عشق ناتمام


میں نے سوچا تھا کہ شاید وقت سب کچھ مٹا دیتا ہے۔ مگر میری جان یہ تو ہر گزرتے لمحے نقش کو مزید گہرا کرتا جا رہا ہے۔ میں نے کبھی بھی قصدا تمھارے بارے میں نہیں سوچا مگر ہر تھوڑے عرصے بعد کہیں سے بھٹکتی ہوئی تم خواب میں آ جاتی ہو۔ یقین مانو ایسا لگتا ہے کہ خواب اصل ہے اور یہ جاگنا سیراب۔

کل بھی یہی ہوا۔ بالکل وہی احساس۔ وہی آسودگی جو تمھارے پاس بیٹھنے سے ملتی تھی۔ یہ صدیوں کی جدائی معدوم ہو جاتی ہے۔ وہی چہرہ، وہی آنکھوں میں چمک جو میرے لئے مخصوص تھی۔ اب کی بار بے تابانہ ملی تو تمھاری پیشانی کی ٹھنڈک میں نے اپنے ہونٹوں پر محسوس کی۔ میری جان! اس طرح یاد آؤ گی۔ اس طرح ستاؤ گی۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ تم مجھے روکتی رہی۔ تمھارا مجھے سمجھانا اب سمجھ آ تا ہے۔ تمھاری آنکھوں کی التجا کا مفہوم ہر گزرتے سال کے ساتھ واضح ہوتا جا رہا ہے۔ یہ چند لمحوں کے خواب مجھے کتنے ہی دن بے قرار رکھتے ہیں۔ اگلا دن بہت بھاری ہوتا ہے۔ دل خوش فہمیاں بنتا ہے کہ شاید۔ شاید تم بھی یاد کرتی ہو۔ مگر پھر خود اپنا مذاق اڑا کر چپ ہو جاتا ہوں۔

میری جان! کبھی فاریسٹ گمپ دیکھنا۔ اس میں ”فاریسٹ“ تین سال تک بھاگتا رہتا ہے اور ”جینی“ اسے ہر منظر میں نظر آتی ہے، ہر سانس میں اپنے ساتھ محسوس ہوتی ہے۔ مجھے بھی اپنا آپ فاریسٹ میں نظر آ تا ہے۔ ہر سفر میں، ہر منظر میں، میں تمھیں محسوس کرتا ہوں۔ موٹر وے پر سالٹ رینج کراس کرتے ہوئے، شام کے منظر میں، چمکتے ہوئے زہرہ کو دیکھ کر۔ ہر لمحے کو میں اپنا اپ تمھارے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ کسی بھی پہاڑی موڑ پر، یا کسی ندی کی پلی پر ٹانگیں لٹکائے چپ چاپ بیٹھے ہیں۔

سمندر کنارے جا کے اضطراب بڑھ جاتا ہے۔ پاؤں لہروں میں بھیگتے ہیں۔ تو نگاہیں سمندر پار کسی کے گیلے پاؤں کو دیکھ لیتی ہیں۔ ہمارے بیچ سمندر حائل ہے وقت کا۔ فاصلے کا۔ یہ زمان و مکاں کے فاصلے بہت جان گسل ہیں میری جان۔ بہت جان گسل ہیں۔ میں بھاگ بھاگ کر تھک گیا ہوں جینی۔ فاریسٹ بالآخر بولا۔ میں بھی تھک گیا ہوں میری جان۔ بہت تھک گیا ہوں۔

تمھیں معلوم ہے میری جان، میں اس رات بالکل نہیں سویا تھا۔ مصلے میں سجدہ گاہ بھیگ گئی تھی۔ رب سے مانگتا بھی تو کیا مانگتا۔ پورے جسم میں سوئیاں چبھ رہی تھیں۔ اضطراب تھا کہ حد برداشت کو توڑے جا رہا تھا۔ لمبی رات کسے کہتے ہیں کوی مجھ سے پوچھے۔ سورج کس درد سے طلوع ہوا میں ہی جانتا ہوں۔ وہ صبح، صبح نہیں تھی شام غم تھی۔ سوجی ہوئی خشک آنکھیں اس جگہ کا طواف کرتی رہیں جہاں تم بیٹھا کرتی تھی، میرا انتظار کرتی تھی۔ وقت گزر گیا میری جان۔ کیسے گزرا۔ یہ مت پوچھو۔

پہلی دفعہ خواب میں تمھیں اپنی گلی میں پریشان حال دیکھا۔ زرد چہرہ، گرد آلود بال۔ تم نے اچھا نہیں کیا۔ تمھاری زبان پر ایک ہی فقرہ تھا۔ میں یکلخت اٹھ بیٹھا۔ اک گرم آنسو تکیے میں جذب ہو گیا۔ کیا سناؤں۔ کیا کیا سناؤں۔ میری جان ہم پے جو گزری شب ہجراں میں۔ یاد ہے لاہور ریلوے اسٹیشن پر پیدل چلنے والوں کے لیے وہی پل، جو شاد باغ کی طرف اترتا ہے۔ ایک بار تمھیں اس پل پر دیکھا۔ نحیف و کمزور۔ وہی گلہ زبان پر۔

تمھیں بازوؤں پر اٹھا لیتا ہوں۔ اور تم اپنے بازوؤں کا گھیرا میری گردن کے گرد ڈالے ٹکٹکی باندھے دیکھی جا رہی ہو۔ میں شاد باغ کی طرف چل پڑتا ہوں۔ درد سے آ نکھ کھل گئی۔ زندگی اصل سے سیراب میں آ گئی۔ اک اور آنسو تکیے میں جذب ہو گیا۔ اگلا دن بہت بھاری تھا۔ آفس میں گم سم رہا۔ مشینیں گونگی لگ رہی تھیں۔ شاد باغ چلا گیا۔ ”مرشد! بہت پیڑ اے“ ۔ ”مرشد! کوی چارہ“ ۔ یہ خواب ہیں کہ سزا۔ یہ لا شعور کا ماتم ہے یا جدائی کا نوحہ۔ مرشد! یہ کیا ہے؟ مرشد کا جواب سنا اور ہنستا ہوا چلا آ یا۔

بال سفید ہو چلے، کتنے موسم بیت گئے۔ کتنے گل نستر کھلتے ہوئے دیکھ لیے۔ کتنے زرد پتوں پر اکیلا چلتا رہا۔ میری زندگی میں کبھی معجزہ نہیں ہوا اور نہ آ گے کبھی ہو گا کہ تمھیں کبھی دوبارہ دیکھ پاؤں۔ یہ یقین ہے مجھے۔ نہ تمھیں پہلے کبھی چھوا نہ اب بھی کوی چاہت ہے۔ مگر ہم دونوں زمان و مکان کے اس دھارے پر ملے جو صرف ایک دفعہ ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے چلے گئے۔ یہ لا متناہی دھارے کبھی بھی دوبارہ نہیں ملیں گے۔ ہمارا ملنا ان دو دھاروں کے متوازی چلنے جیسا بھی نہیں تھا کہ ساتھ ساتھ چلتے۔ نہ بل کھاتے ہوئے دو رنگی دھاگوں جیسے دھاروں جیسا کہ جنم جنم کے ساتھی ہوتے۔ ہم بس اس محدود نکتہ پر ملے جو زمان و مکان کے پیمانے پر تو محدود تھا مگر حاصل میں زندگی بھر پر محیط۔

لیکن میری جان! میں بد نصیب نہیں ہوں۔ مجھے جو لا محدود ملا ہے اسی محدود نکتہ اتصال کی بدولت ملا ہے۔ اور یقین مانو زمان و مکان کے اس ٹکڑے پر صرف ہم دونوں ہیں۔ اور یہی میرا اثاثہ ہے۔ وقت کے دھارے کو نہ میں موڑ سکتا ہوں نہ تم۔

سوار برق عمرم، نیست برگشتن عنانم را
مگر نام تو گیرم، تا بہ گرداند زبانم را

میں برق عمر کا سوار ہوں، باگ کا پھرنا تو (ممکن) نہیں ہے مگر میں تیرا نام لیتا ہوں تاکہ (باگ نہ سہی تو کم از کم) میری زبان ہی پھر سکے

ظہیر الحسن چوہدری
Latest posts by ظہیر الحسن چوہدری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments