ویانا: ایران ایٹمی معاہدےمیں امریکہ کو دوبارہ شامل کرنے کی کوششیں تیز


عالمی طاقتوں کے وفود کا اجلاس (فائل فوٹو)
 

ویب ڈیسک — امریکہ کو ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتےپر مذاکرات کے لیے دوبارہ واپس لانے کے لئے عالمی طاقتوں نے جمعے کے دن ویانا میں اعلیٰ سطحی بات چیت کا چوتھا دور جاری رکھا۔ دونوں فریقوں نے آمادگی ظاہر کی ہے کہ وہ اس معاملے میں حائل اہم رکاوٹوں کودور کرنے کے خواہش مند ہیں۔

اعلی سطحی مذاکرات کا یہ سلسلہ اپریل کے اوائل میں آسٹریا میں شروع ہوا تھا۔ روسی وفد کے رکن میخائل الیانوف نے جمعے کی ملاقات کے بعدایک ٹوئیٹ میں بتایا ہے کہ ”شرکاء نے مذاکرات کے عمل کو تیز کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے”۔

انھوں نے لکھا کہ ”وفد اس بات پر تیار نظر آتا ہے کہ ہدف کے حصول تک جب تک ضروری ہوا، وہ ویانا ہی میں موجود رہیں گے”۔

سال 2018ء میں امریکہ سنہ 2015ء کے ایران کے جوہری پروگرام پر اس تاریخی معاہدے سے علیحدہ ہوگیا تھا، جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھاکہ سمجھوتے پرپھر سے بات چیت کی ضرورت ہے۔ جوہری پروگرام پرقدغنیں قبول کرنے کے عوض ایران کو معاشی مراعات کی پیش کش کی گئی تھی۔ ایران کو نئے سرے سے مذاکرات پرراضی کرنے میں ناکامی پر ٹرمپ انتظامیہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پھر سےسخت معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں۔

اس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایران نے رفتہ رفتہ اس معاہدے کی خلاف ورزیوں کی راہ اپنائی،جس معاہدے کا مقصد ایران کو نیوکلیئر ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنا تھا۔

شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ایران نے یورینئم کی افزودگی میں اضافہ کردیا، اجازت دی گئی شرح سے زیادہ یورینئم اکٹھا کرنا شروع کیا، جس کے لیے ایران نے اعلیٰ درجے کے سینٹری فیوجز کا استعمال شروع کیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ معاشی تعزیرات میں نرمی کے لیے معاہدے میں شامل عالمی طاقتوں یعنی جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس اور چین پر دباؤ ڈالا جائے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ سمجھوتے میں دوبارہ شامل ہونے کے خواہاں ہیں، جسے ‘ جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن ‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاہم، اس کے بدلے ایران کو معاہدے پرعمل درآمد پر تیار رہنا ہوگا۔

ایران اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ اس کی جوہری توانائی حاصل کرنے کی کوشش پر امن مقاصد کے لئے ہے اور اس کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ایران کا موقف ہے کہ وہ خلاف ورزیاں ختم کرنے پرتیار ہے بشرطیکہ امریکہ ٹرمپ کے دور میں عائد کردہ پابندیاں ہٹانے کا اعلان کرے۔

یہ بات ابھی حل طلب ہے کہ ایران کس طرح سے معاہدے پرعمل درآمد کرے گا۔ مثال کے طور پر ویانا مذاکرات میں موجود وفود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا کوئی طریقہ نہیں، جس سے ایرانی نیوکلیئرسائنس دانوں کے جوہری علم کی سوجھ بوجھ اور اس دسترس کوختم کیا جا سکے جو انہوں نے گزشتہ تین برس کے دوران حاصل کی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات ابھی واضح نہیں کہ آیا ایران کے نئے سینٹری فیوجزکوتباہ کیا جائے گا، بند کیا جائے گا، یا تالے لگائے جائیں گے یا پھرمحض ان سے صرف نظر کیا جائے۔

چونکہ اس وقت امریکہ معاہدے سے باہر ہے، اس لیے ویانا بات چیت میں امریکی نمائندے شامل نہیں ہیں۔ تاہم ویانا کے ایک دوسرے مقام پر ایرانی اور امریکی وفود سے مذاکرات کاروں کا الگ الگ رابطہ ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments