سانحہ بارہ مئی: شہدا ئے کراچی 14 برس بعد بھی انصاف کے منتظر


ملکی تاریخ میں الم ناک واقعات و سانحات رونما ہوتے رہے ہیں، تاہم 12 مئی 2007 کا سانحہ ایک ایسا واقعہ ہے جو چودہ برس گزرنے کے باوجود انصاف کا منتظر ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک کے دوران سابق چیف جسٹس آف پاکستان (ر) افتخار چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر 11 مئی سے پورے شہر کا لاک ڈاؤن کیا گیا، سابق چیف جسٹس کے استقبال کے لئے سیاسی جماعتوں نے ائرپورٹ جانے کا اعلان کیا تھا، شہر بھر سے مختلف سیاسی ریلیوں کو شاہراہ فیصل کے روٹ سے کراچی ائر پورٹ جانا تھا، تاہم بعض عناصر کو جج بحالی تحریک کے لئے سیاسی جماعتوں (حزب اختلاف) کی ریلیاں ناگوار گزر رہی تھی، بالخصوص کراچی میں سیاسی اختلاف، لسانی تعصب کی آگ برسا رہا تھا، ان حالات میں سیاسی جماعتوں کی ریلیوں کے درمیان تصادم یا دست و گریبان ہونا، اتنی غیر معمولی بات نہیں گردانی جاتی، لیکن چشم فلک نے اس دن بربریت کے ایسے مناظر الیکٹرانک میڈیا کے وساطت سے دنیا کے سامنے براہ راست دکھائے، جو آج بھی نہیں بھلائے جا سکے۔

عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے 48 کارکنان اپنی قیمتی جانوں سے محروم ہوئے، انہیں طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت ایف ٹی سی پل سے بلوچ کالونی اور کالا پل سے ملیر ہالٹ کے راستے میں مورچوں سے نشانہ بنا یا گیا۔ شاہراہ فیصل کے اس راستے پر فلائی اوور پر دہشت گردوں نے پہلے سے مسلح ہو کر مورچے بنا لئے تھے اور نیچے گزرنے والی ریلیوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی، ان کا پہلا ٹارگٹ سیاسی رہنما تھے جو ریلیوں کی قیادت کر رہے تھے، اس دن شام تک 48 قیمتی جانوں کا سرعام قتل عام کیا گیا، ان گنت زخمی ہوئے، ان مناظر کو الیکٹرانک میڈیا نے براہ راست دکھایا، الیکڑونک میڈیا کیونکہ جج بحالی تحریک کی سپورٹ کر رہا تھا اس وجہ سے شہر قائد سے نکلنے والی ریلیاں ان کے لئے خاص دلچسپی کا باعث تھی، دوم سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی شخصیت کو بھی عدلیہ بحالی تحریک کا نام دے کر سپورٹ کیا جا رہا تھا۔

اس لئے اس وقت کی حکومت کو حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک سے شدید خوف لاحق تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ حکومت مخالف تحریک چلائی جائے، ذرائع کے مطابق پنجاب میں جج (عدلیہ) بحالی تحریک کو بزور طاقت روکنے کی تجویز دی گئی تھی لیکن وزیراعلیٰ پرویز الہی نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتیاط برتی اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کو لاہور میں خطاب کرنے دیا اور کوئی رکاؤٹ نہیں ڈالی۔

سندھ حکومت میں شریک اتحادی جماعت نے حزب اختلاف کی تحریک و ریلی کو روکنے کے لئے حکمت عملی تیار کی کہ ائرپورٹ سے لے کر ہائی کورٹ تک رکاؤٹیں کھڑی کردی جائیں اور چیف جسٹس کو واپس جانے پر مجبور کیا جائے، دوم حکومت کی اتحادی جماعت نے بھی اچانک فیصلہ کیا کہ وہ عائشہ منزل سے مزار قائد تک مارچ کر کے اپنے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرے گی، جب کہ اسی روز اسلام آباد میں سابق صدر پرویز مشرف نے بھی مسلم لیگ ق کے سیاسی جلسے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔

کراچی میں ایم کیو ایم کی ریلی و جلسے کرنے کے فیصلے پر شدید تنقید کی گئی کہ انہیں اس موقع پر احتیاط و تدبر سے کام لینے کی ضرورت تھی، قافلوں کی صورت میں آنے والی سیاسی ریلیاں تصادم کا باعث بن سکتی تھی لیکن مشیر وزیر داخلہ وسیم اختر نے تصادم کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے اپنی جماعت کی ریلی نکالنے کو سیاسی حق قرار دیا۔ سابق چیف جسٹس کو پیش کش کی گئی کہ وہ روڈ سے سیاسی ریلیوں کے ساتھ جانے کے بجائے ہیلی کاپٹر سے اپنے خطاب والی جگہ پر پہنچائے جا سکتے ہیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور ائر پورٹ میں ہی بیٹھ کر راستے کلیئر ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن کراچی فسادات کی وجہ سے انہیں ائر پورٹ سے باہر نکلنے کا موقع میسر نہیں آنے دیا اور وہ مایوس ہو کر واپس ائر پورٹ سے ہی روانہ ہو گئے۔

بارہ مئی کا سانحہ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ قتل عام و فائرنگ جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کے تمام مناظر کو الیکٹرانک میڈیا نے براہ راست دکھایا تھا، اس وقت ایک سندھی چینل نے ایف ٹی سی پل پر موجود لسانی جماعت کے مسلح افراد کی سرگرمیوں کو براہ راست کور کیا، مسلح افراد کو با آسانی پہچانا جاسکتا تھا کہ ان کا تعلق کس لسانی تنظیم سے ہے، ایف ٹی سی پل کے اوپر سے کالا پل سے آنے والی سیاسی و قوم پرست جماعت کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کئی رہنما زخمی ہوئے۔

یہ مناظر ایف ٹی سی پل کے ساتھ منسلک بلڈنگ میں موجود سندھی چینل نے براہ راست دکھائے، جب لسانی دہشت گردوں کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے کوریج کرنے والے صحافیوں کو نشانہ بنانا شروع کر کے کوریج کو رکوا دیا، اسی دوران بزنس ریکارڈر روڈ پر قائم اردو نیوز چینل کے دفتر نے پٹیل ہسپتال (پٹیل پاڑہ) اور گرو مندر کے درمیان دو گروپوں کے درمیان مسلح تصادم کو براہ راست دکھانا شروع کر دیا، نیوز چینل کے دفتر کے سامنے مذبح خانے میں مسلح افراد کو با آسانی شناخت کیا جاسکتا تھا کہ ان کا تعلق کس جماعت سے ہے، تاہم پٹیل اسپتال کی چھت و اطراف سے مسلح افراد کی نشان دہی نہیں ہو پائی تھی کہ ان کا تعلق کسی قوم پرست یا سیاسی جماعت سے ہے، مذبح خانہ گرو مندر پر موجود مسلح افراد کو اطلاع ملی کہ ان کے عین مقابل نیوز چینل کی عمارت سے براہ راست ان کی فائرنگ کی کوریج و نقل و حرکت دکھائی جا رہی ہے تو ان کا رخ نیوز چینل کی عمارت کی جانب ہو گیا اور عمارت میں موجود میڈیا کارکنان کا کہنا تھا کہ انہیں لگا کہ جیسے قیامت آ گئی ہو، اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں انہوں نے اپنی جانیں بچانے کو ترجیح دی لیکن جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے براہ راست فائرنگ کو بھی مسلسل چھ گھنٹوں تک دکھاتے رہے، یہاں تک کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے وہاں پہنچ نہ گئے۔

میڈیا کارکنان کو ریلیوں کی کوریج میں سخت مشکلات کا سامنا رہا، انہوں نے زخمی سیاسی کارکنان کے ساتھ بسوں کے نیچے لیٹ کر یا ریلوے لائن کراس کر کے منسلک بلڈنگوں کے عقب میں اپنی جانیں بچائیں۔ میڈیا کارکنان کو اس قسم کی افتاد کا کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا، تاہم ان کی جان جوکھم میں ڈال کر عکس بندیوں نے شہر قائد میں قتل عام کرنے والے عناصر کا چہرہ بے نقاب کیا، بعد ازاں لسانی تنظیم کی جانب سے ایک ایک نیوز چینل سے کوریج کی فوٹیج مبینہ طور پر زبردستی حاصل کی گئی، تاہم اسلام آباد میں موجود دفاتر میں جو ریکارڈ محفوظ رہ سکا، وہ آج بھی موجود ہے لیکن دہشت گردوں و سیاسی دباؤ کی وجہ سے آہستہ آہستہ بارہ مئی کے اصل دہشت گردوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے سے مصلحتا گریز کی راہ اختیار کی گئی۔

گمان تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان (ر) افتخار احمد چوہدری، (جو کہ ازخود نوٹس لینے میں نمایاں شہرت رکھتے تھے ) ، وہ شہر قائد میں ہونے والی قتل و غارت پر بھی سو موٹو ایکشن لیں گے، لیکن حیرت انگیز طور انہوں نے اس وجہ سے نوٹس نہیں لیا کہ بقول ان کے وہ خود اس سانحے میں ایک فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بارہ مئی کے سانحے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کی گئی لیکن یہ سانحہ اس قدر متنازع و سیاسی بنا دیا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے بعد لسانی تنظیم کے ہزاروں افراد نے بطور گواہ بیان قلم بند کرانے کے لئے درخواستیں دے دیں اور عدالت میں شدید نعرے بازیاں کر کے کارروائی رکوا دی، ایک ایسا سانحہ جو میڈیا میں براہ راست دکھایا گیا، جن میں ملزمان کی شناخت با آسانی کی جا سکتی تھی وہ اس قدر الجھن و گنجلک مقدمہ بن گیا کہ چودہ برس بعد بھی ذمہ داران کا تعین نہیں کیا جا سکا، گو کہ سب بخوبی جانتے تھے کہ اس سانحے کا اصل ذمے دار کون تھا، لیکن عدالت میں انصاف کے متلاشی خاندانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر کے انصاف حاصل کرنے سے روک دیا گیا۔

آج بھی ہر سال کی طرح بارہ مئی کو رسمی طور پر یاد کیا جاتا ہے لیکن انصاف کی عدم فراہمی ہمارے جوڈیشنل سسٹم پر سوالیہ نشان چھوڑتی ہے کہ کھلے شواہد و ثبوت کے باوجود قانون اندھا کیوں ہے؟ بارہ مئی کے سانحے کی یاد منانے کی ہر سال جب بھی ایک قوم پرست جماعت کی جانب سے کوشش کی جاتی تو جلسے کو روکنے کے لئے کئی روز قبل ہی ہنگامے و قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوجاتا، بالآخر قوم پرست جماعت نے بارہ مئی کے سانحے پر جلسہ عام منعقد نہ کرنے کا عندیہ دے دیا، کیونکہ ان حالات میں اتنے بے گناہ شہری و سیاسی کارکنان کو قتل کر دیا جاتا، جتنا بارہ مئی میں بھی نہیں ہوئے تھے، چودہ برس گزر جانے کے باوجود قیامت کے اس لمحے کو وہ کارکنان و میڈیا ورکرز نہیں بھلا سکے جن کے سامنے یہ یہ ہول ناک واقعات رونما ہوئے تھے، بعد ازاں ایک منصوبہ بندی کے تحت بارہ مئی سے متعلق لسانی جماعت نے پروپیگنڈا کر کے اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی، سیاق و سباق سے ہٹ کر ویڈیوز جاری کی، الزامات کی بھرمار کر کے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش میں یہاں تک کہہ دیا کہ اصل میں بارہ مئی کو ان کے کارکنان کے خلاف قتل عام ہوا تھا۔

جب کہ براہ راست نشریات آج بھی گواہ ہیں کہ سانحہ کے اصل ذمے دار کون تھے اور منفی پروپیگنڈا کر کے عوام کو گمراہ کرنے والے کون ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کچھ ایسے ملزمان کو بھی گرفتار کیا جو سانحہ بارہ مئی میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کرچکے ہیں اور اپنی سیاسی وابستگی کے تحت قتل و غارت، جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ہونے کی وجہ بھی بیان کرچکے، تاہم سوگواران آج بھی انصاف کے منتظر ہیں اور یہ انتظار کب ختم ہوگا، کوئی نہیں جانتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments