علامہ اقبال کی نظر میں ”ابلیس“ کا کردار


اس کائنات میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جس نے ابلیس کے کردار کے بارے میں سوچا نہ ہو۔ اس کی ماہیت کیا ہو سکتی ہے؟ یہ اسرار حیات میں سے ایک سربستہ راز کیوں ہے؟ کاش یہ ”بدی کا استعارہ“ سجدہ کر لیتا تو نتیجتاً ہمیں آج اتنے کٹھن چیلنجز کا سامنا نہ کرنا پڑتا وغیرہ وغیرہ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ابلیس کسی وقت عبادت الٰہی میں ”سپر سٹار“ رہا! چونکہ اس کی بناوٹ آگ کی لو سے سے کی گئی تھی اس لیے نخوت و گھمنڈ کا عنصر موجود تھا۔

اللہ رب المشرقین و رب المغربین نے جب آدم کا جسد خاکی بنایا تو ملائکہ کو یہ آرڈر صادر فرمایا کہ بنی آدم کو اس کی علمی فوقیت کی بناء پر سجدہ کیا جائے۔ ریاضت کی وجہ سے ابلیس بھی مقرب فرشتوں کے اجتماع میں تھا۔ اس نے بغتتہ انکار کر دیا۔ وجہ کیا تھی؟ کہ جی مجھے آگ سے تخلیق کیا گیا ہے اور اس انسان کو بدبودار کھنکھناتی ہوئی مٹی کے ٹھیکرے سے! ۔ لہٰذا اسے پست مخلوق کے سامنے سجدہ کرنا گوارا نہ ہوا۔ ابلیس کو اس کی نافرمانی کی پاداش میں تخت الٰہی کی فیصلہ ساز کمیٹی سے آؤٹ کر دیا گیا۔ اس نے اللہ رب العزت سے روز محشر تک کے لیے پاور اور مہلت مانگی جس کی منظوری دے دی گئی۔ اب شیطان کی یہ مہلت انسان کے لیے ایک ہارڈ ٹاسک ہے۔ انسان کی یہ محنت شاکہ ہوتی ہے کہ وہ شیطان کے مختلف روپ اور مکر و فریب کا مقابلہ کرے، اس کے وار اور حیلہ سازی سے بھرپور کارروائیوں میں استقامت اختیار کرے۔

؂ بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات و منات
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

تقریباً ہر مذہب کے دانشوروں نے فلسفہ ہائے ابلیس کے لیے بڑی نکتہ نوازیاں کی ہیں۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی شاعری میں ابلیس ایک ایسا انقلابی کردار ہے جو تعمیری نہیں بلکہ تخریبی ہے۔ اقبال نے اپنی شہر آفاق نظموں میں ابلیس کے کردار کو ایسی شکل میں پیش کیا ہے جس کی تشریح شیکسپیئر کے کرداروں کی طرح مختلف سطحوں پر کی جا سکتی ہے۔ اقبال کے نزدیک ابلیس نے خود آزادانہ فیصلے کی بدولت ایسا معرکہ چھیڑ دیا ہے جو افراد کے روحانی رجحانات اور خارجی ماحول کے مابین ہمیشہ حائل رہے گا۔

علامہ اقبال کی شاعری میں ابلیس کا کردار منفی تاثر کی بجائے ایک مثبت رویے سے معمور نظر آتا ہے۔ ضرب کلیم میں تقدیر (ابلیس و یزدان) میں علامہ اقبال نے یہ نظم ایک مکالمے کے انداز میں تحریر کی ہے جو اللہ تعالی اور ابلیس کے درمیان ایک کنورسیشن ہے۔ ابلیس نکالے جانے کے حکم کے بعد گڑگڑایا اور کہا کہ اے اللہ! دونوں جہان تیری مشیت کے تابع ہیں مجھے آدم سے کوئی دشمنی تو نہیں، تیرا قرب جسے میں غلطی سے قید سمجھتا تھا۔

مجھے بے حد محترم تھا۔ چونکہ تو نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے اپنی بارگاہ میں نہیں رکھے گا اس لیے میرے دل میں تو نے انکار سجدہ کی جرات ڈال دی۔ یہ سب اللہ تعالی تو نے اپنے فیصلہ شدہ پروگرام کے تحت کیا۔ میں بے گناہ ہوں۔ ابلیس کی بے باکی سن کر اللہ تعالی نے فرشتوں سے فرمایا کہ چونکہ یہ بلندی سے پستی پر جا پہنچا ہے اس لیے اس نے حیلہ سازیاں سیکھ لی ہیں کہ ہم نے اسے طے شدہ پروگرام کے تحت جنت کے ماحول سے نکال دیا ہے اور جب ہم نے اس کی منشاء کے مطابق اسے آزاد کر دیا ہے تو پچھتاتے ہوئے اپنی آزادانہ زندگی کو مجبوری قرار دیتے ہوئے رو رہا ہے۔

اقبال کے نزدیک ابلیس میں بہت ساری صلاحیتیں تھیں مثلاً عابد و زاہد ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین و فطین بھی تھا کہ کم وقت میں اس نے فرشتوں سے عبادتیں سیکھ لیں۔ مگر اس نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال اللہ کی عدالت میں صحیح نہیں کیا۔ علامہ اقبال کی دوسری نظم جبریل و ابلیس وہ ہے جس میں جبریل اپنے ہمدم دیرینہ شیطان سے بڑے دوستانہ لہجے میں پوچھتا ہے کہ جہان رنگ و بو کا کیا حال ہے؟ شیطان کہتا ہے کہ جہاں عبادت ہے وہاں سوز و ساز ہے۔

جبریل درد رکھتے ہوئے اس سے کہتا ہے کہ عرش پر تیرا ہی چرچا ہے کیا یہ ممکن نہیں کہ تو رب ذوالجلال سے پھر معافی کی درخواست کر لے۔ اس پر ابلیس نے کہا کہ میں اب ادھر آ کر کیا کروں گا۔ آسمانوں کی خاموشی میں میرا دم گھٹ جائے گا۔ زمینی فساد کی ہلچل میں مگن ہوں۔ اس پر جبریل بہت افسردہ ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسی انکار کے باعث تو نے اپنے مقامات عالیہ کھو دیے۔ تمہاری کوئی آبرو بھی رہی ہے اس پر شیطان لپک کر جواب دیتا ہے کہ تمہارا کام صرف ساحل پر کھڑے ہو کر خیر و شر کے جائزے لینا ہے میں تو طوفانوں کے تھپیڑے کھاتا ہوں، میری وجہ سے دنیا کو بطور امتحانی مرکز بنایا گیا نیکی بدی کی طاقت اور عقل کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔

علامہ اقبال کی مذکورہ بالا نظموں سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ ابلیس کے حامی ہیں مگر مکمل مطالعہ سے وہ اس کے مخالف نظر آتے ہیں۔ میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ شیطان کمزور ہے اس کو طاقتور ہمارا نفس بناتا ہے۔ اس کا مظاہرہ اہل عقل نے رمضان میں بخوبی کیا ہوگا کہ اللہ کی جانب سے واضح اعلان ہے کہ رمضان میں شیاطین زنجیروں میں جکڑ لیے جاتے ہیں لیکن پھر شر کے خیالات کیوں ابھرتے ہیں؟ یہ اسی لیے ہے کہ ہم نے اپنے نفس کی اتنی جی حضوری کر لی ہے اور نفس کے غلام اتنے بن چکے ہیں کہ اس کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر قسم ہر انتھک کوشش کی جاتی ہے اور ہم خود گناہ کا ارتکاب کر کے اسے شیطان پر ڈال کر بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔ اگر نفس ہی انکار کردے تو شیطان کی کیا مجال!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments