میرے محنت کشوں کے سنہرے بدن


گٹھے بدن کے ایک ایک جوڑ سے اٹھتی ٹیسیں سکول کی جانب اٹھتے قدموں کے پاؤں پڑنے لگتیں تو نواز کی آنکھوں کی دعائیہ پلکیں مامتا کا چہرہ تکنے لگتیں۔ لخت جگر کی اس ملتجیانہ ادا پر پگھل پگھل جاتی ماں دل کو بے دلی سے پکا کرتی گھگھیانے لگتی، مرے لعل، ہم غریبوں کی آس اب تو ہی تو ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ تجھے بھی تیرے بابا کی طرح دیس بدیس کی خاک چھان چھان کر روٹی کے نوالے تلاش کرنے پڑیں۔ ماں کے ایک ایک لفظ سے ٹپکتی آرزووں کے احترام میں بیٹے کے پپوٹوں سے رستی بے بسی اس کے گالوں کو چوم لیتی تو سارے خدشے اندیشے جھٹکتا سکول بڑھ جاتا۔

اللہ جانے اس کی شکل میں ایسا کیا تھا کہ پہلی نظر پڑتے ہی استاد کے خدو خال یوں بگڑ بگڑ جاتے جیسے دنیا جہان کے سارے غصے اس کے چہرے میں اتر آئے ہوں۔ استاد کے ہاتھ میں لہراتے ڈنڈے کی دہشت جیسے اس کی زبان کو گرفت میں لے لیتی۔ رٹا لگانے کی ساری کی ساری توانائیاں حافظے کے گنبد میں چیخنے لگتیں۔ ادھر مولا بخش نامی ڈنڈا فضا میں بلند ہوتا ادھر الفاظ کی ادائیگی کی کوشش میں لڑکھڑاتی زبان دانتوں کی بتیسی میں پھنس کر سی کی آواز میں سسک جاتی۔ بدن پہ پڑتی چوٹیں استاد کے غصے کی تشفی نہ کر پاتیں تو خبیث کمینے کے الفاظ سے شروع ہوتی گالیاں معاشرے کی کڑواہٹوں اور شاید کسی حد تک بیہودگیوں کا احاطہ کرتیں اس کی سماعتوں میں ضربیں لگانا شروع کر دیتیں۔

معمول کی مشق ستم بالآخر جیت گئی۔ راہ فرار پہ چلا ایسے، دکھتے بدن کو شفا ملی ہو جیسے۔ دو ماہ کا عرصہ سکول کی بجائے لاہور کی گلیوں میں بھٹکتے پورا ہو چلا تھا کہ ایک دن پڑوسیوں کے فون سے خبر ملی کہ سات برس کے بعد اس کے بابا جون کی بائیس تاریخ کو وطن واپس آرہے ہیں۔

گھر کی دیوار پہ لٹکے میلے کچیلے کیلنڈر پر بائیس کے ہندسے کی سرخ سرخ لکیروں میں اس کی آنکھیں کھب چکی تھیں۔ زنگ لگی یادوں کی دھند میں بابا کے چہرے کے ماند پڑتے نقوش کو ٹٹولنے کی مشق سے تھکی ہاری آنکھوں میں امید کے دیے جلنے لگے تھے۔ اس کئی حافظے سے چمٹی باز گشت آج بھی سوچوں کے محراب میں گونج رہی تھی جب ایک بھدی سی آواز والے لڑکے نے کچوکا لگایا تھا۔ تمہارا بابا ہے بھی سہی یا نہیں؟ گئے دنوں کی دھول جھاڑتے زخموں کے نشاں یادوں کی دہلیز پر رسنے لگے تھے۔

وطن پلٹ بابا پر جیسے ہی یہ راز کھلا کہ بیٹا اسکول کی بجائے انجان منزلوں کا راہی ہو چکا ہے تو مستقبل سے جڑے خوابوں کے محل دھڑام سے زمین بوس ہوتے چلے گئے۔ شکستہ دل کی کرچیوں سے نئی تعمیر کا خیال ہی کہیں دور اندھیروں میں گم سم ہو چکا تھا۔ ایسے پریشان کن حالات میں دلجوئی کے تقاضے نبھاتی شریک حیات گویا ہوئی۔ اس کو ساتھ اپنے ورکشاپ پہ لے جایا کرو۔ آپ کو شاید علم ہی نہیں نہ صرف گھر کی بلکہ اڑوس پڑوس کے گھروں میں بھی کسی کی الیکٹرانک وائرنگ میں مسئلہ ہو تو سب نواز کو بلاتے ہیں۔

گھر میں کوئی کھلونا نظر آ جائے تو جب تک اس کا پرزہ پرزہ کر کے اس کو دوبارہ ترتیب نہ دے لے نواز کو چین ہی نہیں آتا۔ اگلے دن ہی اپنی نئی بنائی ورکشاپ پہ بیٹے کو کام سکھانے کی ابتدا کر دی۔ اور یہ دن تھا کہ پھر نواز نے کوئی لمحہ تک ضائع کرنا جیسے گناہ سمجھ لیا۔ اس کے کام کی لگن کے آگے رات اور دن کی تفریق اپنا سا منہ لے کے رہ گئی۔ اور پھر سیکھنے کے عمل پر ایسی تیز رفتاری سے چلتا گیا کہ ٹھیک ایک سال بعد گاڑی کی پوری وائرنگ تن تنہا کر ڈالی۔ یہ ایک کارنامہ تھا اور پھر ایسے سلسلے بنتے چلے گئے، آج لاہور کے معروف پی آئی اے روڈ پر وہی نواز سٹی آٹو ورکشاپ میں بطور استاد کاریگر کے باعزت زندگی گزار رہا ہے۔ اس کے سدھائے شاگرد مختلف مقامات پر دست ہنر سے باعزت رزق کما رہے ہیں۔

گزشتہ سالہا سال سے پاکستان میں گاڑیوں کی مرمت کی صنعت بغیر کسی باضابطہ تعلیم کے کامیابی کے راستے پر گامزن ہے۔ ورکشاپس نامی تجربہ گاہوں میں چھوٹے کے نام سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے جلد ہی اپنے اپنے کنبوں کے بڑے بن جاتے ہیں۔ اپنے اساتذہ سے ایک ایک پرزہ سمجھتے ماہر کاریگر بن جاتے ہیں۔ مشینری پرزوں کے انگریزی ناموں کو ازبر کرتے مشینری نقائص کی نہ صرف نشاندہی کرتے ہیں بلکہ تسلی بخش علاج کے تمام گر بھی احسن طریقے سے نبھاتے ہیں۔

پھولوں جیسے ابدان پہ میلی کچیلی یونیفارم زیب تن کرنے والوں کی سوچ کس قدر اجلی ہے کہ اساتذہ کے احترام و پیروی میں فرمانبرداری کی اعلیٰ مثال رقم کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنے گاہکوں کے ساتھ حسن سلوک روا رکھتے سارا سارا دن جی سر جی سر کا ورد کرتے عین رزق حلال کماتے ہیں۔ جو علم کاریگری سیکھتے ہیں نہایت مخلصی سے دوسروں تک ابلاغ کرتے ہیں۔ حاضر باشی و محنت شاقہ کا عملی مظاہرہ کرتے اپنے ہاتھوں اور لباس پر کالے کالے داغ بخوشی قبول کرلیتے ہیں لیکن کسی کے سامنے کاسہ دست پھیلا کر اپنی خود داریوں کو داغ دار نہیں ہونے دیتے۔

افسوس کہ وطن عزیز میں ان کو ان پڑھ اور جاہل شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس کاغذ کی ڈگری نہیں ہوتی۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا جس کسی میں جتنا احساس ذمہ داری ہے وہ اتنا ہی قیمتی ہے۔

نواز کی کامیاب زندگی ہمارے نظام تعلیم پر کئی سوالیہ نشانات ثبت کرتی ہے۔ عمل سے عاری پیداوار کو تعلیم یافتگی کے سرٹیفکیٹس دیتے حکومتی تعلیمی ادارے نسل نو کی صلاحیتیں بھانپنے سے اس قدر قاصر کیوں ہیں۔ نامور ڈگریوں کے حامل جوان معاشرے پر بوجھ کیوں ثابت ہونے لگتے ہیں۔ چند ادارے جن کی ڈگریوں کی اہمیت ہے ان پر اٹھنے والے اخراجات محض امرا طبقہ ہی برداشت کر سکتا ہے۔ تو کیا یہ ملک ایک بڑے طبقاتی خلا و تفریق کے لئے حاصل کیا گیا تھا۔

حکومت وقت سے بھرپور تقاضا ہے کہ ان صنعتوں میں کام کرنے والے کاریگروں کو باعزت مقام دینے کے اقدامات کیے جائیں۔ صوبائی او قومی سطح پر فن و ہنر کے مقابلہ جات منعقد کروائے جائیں۔ اور جیتنے والوں کو انعامات سے نوازا جائے۔ ان حقیقی فرض شناس کاریگر اساتذہ کو باعزت مقام عطا کیا جائے۔ اس عملی صنعت کی سرپرستی بے روزگاری کے طوفان کے سامنے ایک بند باندھنے کا کام کر سکتی ہے۔ آؤٹ آف اسکول چلڈرن کو واپس لانے کے نعرے کو عملی شکل دینا مقصود ہو تو ان کام کرنے والے چھوٹوں کے لئے ان تجربہ گاہوں جیسے سکولز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ان کی محنت و مشقت سے آراستہ زندگی کس قدر امید افزا ہے۔ کیا خوب کہا تھا

میرے محنت کشوں کے سنہرے بدن
چاند میری زمیں پھول میرا وطن


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments