہ ہوا ہے جہاں پولیس کے مطابق دو فلسطینی مسلح افراد ہلاک اور ایک اس وقت زخمی ہوا جب ان کی طرف سے اسرائیلی چوکی پر فائرنگ کی گئی۔

فلسطینی مسجد اقصی سے متصل چوٹی پر نماز جمعہ کے لیے اکٹھے ہوئے۔ تاہم افطار کے بعد مسجد اقصی کے احاطے میں جھڑپیں شروع ہو گئی۔
فلسطینی مسجد اقصی سے متصل چوٹی پر نماز جمعہ کے لیے اکٹھے ہوئے۔ تاہم افطار کے بعد مسجد اقصی کے احاطے میں جھڑپیں شروع ہو گئی۔

اس واقع کے بعد اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں اضافی اہلکار بھیج رہے ہیں۔

اسرائیل، فلسطین تنازع

انیسویں صدی تک فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ فی صد کے لگ بھگ تھی۔ فلسطین کا دارالحکومت بیت المقدس تھا۔ بیت المقدس کو اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں اور یہ مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس شہر سمجھا جاتا ہے۔

یہودیوں کے نزدیک فلسطین اور اس سے ملحقہ علاقے مذہبی حوالوں سے نہایت اہم ہیں۔ جس کی نشانیاں اُن کے نزدیک مقدس کتاب میں بھی ملتی ہیں۔

خطے کے عربوں اور یہاں آباد یہودیوں کے درمیان چپقلش کا آغاز 1917 میں ہوا تھا۔ اُس وقت فلسطین خلافتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ اس دوران برطانوی حکام نے اعلان کیا تھا کہ فلسطین یہودیوں کا مستقل ٹھکانہ ہو گا۔

بعد ازاں پہلی جنگِ عظیم اور خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ‘لیگ آف نیشن’ نے فلسطین کا کنٹرول برطانیہ کو دے دیا تھا۔

‘لیگ آف نیشن’ کا قیام پہلی جنگِ عظیم کے اختتام پر جنوری 1920 میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کے قیام سے قبل دُنیا کے مختلف ممالک کی اس تنظیم کا مقصد عالمی امن کو برقرار رکھنا تھا۔

‘لیگ آف نیشن’ کی جانب سے دیے گئے مینڈیٹ کے تحت 1945 میں برطانیہ نے فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی جسے اسرائیل کا نام دیا گیا۔

اسی دوران اسرائیل کی فورسز اور فلسطینی ملیشیاز کے درمیان جھڑپوں کا بھی آغاز ہوا۔ 1948 میں باضابطہ طور پر اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا اور اسی برس اسرائیل کا فلسطین کے پڑوسی ممالک سے جھڑپوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔

فلسطینی یروشلم کو بیت المقدس کہتے ہیں اور یہ شہر مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس شہر سمجھا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو)
فلسطینی یروشلم کو بیت المقدس کہتے ہیں اور یہ شہر مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس شہر سمجھا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو)

برطانیہ نے فلسطین سے متعلق شہریوں کے خلاف کارروائی، غیر معینہ مدت تک انہیں قید میں رکھنے، آبادیوں کو گرانے، فوجی عدالتوں کے قیام اور فوجی چھاؤنیوں کے قیام کی بھی منظوری دی تھی۔

مبصرین کے مطابق انہی قوانین کا سہارا لے کر 1967 کی عرب، اسرائیل جنگ کے بعد فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کی جاتی رہی۔

سال 1949 میں اسرائیلی فوج نے فلسطینی ملیشیاز کو شکست دی تو لگ بھگ سات لاکھ فلسطینی شہری بے گھر ہو گئے اور متعدد دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔

اسرائیلی فوج نے واپس آنے کی کوشش کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے اور دُنیا کے کسی بھی ملک میں پیدا ہونے والے یہودی کو اسرائیل میں آنے کی اجازت دے دی اور اُنہیں یہودی ریاست کا شہری بننے کی پیش کش کی گئی۔

سابق امریکی صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ

امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ نے گزشتہ برس فلسطین اور اسرائیل تنازعے کے حل کا منصوبہ پیش کیا تھا جس کا اسرائیل کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا تھا جب کہ فلسطین کی اتھارٹی نے اسے یکسر مسترد کر دیا تھا۔

دو ریاستی حل کے مجوزہ امن معاہدے کے تحت غیر منقسم یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا اور ابو دیس فلسطین کا دارالخلافہ کہلائے گا۔ امن منصوبے کے تحت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو سرحد کا درجہ حاصل ہو گا۔

خیال رہے کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں ہی اس شہر کے دعوے دار ہیں۔ منصوبے کے تحت کسی بھی اسرائیلی یا فلسطینی کو اُس کے گھر سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ لہٰذا 1967 کے بعد فلسطینی علاقوں میں قائم کی گئی یہودی بستیاں جنہیں اقوامِ متحدہ غیر قانونی قرار دیتی ہے۔ امریکہ نے اسے باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔

فلسطینی حکام کا مؤقف ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے اسرائیل کو خطے میں اپنی حاکمیت قائم کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments