سندھ کے فلاحی ہسپتال اور پرائیویٹ مافیا کے گدھ


کہتے ہیں کہ ایک شخص حامد کرزئی کے پاس پہنچا، اور فرمائش کی کہ انہیں افغانستان میں ریلوے کا وزیر لگا دیا جائے۔ کرزئی بے چارے ششدر ہو گئے۔ جواب میں کرزئی نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں ایسے ہی ریلوے کا منسٹر لگا دوں۔ بندے نے کہا کیوں نہیں لگا سکتے، کرزئی نے کہا کہ ”ہمارے یہاں ریلوے کا نظام ہی نہیں ہے تو میں کیسے تمہیں ریلوے کا وزیر لگا دوں۔“ بندے نے جواب میں کرزئی سے کہا، ”اگر پاکستان میں قانون کا وزیر ہو سکتا ہے تو افغانستان میں ریلوے کا وزیر کیوں نہیں ہو سکتا؟

یہ لطیفہ ہے یا پھر ایسا حقیقتاً ہوا تھا، نہیں معلوم لیکن اس میں حقیقت ضرور بیان کی گئی ہے۔ پاکستان میں بیک وقت نہ جانے کتنے متوازی قوانین نافذ ہیں، جن کو طاقتور حلقے جب چاہیں، جس طرح چاہیں، اپنی مرضی سے، فائدے حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں ایسا ہی ایک قانون فلاحی بہبود کا بھی ہے، اس قانون کے تحت پاکستان میں درجنوں نہیں سینکڑوں ادارے رجسٹرڈ ہیں۔ اس قانون کے تحت رجسٹرڈ ادارے لوگوں کو مفت خدمات فراہم کرنے کے پابند ہوتے ہیں، لیکن ایسے ادارے پاکستان میں صرف کاغذوں میں پابند ہیں، حقیقت میں وہ ان کے منافی ہی کام کر رہے ہیں، اور ”فلاح“ یا ”فلاحی کام“ کے نام پر یہ ایک قسم کا دھندا ہے جو زوروں شوروں سے چل رہا ہے، جو ایک بہت ہی بڑے مالیاتی سسٹم میں جا پہنچتا ہے۔

پاکستان میں متعدد ہسپتال بھی مملکت خداداد کے فلاحی قانون کے تحت رجسٹرڈ ہیں، جن میں آغا خان ہسپتال، لیاقت نیشنل، سمیت دیگر متعدد ہسپتال شامل ہیں، جو فلاحی ہسپتالوں کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ جب بھی کوئی ہسپتال ”فلاحی ہسپتال کے طور پر رجسٹرڈ ہوتی ہے، تو حکومت کی جانب سے اس کو بیرون ملک سے ادویات اور مشینری امپورٹ کرنے پر ٹیکس سے مستثنٰی قرار دیا جاتا ہے، مزید یہ کہ اس کو حکومت وقت کی جانب سے ہسپتال کے لئے زمین مفت یا پھر کوڑیوں کے دام فراہم کی جاتی ہے۔

کراچی کے دو بڑے ہسپتال آغا خان ہسپتال اور لیاقت نیشنل بھی فلاحی ہسپتالوں کے طور پر رجسٹرڈ ہیں، اور انہوں نے حکومت سے اربوں روپے کی زمین، مفت یا پھر کوڑیوں کے دام خریدی ہے، صرف اس تسلی پر کہ یہ دونوں ہسپتالوں سرکاری ہسپتالوں کی طرح ضرورتمند لوگوں کو علاج کی سہولت مفت میں فراہم کریں گے۔ لیکن آج کراچی میں ان دو ہسپتالوں سے مہنگا کوئی ہسپتال نہیں ہے، کیونکہ ان دونوں ہسپتالوں کو بطور کمرشل ہاسپیٹل استعمال کیا جاتا ہے، کاغذات میں فلاحی ہونا ایک قسم کا ڈھکوسلہ ہے، جس کے تحت یہ دونوں ہسپتال بھاری اور مہنگی ترین مشینری اور ادویات ٹیکس ادا کیے بغیر منگوانے کی سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور پھر اس مشینری سے ہونے والے علاج اور مہنگی ادویات لوگوں کو بشمول ٹیکس فروخت کر کے منافع کمایا جاتا ہے۔

نہ صرف آغا خان ہسپتال اور لیاقت نیشنل ہسپتال بلکہ کراچی کی دیگر مشہور ہسپتال پٹیل ہاسپیٹل، میمن ہاسپیٹل، ٹبا ہاسپیٹل، مرشد ہاسپیٹل مواچھ گوٹھ اور دیگر متعدد ہسپتال بھی فلاحی ہسپتالوں کے طور پر ہی رجسٹرڈ ہیں۔ یہاں مفت علاج تو دور کی بات، علاج کے لئے آنے والے پریشان حال لوگوں کو علاج کے لئے اپنا سب کچھ نیلام کرنا پڑتا ہے۔ یہ وہی ہسپتال ہیں، جو لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں، ہر سال یہ ہسپتال، جو پیسوں کے بدلے علاج کی سہولیات فراہم کرتے ہیں، ماہ رمضان میں مارکیٹ میں اترتی ہیں، تاکہ عوام کو صدقہ، فطرہ اور زکواۃ کے نام پر مزید لوٹا جا سکے۔

آپ کو کراچی شہر کے مختلف راستوں، چوراہوں پر ایسے بینر آویزاں ملیں گے، جن میں یہ کمرشل ہسپتال لوگوں سے خیرات مانگتی نظر آتی ہیں کہ یہ لوگوں کو مفت علاج کی سہولیات فراہم کریں گے، جو ایک خالص دھوکہ ہے، کیونکہ یہ ہسپتال اب کمرشل ہسپتالوں میں بدل چکی ہیں۔ جو پیسے بھرے گا، صرف اس کا علاج ہوگا، جو نہیں بھر سکے گا، وہ بے شک موت کے منہ میں چلا جائے، ان ہسپتالوں کی انتظامیہ کے ماتھے پر ایک شکن بھی نہیں پڑنی۔ صرف اکا دکا مریض، جن کا بل لاکھوں میں ہوتا ہے، ان کو دو چار ہزار روپے معاف کرتے ہوئے اس کو ”مریض کو دی جانے والی مراعات“ کا نام دیا جاتا ہے، تاکہ فلاحی ہسپتال ہونے کا بھرم باقی رہ سکے۔

دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا یہ ہسپتال صدقے، فطرانے اور خیرات کی مستحق ہیں؟ آغا خان ہسپتال اور لیاقت نیشنل ہسپتال کو حکومت سندھ کی جانب سے اربوں روپے کے زمین مفت میں یا پھر کوڑیوں کے دام دے دی گئی ہے، یہ ہسپتال فلاحی تو دور کی بات لوگوں کو مناسب قیمت پر بھی علاج کی سہولت فراہم کرنے سے گریزاں ہیں، ان کا کام علاج کے نام پر مریضوں کی کھال اتارنا ہی رہ گیا ہے۔

کیا عوام کو ایسے فراڈ ہسپتالوں کو زکواۃ، فطرہ اور صدقات و خیرات دینا چاہیے؟ کیا یہ ہسپتال اس کے مستحق ہیں؟ یہ سوال اپنے آپ سے ضرور کیجئے گا۔

اب آتے تصویر کے دوسرے رخ کی طرف، یہاں ایس آئی یو ٹی، یعنی سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ، انڈس ہاسپیٹل، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیووسکیولر ڈزیز ( این آئی سی وی ڈی) ، گمبٹ میڈیکل سینٹر جیسے ہسپتال ہیں، ان کی خدمات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں، اور بغیر کسی معاوضے کے لوگوں کو علاج کی تمام سہولیات مفت میں فراہم کرتے ہیں۔

ایس آئی یو ٹی اور این آئی سی وی ڈی کے لئے تو یہ بھی مشہور ہے کہ یہ دونوں ہسپتال، جو علاج لوگوں کو لاکھوں میں پڑتا ہے، وہ مفت میں فراہم کرتے ہیں، نہ صرف علاج، ادویات اور دیگر سہولیات بھی ان اداروں میں مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

این آئی سی وی ڈی کا نام تو دنیا کے بڑے بڑے نیٹ ورکس میں آنے لگا ہے، جس نے دل کی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو ان کے ہی علاقوں میں علاج کی مفت سہولیات فراہم کرنے کے لئے یونٹ کھول رکھے ہیں۔ اگر آپ کے پاس دل کی کسی بھی بیماری میں مبتلا کوئی بھی مریض ہے تو آپ اس کا کراچی یا کسی بھی دوسرے نجی ہسپتال میں داخلہ کروائیں، اور نہیں تو کم سے کم وہ آپ سے پیشگی دس لاکھ روپے پیشگی ڈپازٹ کروانے کا بولیں گے اور بعد میں علاج شروع کریں گے۔

وہی سہولتیں این آئی سی وی ڈی میں مفت فراہم کی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور بلوچستان سے لاکھوں مریض روزانہ این آئی سی وی ڈی کے کسی نہ کسی یونٹ میں آ کر اینجیوگرافی، اینجیو پلاسٹی یا پھر بائی پاس کروانے کے لئے داخلہ لیتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ این آئی سی وی ڈی ہیلتھ نیٹ ورک پرائمری اینجیو پلاسٹی کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا سینٹر مانا جاتا ہے، جہاں دل کا دورہ پڑنے کا بروقت علاج کر کے مریض کی جان بچائی جاتی ہے۔

این آئی سی وی ڈی ایک ایسی فلاحی ہسپتال ہے، جو پورے پاکستان کے لاکھوں لوگوں کو بلا تفریق لاکھوں روپے کے علاج کی سہولیات مفت میں فراہم کرتی ہے۔ مفت علاج کرنے والے اس خیراتی نیٹ ورک میں 10 ہسپتال اور 21 چیسٹ یونٹ ہیں، جو شبانہ روز عوام الناس کو مفت میں صحت کی سہولیات فراہم کرتے رہتے ہیں۔ ایک محتاط سروے کے مطابق سال 2019۔ 2020 میں یہ این آئی سی وی ڈی 38 لاکھ دل کے مریضوں کو علاج کی سہولیات مفت میں فراہم کیں، اسی طرح ایس آئی یو ٹی بھی گردوں کے مرض میں مبتلا لاکھوں لوگوں کو مفت میں علاج کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔

پاکستان کے فلاحی اداروں میں ایس آئی یو ٹی ایک نمایاں نام ہے، پچاس برس پہلے آٹھ بستروں پر مشتمل یہ وارڈ آج آٹھ سؤ بستروں سے بھی زائد پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے سنہ 1972 میں ایس آئی یو ٹی کا آغاز کیا، اور یہاں پر سالانہ دس لاکھ سے زائد مریضوں کو علاج کی سہولیات مفت میں فراہم کی جاتی ہیں۔ یہاں نہ صرف گردوں اور مثانے کی پتھری کا بلکہ کینسر کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔

اس وقت ایس آئی یو ٹی، این آئی سی وی ڈی، انڈس ہسپتال صحت کی سہولیات کے حوالے سے لوگوں کے لئے بہت بڑی تسلی ہیں، کورونا کی موجودہ وبائی صورتحال میں، جب لوگوں ہسپتالوں کو اہمیت کا اندازہ ہوا ہے اور اس ماہ رمضان میں جب عوام الناس خیراتی اداروں کی معاونت کے لئے آگے آنا شروع ہوئے ہیں، تب فلاحی ہسپتالوں کے نام پر رجسٹرڈ آغا خان ہاسپیٹل، لیاقت نیشنل ہاسپیٹل، پٹیل ہاسپیٹل، میمن ہاسپیٹل، ٹبا ہاسپیٹل جیسے ادارے بھی میدان میں اترے ہیں کہ ان کو بھی خیرات دی جائی، حالانکہ یہی ہسپتال عوام الناس کی کھال اتارنے میں کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں، اور یہ پیشگی لوگوں سے رقوم ہتھیا کر ساہوکار ترین ہسپتالوں میں گنے جاتے ہیں، تاہم، اب ان کی نظر ایس آئی یو ٹی، این آئی سی وی ڈی، انڈس ہسپتال اور گمبٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ جیسے اداروں میں ملنے والی زکوۃ اور فطرانے پر ہے کہ کسی بھی طریقے سے وہ رقم بھی ہڑپ کی جا سکے۔ اور لوگوں کو مفت میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے والوں اداروں کو کسی بھی طریقے سے مالی بحران میں دھکیلا جا سکے، تاکہ وہ ہسپتالوں کے نام پر اپنے ادارے چلا سکیں۔

مضمون نگار سب کے سامنے یک گزارش رکھے گا کہ اپنی امداد ان اداروں کو دیں، جو غریبوں اور بے سہارا لوگوں کو علاج کی مناسب سہولتیں فراہم کر رہے ہی آئیے، ہم سب مل کر اپن سوجھ بوجھ سے اپنے ادارے بنائیں اور ان کو مضبوط کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments