آپ کی خوشیوں کی چابی کہاں چھپی ہے؟


اب تو عرصہ ہوا، امریکہ منتقلی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ ہمارے پڑوسی اپارٹمنٹ میں تین نسلوں پہ مشتمل ایک پاکستانی خاندان بستا تھا۔ معمر جوڑا، جوان جوڑا اور ان کے دو چھوٹے بچے۔ میں نے محسوس کیا کہ بڑے میاں اکثر بیوی کے پیچھے پیچھے ہوتے اور بڑی بی کے چہرے پہ ایک ناگوار سی اکتاہٹ ہوتی۔ جیسے کہہ رہی ہوں ”چھوڑ بھی دو مجھے“ الفاظ کی ادائیگی ضروری نہیں ان کا جسم اس اکتاہٹ کا اظہار کرتا تھا۔ ایک دن جب بڑے میاں ادھر ادھر ہوئے تو انہوں نے زہریلے لہجہ میں کہا۔

”پوری زندگی تنگ کیا۔ جوتی کی نوک پہ رکھا۔ اب پیچھے لگے رہتے ہیں۔ مجھے تو نفرت آتی ہے ان کی شکل سے بھی“ ۔ اکثر ہمیشہ سے دبی ہوئی عورتوں کو اپنی طاقت کے لیے اکثر بچوں کے جوان ہونے کا انتظار رہتا ہے اور لگتا تھا کہ اب وہ وقت آ گیا تھا۔ رہے بڑے میاں تو صاف لگتا تھا کہ پردیس میں جب بیٹے کے رحم وکرم پہ ملازمت سے فارغ غیر مصروف زندگی گزرنے لگی تو نہ پیسے کا زعم رہا اور نہ وہ رعب جو وہ بیوی بچوں پہ جمائے رکھتے تھے۔ ویسے بھی رعب اور طاقت، حاکم و محکوم کا رشتہ کا تعلق تو قائم کر سکتا ہے لیکن دوستی اور محبت کی گرم جوشی کا نہیں۔ پردیس میں بڑے میاں یہیں پہ مات کھا گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ ادھیڑ عمر میں ایسی خوشی ڈھونڈ رہے تھے جس کا انہیں علم ہی نہیں تھا کہ کس چڑیا کا نام ہے؟

ہم میں اکثر اپنی خوشیوں کی چابی کو بنک کی تجوری میں رکھی دولت، شہرت، سماجی حیثیت، اونچے آئی کیو اسکور، اپنی بہترین موروثیت اور صلاحیتوں میں تلاش کرتے ہیں اور اسی کو درست بھی سمجھتے ہیں۔ جب میں نے اپنی ایک واقف کار سے پوچھا کہ آپ کی نظر میں اصل خوشی کہاں سے آتی ہے تو انہوں نے برجستہ کہا ”میری دولت سے۔ آج میں اس لیے تنہا نہیں کہ میری دولت کی وجہ سے اکثر دوست میرے ساتھ ہیں۔ اگر میں غریب ہوتی تو کون ملتا اور دوستوں کے بغیر زندگی کی خوشیاں ادھوری ہیں۔“

ان واقعات کو بتانے کا مقصد آپ کی توجہ ہارورڈ کی مشہور زمانہ طویل دورانیہ یعنی اسی سالوں پہ محیط تحقیق پہ مبذول کرانا چاہتی ہوں۔ جس نے بتایا کہ آپ کی پرمسرت، صحت مند اور طویل حیات کا راز کس میں پوشیدہ ہے۔ اس تحقیق کوHarvard Study of Adult Development کہا گیا ہے۔

دنیا کی اس طویل ترین تحقیق کا آغاز 1938 ء کے ڈپریشن کے وقت سے ہوا۔ اس مقصد کے لیے کل 724 دو ٹین ایج نوجوانوں کے گروپ لیے گئے۔ ایک 456 افراد پہ مبنی وہ ٹین ایج نوجوان تھے جو بوسٹن کی غریب بستیوں کے مکین تھے۔ جن کو مالی ناآسودگی کا سامنا تھا۔ جبکہ دوسرا 268 نوجوان طلباء پہ مبنی ہارورڈ اسکول سے 1939 ء اور 1944 ء میں گریجویٹ ہونے والا گروپ تھا۔ جس میں امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی بھی شامل تھے۔ آج اس ابتدائی تحقیق میں شامل افراد کی تعداد صرف انیس ہے۔ لیکن اب ان کی اولادیں بھی اس تحقیق کا حصہ بن گئی جن کے تعداد 1300 ہے۔

یہ تحقیق محض سالانہ سوالنامہ تک محدود نہیں تھی بلکہ گھروں میں جا کر لیے گئے انٹرویوز جو نہ صرف لڑکوں بلکہ ان کے گھر والوں سے گفتگو پہ بھی مبنی تھے۔ اس کے علاوہ میڈیکل ریکارڈ بھی حاصل کیے گئے۔ یہی نہیں بلکہ اس وقت کی سائنس کے مطابق ان کے خون اور دماغ کے اسکین کے ذریعہ مکمل تجزیہ بھی کیا گیا۔ مقصد یہ جاننا تھا کہ زندگی کے ابتدائی تجربات کس طرح صحت اور عمر کو متاثر کرتے ہیں۔ شروع کی تحقیق 1938 ء اور 1954 ء کے نتائج اس زمانے کے خیالات کا عکس تھے کہ جب موروثیت اور بیالوجی کو فوقیت تھی۔

اور کہا گیا کہ جسمانی بناوٹ، ذہنی اہلیت اور شخصیت ہی ایک انسان کی نشو و نما کا تعین کرتے ہیں۔ اس کے لیے کھوپڑی کی ناپ، جسمانی عضو اور دماغ کا مشینی جائزہ اور ہینڈ رائیٹنگ کا مشاہدہ بھی کیا گیا۔ آج دنیا سماجی اور حیاتیاتی سائنس میں اتنی آگے ہے کہ اس وقت کی ترقی کے مقابلہ میں سب کچھ معجزہ سا لگتا ہے۔ ڈی این اے ٹسٹنگ ہو یا جسمانی عضو کی ایم آر آئی سب نے فکشن کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔

طویل تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں صحتمند خوشیوں سے بھر پور بڑھاپے کی زندگی کا راز قربت اور محبت سے بھرپور تعلقات میں ہی مضمر ہے۔ وہ رشتہ جو ہم اپنے گھر والوں، دوستوں اور سماج سے قائم کرتے ہیں وہ ہی ہماری اندر کی خوشیوں کا ضمانت ہے۔ اس کے برعکس تنہائی نہ صرف جسم بلکہ دماغ کے لیے سم قاتل ہے۔

1/ 5 امریکی عوام کا کہنا ہے کہ وہ تنہائی کا شکار ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی زندگیوں میں خوشیوں کا کتنا فقدان ہوگا۔ صحت مند تعلقات بالخصوص زندگی کے وسط یعنی پچاس ساٹھ کی عمر میں اس بات کی پیشین گوئی کر سکتے ہیں بعد کی زندگی یعنی اسی پچاسی سال میں انسان کی صحت کیسی ہوگی۔ یہ کہنا درست نہیں کہ تیس سال کی بعد تبدیلی نہیں آ سکتی۔ بالکل آ سکتی ہے مبادا یہ کہ کثرت سے شراب نوشی، سگریٹ نوشی اور ڈپریشن سے بچا جائے۔ وگرنہ ہم دوبارہ ناخوشی کی اس سطح پہ پہنچ جائیں گے جہاں سے سفر کیا تھا۔

تحقیق کی ابتداء میں شامل افراد کے بیوی بچوں اور نسلوں پہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بچپن کے نامساعد حالات کا اسٹرس کس طرح مڈل ایج اور بڑھاپے میں توڑ دیتا ہے۔ لہٰذا کوشش یہ ہے کہ اسٹرس کا توڑ ہو۔ اس کے لیے تحقیق اپنے مسلسل سفر میں ہے۔

ویسے تو ہم جس دن پیدا ہوتے ہیں عمر رسیدگی اور فنا کی جانب ہمارا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ بہتر نہیں کہ اس سفر کو رجائی انداز اور مثبت طرز فکر اپناتے ہوئے اپنے خاندان، دوستوں اور سماج سے محبت اور یگانگت کے رشتہ کے ساتھ گزارا جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments