جارج فلائیڈ کیس، ڈیرک شاون سمیت چار سابق پولیس افسران پر نئی فرد جرم عائد


جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے وقت موقعے پر موجود چار پولیس اہلکار (بائیں سے دائیں) ڈیرک شاون، الیگزینڈر کیونگ، تھامس لین اور تو تھاو ۔ فوٹو بشکریہ ہینی پن کاونٹی شیرف آفس بذریعہ اے پی
ویب ڈیسک — امریکہ کی ایک وفاقی جیوری نے جمعے کے روز پچھلے سال مئی میں پولیس اہلکار کے شکنجے میں ہلاک ہونے والے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے قتل کے جرم میں امریکی شہر منی ایپلس کے چار سابقہ پولیس افسران کے خلاف فرد جرم عائد کی ہے۔

اس فرد جرم میں ان پر سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کو اس کے آئینی حقوق سے جان بوجھ کر محروم کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے، جب ان میں سے ایک پولیس اہلکار ڈیرک شاون نے جارج فلائیڈ کو الٹے منہ زمین پر لٹا کر ان کی گردن پر اس وقت تک ٹانگ سے دباو ڈالا، جب تک وہ ہلاک نہیں ہو گیا۔

جمعے کے روز تین الزامات پر مبنی فرد جرم میں ملزمان ڈیرک شاؤن، تھامس لین، جے کیوگ، تاؤ تھاؤ کے نام شامل ہیں۔ ڈیرک شاؤن پر، جنہیں پچھلے ماہ جارج فلائیڈ کے قتل اور غیر ارادی قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی ، اب یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے جارج فلائیڈ کی آزادی کے حق کو انہیں بے جا گرفتار کر کے اور بے جا طاقت کے استعمال کے ذریعے پامال کیا ہے۔

تھاؤ اور کیوگ پر الزامات ہیں کہ انہوں نے فلائیڈ کے آزاد رہنے کے حق کو انہیں بے جا گرفتار کر کے پامال کیا ہے، اس کے علاوہ ان پر الزام ہے کہ جب ڈیرک شاؤن نے فلائیڈ کی گردن پر ٹانگ رکھی ہوئی تھی تو انہوں نے مداخلت نہیں کی۔ تمام پولیس افسران پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے جارج فلائیڈ کو طبی امداد فراہم نہیں کی۔

اس کیس میں لین، تھاؤ اور کیوگ جمعے کے روز منی ایپلس میں واقع امریکی ڈسٹرک کورٹ میں وڈیو کانفرنس کے ذریعے پیش ہوئے، جب کہ ڈیرک شاؤن ابھی تک اس کیس میں عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ وہ اس وقت ریاستی تحویل میں رہیں گے، جب تک کہ ان پر جارج فلائیڈ کے قتل کے مقدمے میں جیل کی سزا کی مدت کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ باقی تین افسران پر ریاستی مقدمہ چل رہا ہے اور وہ ضمانت پر رہا ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس 25 مئی کو جارج فلائیڈ کی ہلاکت اس وقت ہوئی تھی، جب اسے پولیس اہل کار ڈیرک شاؤن گرفتار کر نے کے بعد قابو کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز کے مطابق پولیس آفیسر کا گھٹنہ نو منٹ تک جارج فلائیڈ کی گردن پر رہا۔

اس واقعے کی ویڈیو اردگرد کھڑے شہریوں نے بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی تھی جس کے بعد امریکہ کے کئی شہروں اور دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔

ڈیرک شاوین اور ان کے دیگر ساتھیوں کو پولیس کے محکمے نے اس واقعے کے بعد ملازمت سے برخاست کر دیا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments