بنا عروج کے زوال کا سفر


سن 1889 میں ایک امریکی بزنس مین جارج ایسٹ مین نے کوڈک کمپنی کی بنیاد رکھی۔ 1970 کی دہائی تک کوڈک فوٹوگرافی کی صنعت میں ایک لینڈ مارک بن چکی تھی۔ 1963 میں ایک ارب ڈالر کا بزنس کرنے والی کمپنی کے پاس نوے کی دہائی کے آخر میں عالمی بزنس کا 85 فیصد شیئر تھا۔ پھر اچانک یہ کمپنی تیزی سے زوال پذیر ہونا شروع ہو گئی اور 2012 میں کمپنی نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا کیا۔ کوڈک جیسی کمپنی نے ایسی کون سی غلطی کی کہ چند سالوں میں ہی بند ہو گئی؟

ہوا کچھ یوں کہ جیسے جیسے ٹیکنالوجی نے ترقی کی عام کیمروں کی جگہ ڈیجیٹل کیمروں نے لے لی۔ تاہم کوڈک نے ڈیجیٹل کیمرے کی صلاحیتوں کو مسترد کر دیا۔ کیونکہ اس وقت فلموں اور کاغذات کا کاروبار بہت زیادہ منافع بخش تھا۔ ڈیجیٹل کیمرے کا موجد ”اسٹیو ساسن“ کوڈک میں بجلی کا انجینئر تھا۔ جب اسٹیو نے کوڈک کے مالکوں کو اپنی ایجاد کے بارے میں بتایا تو ان کا جواب تھا، ”یہ بہت اچھا ہے، لیکن کسی کو اس کے بارے میں مت بتانا۔”

کوڈک کی یہ پہلی غلطی تھی۔ نئی ٹیکنالوجی سے لاعلمی اور بدلتی ہوئی مارکیٹ کے ٹرینڈز کے مطابق نہ ڈھلنے سے کوڈک کے زوال کا آغاز ہوا۔ اس خیال پر تب ایک جاپانی کمپنی ’فیوجی فلمز‘ نے بڑے پیمانے پر عمل درآمد کیا اور جلد ہی بہت سی دوسری کمپنیوں نے کوڈک کو ریس میں پیچھے چھوڑ دیا۔ اور وہ ہی جاپان اب ترقی کی دوڑ میں بڑے بڑے شاہ سواروں کو پچھاڑ چکا ہے۔ قدرت کا یہ لازوال اور ابدی قانون ہے کہ جو لوگ وقت کے ساتھ اپنے آپ کو اپ گریڈ نہیں کرتے قسمت ان کا ساتھ نہیں دیتی اور وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔

سورہ شمس میں اللہ تعالی یہ قانون بڑی وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو اپنے آپ کو ”پیوریفائ“ کرتے رہیں گے۔ وقت کے ساتھ اپنے آپ کو ”پیوریفائی اور اپ گریڈ“ کرنے میں ہی کامیابی ہے۔ کوڈک کمپنی نے وقت کے ساتھ اپنے آپ کو تبدیل نہیں کیا اور وہ ناکام ہو گئی۔ اس تیزی سے بڑھتی ہوئی دنیا میں کاروبار یا کیریئر ہر میدان میں تبدیلی جاری ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑی تبدیلیاں اور نئے منصوبے دنیا میں رونما اور متعارف ہو رہے ہیں۔

ٹیکنالوجی کے حساب سے دنیا واضح طور پر پسماندہ اور ترقی یافتہ ملکوں میں منقسم ہو چکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ​​اپنے سائنس دانوں اور انجینئروں کو تیزی سے معاشی نمو کے لئے استعمال کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جبکہ ترقی کی خواہش سے بھی عاری ترقی پذیر ممالک زیادہ تر اپنی ضروریات کے لئے جدید ترین ممالک پر ہی انحصار کر رہے ہیں۔ چاہے وہ کیمیکل، دوا ساز، انجینئرنگ سامان، نقل و حمل کے ساز و سامان، یا دفاعی سامان ہوں۔

نتیجتاً ترقی یافتہ ممالک مزید ترقی کر رہے ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں غربت کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ریسرچ اور ٹیکنالوجی کی کمی کو ہمیشہ فنڈز کی عدم دستیابی اور مناسب سہولیات کے فقدان سے جوڑنے کی بھونڈی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ کسی حد تک تو اس میں سچائی ہو سکتی ہے لیکن اس گھسے پٹے نظام تعلیم کو کیوں نہ دوش دیں جو تحقیق اور سائنسی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کے نام پر ایک درجہ بندی نظام موجود ہے، جو گھر، اسکول، کالج، یونیورسٹی اور کام کی جگہ اور معاشرے کی ہر سطح پر کام کرتا ہے۔

ریسرچ کا خمیر ”کرٹیکل تھنکنگ“ سے اٹھتا ہے۔ لیکن ہمارے سکولوں سے لے کر یونیورسٹیز تک طلبا میں کتنی آزادانہ اور غور و فکر کرنے کی سوچ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے؟ آج کا دور محض چودہ یا سولہ جماعتیں پڑھ کر نوکری یا کاروبار کرنے کا نہیں بلکہ تحقیق، ٹیکنالوجی اور اکیسویں صدی کی مہارتوں سے لیس ہو کر دنیا کے چیلنجز سے مقابلہ کرنے کا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں سکولز اور کالجز کیا، یونیورسٹیز تک کا % 90 سے زائد نصاب فرسودہ ہے۔

جس کی عملی زندگی میں کوئی افادیت نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کی سطح تک تحقیق کا معیار کیا ہے اس کا اندازہ سالانہ چھپنے والے تحقیقاتی مقالوں اور جرنلز سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں فارغ التحصیل پی ایچ ڈیز اور ایم فلز ریسرچ کی بنیاد پر پاکستان کے لئے کتنے ”فعال“ ثابت ہو رہے ہیں۔ اس کو بھی دنیا کے ترقی کے انڈیکس پر جانچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہمارے یہ پڑھے لکھے نوجوان بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں نوکری تلاش کر کے صرف اپنی نشستوں پر مضبوطی سے بیٹھنا ہے اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی پروفیسر اور محکموں کے سربراہ بن جاتے ہیں۔

پاکستان میں ہر ادوار میں حکومتوں کی غیر سنجیدگی، منصوبہ سازوں کی لاپرواہی اور ناقص وژن کی وجہ سے ریسرچ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے کو کبھی بھی یہ درجہ نہیں دیا گیا کہ اسے قومی اور معاشی نمو میں معاون کے طور پر موثر انداز میں استعمال کیا جاسکے۔ حکومت کی طرف سے فراہم کردہ تشویشناک حد تک معمولی سرمائے کی وجہ سے ہمارے تحقیقی اور سائنسی ادارے کبھی کوئی قابل قدر تحقیق پیش نہیں کرسکے۔ یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں تحقیق کے لئے مناسب سہولیات اور ماحول کی کمی کی وجہ سے اعلی تعلیم کے معیار میں خطرناک حد تک بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔

دنیا اس سیارے کو مسخر کرنے کے بعد دوسرے سیاروں کے سفر پر نکل چکی ہے اور ہمارے ہاں محکمہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ابھی ”منرل واٹر“ سے شروع ہو کر ”عید کا چاند“ دیکھنے کا سفر طے کرتے ہوئے ”وینٹیلڑز“ کی ”فعالیت“ کی ”بحث“ میں الجھا ہوا ہے۔ لیکن اس میں بھی کریڈٹ بلاشبہ فواد چوہدری صاحب کو جاتا ہے کہ اپنی ”مشہوری“ کے لئے ہی سہی انہوں نے سالہا سال سے ”ہائبرنیٹ“ اس وزارت کو آخر جگایا تو سہی۔ اب اسے خوش قسمتی کہہ لیں یا بد قسمتی۔

افریقی اور ایشیائی ممالک کے پاس بڑی آبادی ہے اور ان کے وسائل کو دولت میں تبدیل کرنا ہی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لئے تیسری دنیا بشمول پاکستان اپنے نوجوانوں کو ایک جدت پسند تعلیمی ماحول سے روشناس کرانا ہوگا جو انہیں مشکل مسائل کے حل کے لئے سوچنے اور کھوج لگانے کی تعلیم دے۔ ترقی کا دوسرا اہم پہلو علوم میں اعلی سطح کی مہارت پیدا کرنا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کو عالمی معیار کے محققین اور مناسب تحقیقی سہولیات کی فراہمی کے ذریعے اپنی یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز کو بین الاقوامی سطح پر ہم آہنگی کی سطح تک اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔

تحقیقی مباحثوں کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ ہر تعلیمی سطح پر مختلف عنوانات پر سیمینار اور مباحثے کا اہتمام کیا جائے۔ مختلف گروہ آزادانہ طور پر مختلف نقطہ نظر پر تبادلہ خیال کریں تبھی سوچ میں بھی پختگی اور جدت آتی ہے۔ جب تک ہم اپنے تعلیمی اداروں میں ایسا ماحول پیدا نہ کریں جو آزادانہ نظریات کے تبادلے کے لئے موزوں ہو، ہم معنی خیز تحقیق نہیں کر سکتے۔ اگر ہم دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ خود کو اپ ڈیٹ ”اور“ اپ گریڈ ”نہیں کریں گے تو یقیناً ہم بھی“ کوڈک ”کی طرح ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ یاد رہے کوڈک نے ایک صدی کے عروج کے بعد زوال دیکھا تھا۔ اور ہم ابھی تک بنا عروج کے ہی زوال کے سفر میں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments