مجاہد چولستان کو علم و ہنر کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں


مجاہد کا تعلق بستی محمد پور موضع گلپور طلبانی، تحصیل خیر پورٹا میوالی، ضلع بہاول پور سے ہے۔ عمر تئیس سال، مسکولر ڈسٹرافی کا شکار ہیں۔ شدید مالی مشکلات کے باوجود ”چولستان اسپیشل پرسنز ایجوکیشن سینٹر“ نامی سکول کے ذریعے ستر بچوں کو مفت تعلیم فراہم رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ”چولستان سپیشل پرسنز آرگنائزیشن“ کے ذریعے اپنے علاقے کے خصوصی افراد کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔

مجاہد کے والد صاحب جاوید احمد حجام کے کام اور مزدوری کے ذریعے گھر کا نظام چلا رہے ہیں۔ خاندان پانچ بھائی، بہنوں پر مشتمل ہے۔ دو بہنیں نارمل اور شادی شدہ ہیں، جبکہ مجاہد ان کے چھوٹے بھائی زبیر اور ایک بہن مسکولر ڈسٹرافی جیسے موذی مرض کا شکار ہیں۔

والدین غربت اور مالی مشکلات کی وجہ سے خصوصی بچوں کا علاج نہیں کرا سکے۔ بچپن انتہائی مفلسی میں گزرا۔ معذوری کی وجہ سے تینوں بچے عام بچوں کے سکول سے تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ گھر کے نزدیک اسپیشل ایجوکیشن کی کوئی برانچ نہ تھی۔

اسپیشل ایجوکیشن کی ایک برانچ خیر پور ٹامیوالی میں تھی۔ جو گھر سے کافی فاصلے تھی۔ والد صاحب نے ہمت کر کے تینوں خصوصی بچوں کا داخلہ گورنمنٹ اسپیشل ایجوکیشن سینٹر خیر پور میں کروا دیا۔ سکول کی بس بچوں کو لانے لے جانے کا کام کیا کرتی تھی۔ تعلیمی میدان میں بچے کسی سے کم نہ تھے۔ والد صاحب بچوں کو احمد پور اڈے سے بس میں سوار کرتے اور چھٹی کے وقت لینے آ جایا کرتے۔

سرکاری سکول کی بس کبھی آتی، کبھی نہ آتی۔ جس کی شکایت سکول کی پرنسپل سے متعدد بار شکایت کی گئی۔ جب بات نہ بنی تو معاملے کو ای ڈی او اور ڈی او کی سطح تک اٹھایا گیا۔ لیکن اسکول کی عملے کے ہٹ دھرمی برقرار رہی۔ مجاہد کہتے ہیں جب سکول کی بس انھیں لینے آیا کرتی تو وہاں سے گزرتے لوگ ڈرائیور سے کہتے کہ یہ بچے معذور ہیں، انھوں نے پڑھ کر کیا کرنا۔ والدین بچوں کو سکول بھیج کر ڈرائیور اور بچوں دونوں کا وقت برباد کر رہے ہیں۔ گاؤں والوں کی باتیں والدین کا دل توڑ کر رکھ دیتیں۔ والدین اکیلے میں خوب رویا کرتے۔

مجاہد کے دادا جان نے ضد کر کے بہن کا تعلیمی سلسلہ تیسری جماعت سے منقطع کروا دیا۔ جس کی بنیادی وجہ بس کے عملے کی ٹائمنگ اور بچی معذوری تھی۔ اس واقعے کے بعد سے بہن گھر کی ہو کر رہ گئی۔ سلائی کڑھائی کر کے وقت گزارتی ہے۔

مجاہد اور ان کے چھوٹے بھائی زبیر نے انتہائی مشکل حالات میں سپیشل ایجوکیشن سے مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد گھر بیٹھ گئے۔ معذوری اور وسائل کی کمی کی وجہ سے دونوں بھائی پانچ سال تک گھر میں ہی رہے۔ گھر میں رہتے ہوئے دونوں بھائی مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے رہتے۔ کچھ کرنے کے جذبے کے تحت دونوں نے مل کر ”چولستان سپیشل پرسنز آرگنائزیشن“ اور چولستان اسپیشل پرسنز ایجوکیشن سینٹر کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں سکول کی فیس ڈھائی سو روپے مقرر کی گئی۔ تاکہ مجاہد کا سکول آنے جانے کا خرچہ، مکان کا کرایہ، اساتذہ کی تنخواہ، بچوں کی کتابوں اور یونیفارم کا خرچہ نکلتا رہے۔

سکول کا تجربہ کامیابی سے جاری تھا کہ کرونا کی وبا آ گئی۔ جس کی وجہ سے سکول بند کرنا پڑھ گیا۔ اس دوران دونوں بھائیوں نے فیشن اور ڈریس ڈیزائننگ کے کورسز کیے۔ سکول دوبارہ کھولنے کی کوشش کی تو بیشتر بچوں کے والدین نے فیس دینے سے انکار کر دیا۔ جس پر فیس کو مزید کم کر کے پچاس روپے کر دیا گیا۔ سکول گھر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ دونوں بھائیوں نے ایک موٹر سائیکل والے سے بات کر رکھی ہے۔ جو چھ ہزار روپے کے عوض انھیں سکول لانے لے جانے کے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ سکول میں دو عدد ٹیچرز بھی ہیں جنھیں دو ہزار روپے فیس دی جاتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل تک ایک صاحب بچوں کی فیس اور یونیفارم کا بندوبست کر لیا کرتے تھے۔ لیکن اب انھوں نے مزید مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

مجاہد کے پرانے اساتذہ کرام بھی نیک مقصد میں ان کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ بچوں کے پڑھنے کے لئے سیکنڈ ہینڈ کتابیں دی جاتی ہیں۔ جنھیں مختلف سکولوں سے جمع کیا جاتا ہے۔ اس طرح غریب گھرانے کے بچوں کو پچاس روپے کے عوض تعلیم اور مفت کتابیں میسر آ جاتی ہیں۔

مجاہد چولستان سپیشل پرسنز آرگنائزیشن کے تحت خصوصی افراد کی فلاح و بہبود کے لئے بہت کام کر رہے ہیں۔ ہر چند ماہ بعد خصوصی افراد میں راشن، مالی امداد، ویل چیئرز، سفید چھڑیاں اور بیساکھیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔

مجاہد نے تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اپنے تعلیمی سفر کو رکنے نہ دیا۔ پرائیویٹ پرچے دیتے ہوئے ایف اے کیا اور مزید پڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ سرکاری نوکری کے حصول کے لئے اپلائی کرتے رہتے ہیں لیکن سفارش اور رشوت نہ دینے کی وجہ سے مقصد میں ناکام رہے ہیں۔

مجاہد مستقبل میں اپنے سکول کی طرز کے بہت سے سکول اور ووکیشنل ٹرینگ سینٹرز بنا کر چولستان کو علم و ہنر کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments