سرکاری نرخـوں پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی: بلوچستان، سندھ کی کارکردگی سب سے بُری، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صورتحال قدرے بہتر

تنویر ملک - صحافی، کراچی


پاکستان

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ناظم آباد میں واقع گول مارکیٹ میں سبزی، پھل، اناج، دودھ اور گوشت کی دکانوں میں دن اور شام کے اوقات میں کافی رش رہتا ہے۔ گول مارکیٹ سے ملحق آبادی میں رہائش پذیر اسرار عباسی کھانے پینے کی اشیا اسی مارکیٹ سے خریدتے ہیں۔

اسرار عباسی نے اس مارکیٹ میں دکانوں پر اشیائے خورد نوش کے سرکاری نرخوں کی لسٹ شاذ ہی دیکھی ہے۔ ان کے مطابق دکاندار گوشت، دودھ، سبزی، پھل اور دوسری چیزیں سرکاری نرخوں کی بجائے اپنے من مانے نرخوں پر ہی فروخت کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ایک آدھ مرتبہ انھوں نے دکاندار سے سرکاری ریٹ پر چیز فروخت کرنے کے لیے کہا تو دکاندار نے جواب دیا کہ انھیں منڈی سے ہی چیزیں مہنگی ملتی ہے تو وہ کیسے کم قیمت پر فروخت کر سکتے ہیں؟

کمشنر کراچی کی جانب سے سرکاری نرخ کے مطابق دودھ کی ریٹیل قیمت 94 روپے فی لیٹر ہے اور پھلوں میں تربوز کی قیمت سرکاری نرخ کے مطابق 33 روپے فی کلو ہے۔ اسرار کے مطابق وہ دودھ 110 روپے فی کلو خرید رہے ہیں اور تربوز ساٹھ روپے فی کلو کے حساب سے۔

ناظم آباد کے رہائشی اسرار عباسی سرکاری نرخوں کی بجائے زیادہ قیمت پر اشیائے خوردو نوش خریدنے والے اکیلے فرد نہیں بلکہ پورے ملک میں سرکاری نرخوں اور چیزوں کی اصل قیمت میں تضاد پایا جاتا ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ اشیائے ضروریہ (خاص کر کھانے پینے کی چیزوں) کی سرکاری نرخوں پر دستیابی یقینی بنانے میں صوبہ سندھ اور بلوچستان بُری طرح ناکام ہوئے ہیں جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صورتحال ان دونوں صوبوں کی نسبت قدرے بہتر ہے۔

یاد رہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان میں مہنگائی جانچنے کا نظام صحیح ہے؟

کیا پاکستان میں مہنگائی کی وجہ ’کارٹلائزیشن‘ ہے؟

’منافع خوری کا راز سمجھنا ہے تو کولڈ سٹوریج کا مالک تلاش کرو بابو جی‘

سرکاری ادارے محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق سندھ اور بلوچستان میں اشیائے خورد و نوش کی سرکاری قیمتوں اور منڈی کی قیمتوں میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے جب کہ ان دو صوبوں کے مقابلے میں پنجاب، خیبر پختونخوا اور وفاقی دارالحکومت میں یہ فرق ان دو صوبوں کے مقابلے میں کم ہے۔

ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سرکاری نرخوں اور منڈی کی قیمتوں میں فرق سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے جہاں یہ فرق 42 فیصد تک ہے جبکہ سندھ میں 40 فیصد۔ پنجاب میں قیمتوں میں یہ فرق 31 فیصد تک ہے جبکہ اسلام آباد میں 18 فیصد اور خیبر پختونخوا میں 17 فیصد تک ہے۔

ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں سرکاری قیمتوں اور منڈی کے ریٹس میں فرق کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ کچھ علاقوں میں سرکاری قیمتوں اور منڈی کی قیمتوں میں بہت زیادہ فرق ہے تو کہیں کم۔

پاکستان

اشیائے خورد نوش کی قیمتیں سرکاری سطح پر مقرر ہونی چاہییں یا ان کا تعین منڈی کے رسد و طلب کے اصول کے تحت ہونا چاہیے؟ اس کے بارے میں ماہرین معیشت، تجارت کے شعبے سے وابستہ افراد اور صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد مختلف نکتہ نظر رکھتے ہیں۔

اگر پاکستان میں کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں کو دیکھا جائے تو سرکاری سطح پر جاری ہونے والے نرخوں پر ان چیزوں کی فراہمی بہت کم دکھائی دیتی ہے اور ان نرخوں سے زیادہ قیمتوں پر یہ چیزیں فروخت ہوتی ہیں۔

صوبہ سندھ اور بلوچستان سرکاری نرخوں پر اشیا کی دستیابی میں سب سے پیچھے

سندھ کی بات کی جائے تو کراچی، سکھر، حیدرآباد اور بلوچستان میں خضدار میں سرکاری نرخوں اور منڈی کی قیمتوں میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے جبکہ پنجاب میں بہاولپور اور سیالکوٹ میں یہ فرق سب سے کم ہے۔

پاکستان میں پائیدار ترقی سے متعلق کام کرنے والے ادارے (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری نرخوں اور منڈی کی قیمتوں میں فرق بین الصوبائی سے زیادہ بین الاضلاعی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ ہے کہ جس ضلع کی انتظامیہ یعنی ڈپٹی کمشنر زیادہ فعال ہیں وہاں سرکاری نرخوں پر عملدرآمد زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے مطابق سرکاری نرخوں پر عمل درآمد چھوٹے اضلاع میں زیادہ ملے گا اور بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ وغیرہ میں اس پر کم عمل درآمد ہوتا ہے جس کی وجہ اس کی آبادی کا سائز اور ضلعی انتظامیہ کے کندھوں پر دوسری بہت ساری ذمہ داریاں ہیں۔

کیا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے سرکاری نرخ جاری کرنے کا نظام صحیح ہے؟

پاکستان

پاکستان میں اضلاع کی انتظامیہ کی جانب سے اشیائے خوردو نوش کے سرکاری نرخ جاری کیے جاتے ہیں اور قانون کے تحت دکاندار سرکاری لسٹوں کو اپنی دکان پر آویزاں کرنے کے پابند بھی ہیں، تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔

چیئرمین کنزیومر رائٹس پروٹیکشن کونسل آف پاکستان شکیل بیگ نے کہا سرکاری نرخوں پر چیزوں کی دستیابی پاکستان میں مشکل سے ہی کہیں ملے گی۔ انھوں نے بتایا کہ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے نمائندے کے طور پر وہ ان سرکاری اجلاسوں کا حصہ ہوتے ہیں جہاں قیمتیں مقرر کی جاتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ تاجر تنظمیوں کے نمائندے بھی ان میں شریک ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب انھوں نے آخری دو، تین اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا کیونکہ ضلعی انتظامیہ نرخ تو جاری کر دیتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد کروانے سے قاصر ہے۔

ان کے مطابق بکرے کی گوشت کی قیمت کراچی کی انتظامیہ نے 780 روپے فی کلو مقرر کی ہوئی ہے لیکن اس نرخ پر کہیں بھی گوشت نہیں ملتا اور اس کی بازار میں قیمت 1300 روپے فی کلو ہے۔ ان کے مطابق سرکاری نرخوں کے تعین کا نظام صحیح ہے کیونکہ اس میں تاجروں اور صارفین کے نمائندوں کے ساتھ سرکاری اہکار بھی بیٹھتے ہیں۔

آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے اشیائے خوردو نوش کے لیے سرکاری نرخوں کے انتظام کو غیر موثر قرار دیا اور کہا یہ نظام غیر مفید ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ نرخ ریٹیل پر فروخت کے لیے نکالے جاتے ہیں اور ان کے نفاذ کے لیے سرکاری اہکار ایک چھوٹے ریٹیلر کو پکڑتے ہیں۔

عتیق نے کہا اصل مسئلہ چیزوں کی رسد و طلب کا ہے۔ دکاندار اگر ایک چیز مہنگی خرید رہا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ سستی بیچے۔ ‘حکومت نے کبھی سپلائر اور مڈل مینوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جو اصل میں قمیتوں میں اضافے کی وجہ ہیں۔’

انھوں نے تسلیم کیا کہ دکاندار بھی ناجائز منافع خوری کرتے ہوں گے تاہم ان کے مطابق یہ رجحان رمضان سے پہلے یا اس کے شروع میں نظر آتا ہے۔ میر نے قیمتوں کو رسد و طلب سے جوڑتے ہوئے کہا کہ معیشت کا یہی اصول یہاں بھی کارفرما ہوتا ہے

سرکاری نرخوں کے تعین کا نظام کیوں ناکام ہوا ہے؟

پاکستان

کراچی میں فوجی صدر پرویز مشرف کے تقسیم اختیارات کے نظام کے تحت بننے والی شہر کی ضلعی حکومت کے دور میں قصابوں نے بکرے کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ کر دیا تھا۔ شہری حکومت کے ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ آفیسر رئیس الدین پراچہ نے گوشت کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے سرکاری سلاٹر ہاؤس میں سینکڑوں بکروں کو ذبح کر کے انھیں سرکاری نرخوں میں شہریوں کو فراہم کیا۔

رئیس پراچہ بتاتے ہیں دو دن میں شہر کے قصابوں نے گوشت کی قیمت کم کر کے اسے سرکاری نرخوں پر بیچنا شروع کر دیا تھا۔ رئیس پراچہ نے سوال کیا اس طریقے کے ذریعے ایک آدھ بار تو قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے تاہم کیا پھل، سبزی، گوشت اور دوسری اشیائے خوردونوش کی سرکاری نرخوں پر فروخت ایسے انتظامی طریقوں سے ممکن بنائی جا سکتی ہے؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ قیمتوں کو کبھی بھی انتظامی حربوں سے قابو میں نہیں لایا جا سکتا۔

انھوں نے کہا یہ پالیسی کے ذریعے قابو میں لائی جاتی ہیں ناکہ ڈنڈے کے زور پر۔انھوں نے مارکیٹ کے اصول یعنی رسد و طلب کو قیمتوں میں کمی یا اضافے کی وجہ قرار دیا۔

ماہر معیشت اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس سلسلے میں کہا موجودہ قیمتیں تعین کرنے کا نظام ناکام ہو چکا ہے۔ انھوں نے کہا جس طرح یہ قیمتیں مقرر کی جاتی ہیں اس میں چھوٹے دکانداروں کو ہی ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اصل مسئلہ اس سے پیچھے آڑھتیوں، ذخیرہ اندوزوں اور فیکٹری والوں کا ہے جہاں سے سپلائی کنٹرول کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر پاشا نے کہا اس نظام کے تحت ایک ڈپٹی کمشنر کے پاس کیا اختیار ہے کہ وہ بڑے بڑے مافیاز کے خلاف کوئی کاروائی کر سکے۔ انھوں نے کہا اب ملک میں تجارتی شعبے میں اجارہ داریاں بڑھ چکی ہیں اور ان کے خلاف ایکشن لینا ایک ضلعی انتظامیہ کے افسر کے بس کی بات نہیں ہے جو مارکیٹ میں قیمتوں میں تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ڈاکٹر سلہری نے اس سلسلے میں کہا اصل مسئلہ قیمتوں کے نرخ جاری کرنا نہیں ہے بلکہ اس پر عمل درآمد کروانا ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ اگر دکاندار سرکاری نرخ پر چیزیں بیچنا بھی شروع کر دے تو پھر بھی وہ گاہگ کا استحصال کر سکتا ہے کیونکہ سرکاری نرخوں میں چیزوں کے درجہ اول، دوم ، سوئم لکھے ہوتے ہیں جس کے تحت وہ گاہک کا استحصال کر سکتا ہے۔

سرکاری نرخوں میں عمل درآمد کے لیے موجودہ اور سابقہ نظام میں کیا فرق ہے؟

پاکستان

سرکاری نرخوں پر اشیائے خوردو نوش کی فراہمی اور منڈی کی قیمتوں کے درمیان میں فرق پر جب سابقہ ضلعی انتظامیہ اور معیشت پر نظر رکھنے والے افراد سے بات ہوئی تو انھوں نے فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں اختیارات کی تقیسم کے تحت تشکیل پانے والی ضلعی حکومتوں کو زیادہ موثر قرار دیا۔

ڈاکٹر پاشا نے کہا اس نظام کے تحت مقامی حکومتوں کو زیادہ اختیارات دیے گئے تھے اور انھوں نے اس سلسلے میں مؤثر کام کیا اور قیمتوں کو بھی کنٹرول کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

ان کے مطابق اٹھارویں ترمیم کی شق 140 اے کے مطابق مقامی حکومتوں کو مؤثر بنانا ہے تاہم 2008 کے بعد سے آنے والی حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی کام نہیں کیا اور انھوں نے مقامی حکومتوں کو چلنے نہیں دیا اور نہ ہی ان کو اختیارات منتقل کیے۔

کراچی میں پرویز مشرف دور کے ضلعی نظام کے تحت کراچی میں ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر (ڈی سی او) کے طور پر کام کرنے والے میر حسین علی نے اس سلسلے میں کہا اس نظام کے تحت ضلعی بیوروکریسی اور منتخب نمائندوں نے مل کر کام کیا اور اس کے مثبت نتائج بھی بر آمد ہوئے۔

ریئس الدین پراچہ نے کہا آج بھی بیورو آف سپلائی صوبوں کے پاس ہے لیکن ان کی کارکردگی غیرموثر ہے جس کی وجہ سے سرکاری نرخوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر فرخ سلیم نے اس سلسلے میں نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ضلعی سطح پر قیمتوں کو مقرر کرنے میں کوئی معاشی اصول کارفرما نہیں ہوتا۔ ایک ضلع سے سرکاری نرخوں کی جو لسٹ جاری ہوتی ہے اس کی دوسرا ضلع نقل کر تھوڑے بہت ردو بدل کے ساتھ جاری کر دیتا ہے جس میں کسی معاشی اصول کا کوئی پہلو شامل نہیں ہوتا۔

میر حسین علی نے اس سلسلے میں کہا سندھ میں کمشنری نظام کی بحالی کے بعد اسسٹنٹ کمشنروں کے پاس جوڈیشل اختیارات نہیں ہیں کہ وہ سرکاری نرخوں پر علمدرآمد کروا سکیں

شکیل بیگ نے کہا کہ سندھ میں کمشنری نظام چل رہا ہے تو پنجاب میں ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ کورآرڈینیشن آفیسر یعنی ڈی سی او کا نظام ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مشرف کے ڈیولیشن پلان میں مقامی حکومت کو اختیار ملے تھے تاہم سندھ میں کمشنری نظام کے بعد اب کمشنر کٹرولر جنرل پرائسز ہے۔ انھوں نے کہا پہلے وفاقی حکومت کا بھی قیمتوں کے کنٹرول پر کچھ اختیارات تھا لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد سب صوبوں کے پاس چلا گیا ہے جن کے ہاں سرکاری نرخوں پر قیمتوں کو یقینی بنانے کی صلاحیت بہت کم ہے۔

ڈاکٹر عابد سلہری نے مشرف کے نظام کے تحت پرائس کنٹرول اور موجودہ دور میں قیمتوں پر علمد درآمد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مارشل لا دور میں نظام سے زیادہ مارشل لا کے ڈنڈے کا خوف ہوتا ہے جو دوسرے شعبوں کی طرح پرائس کو بھی کچھ کنٹرول میں رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp