صحافت کے قیدی


”اعزاز کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی ادارہ علوم ابلاغیات سے ماس کمیونیکیشن کی ڈگری لے کر عملی زندگی میں قدم رکھا تو پہلی ہی نوکری ایک معقول روزنامے میں ہو گئی۔ کسی ریفرنس سے اخبار میں گیا اور انہوں نے نیوز روم میں بٹھا لیا۔ دو مہینے کام کرنے کے بعد تنخواہ کی بات کی تو سی این ای نے کہا کہ ایڈمن میں بات کر لو۔ ایڈمن سے رابطہ کیا تو حیلے بہانے، ٹال مٹول۔ آخر کار ہمت کر کے اخبار کے ایڈیٹر سے بات کرنے کا فیصلہ کیا“

فیلڈ میں نئے آنے والوں کے لئے اخبار کا ایڈیٹر تقریباً فرعون ہوتا ہے۔ اگر ان کی زبان عام آدمی سن لے تو یہ سیالکوٹ والا واقعہ تو عشر عشیر بھی نہیں۔ میں بڑے انہماک سے کرئیر کے ابتدائی دنوں میں اپنے ایک سینئر دوست کی کہانی سن رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ

” میں اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوا تو ایڈیٹر صاحب نے شکل دیکھی، کرسی کی جانب اشارہ کر کے بیٹھنے اور آمد کا مقصد بیان کرنے کو کہا۔ میں نے بتایا کہ سر میں پچھلے دو مہینے سے نیوز روم میں سب ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ ایڈیٹر نے کہا۔ تو۔ تو سر تنخواہ نہیں ملی۔ ایڈیٹر نے میری طرف دیکھا، چہرے کے تاثرات بدلے اور پنجابی میں کہا ’چل دوڑ‘ ۔“

یہ دوست وہاں سے ایسا دوڑا کہ اس نے صحافت کی نوکری پر تین حرف بھیج دیے۔ سولہ سال کی تعلیم حاصل کرنے اور پھر دو مہینے نوکری کے بعد ایسی تذلیل وہ عمر بھر نہیں بھولا۔

یہ سینکڑوں واقعات میں سے صرف ایک ہے۔ لکھنے پڑھنے کا شوق جنہیں اس شعبے میں لے آیا انہوں نے اپنی زندگیوں کو اپنے ہاتھوں سے نیلام کر دیا۔ جن کا گزارا زمینوں یا کسی خاندانی کاروبار سے چلتا تھا وہ تو زندہ رہ سکتے تھے باقیوں کے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔ وہ ایسی فاقہ مستی کا شکار ہو گئے کہ جس نے کبھی رنگ نہیں لانا۔ صحافی ایک ایسا روبوٹ ہے کہ بدقسمتی سے جو فیلنگز بھی رکھتا ہے۔

”اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا“ صحافت اس مصرعے کی عملی مشق کرا دیتی ہے۔

ذاتی طور پر اس دشت میں پانچ سال گزار کر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بڑے بڑے بالغ ”چائلڈ لیبر“ کر رہے تھے۔ ان کو تنخواہ کے نام پر صرف دو وقت کی روٹی کے ہی پیسے دیے جاتے ہیں۔ وہ بھی وقت پر ملیں گے یا نہیں اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔ ہم نوائے وقت میں تھے۔ میگزین سیکشن کے ایک ساتھی کے والد کے انتقال کی خبر نوٹس بورڈ پر آویزاں تھی۔ والد کو دفنانے کے اگلے روز وہ ڈیوٹی پر تھے۔ ایک نسبتاً چھوٹے اخبار کا پیج میکر شادی کے دوسرے روز یعنی ولیمے والے دن آفس آیا اور پیج ڈیزائن کر کے گیا۔

اتنی وفاداری اور فرض شناسی کے باوجود وقت پر تنخواہ مانگنا جرم تصور ہوتا ہے۔ گزشتہ روز دو مئی کو ایک دوست نے بتایا کہ اخبار کا مالک تین مہینے سے تنخواہ نہیں دے رہا تھا۔ سارا سٹاف پریشان۔ بار بار اس سے درخواست کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ڈیڑھ ماہ کی تنخواہ اور گستاخ کا لیبل دے کر نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔

ایک اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ واقعہ ہوا تو چیف سیکرٹری اور ساری بیوروکریسی ساتھ کھڑی ہو گئی۔ مگر صحافت ایسا بے رحم شعبہ ہے کہ جتنے آپ بوڑھے ہوتے جائیں بے سہارا ہوتے جائیں گے۔ 2014 میں میرے پاس ایک سینئر صحافی تشریف لائے۔ پچیس سال سے زیادہ تجربہ، لاہور پریس کلب کے ممبر بھی تھے۔ نوکری نہیں تھی۔ بہت زیادہ پریشان تھے۔ انہوں نے اپنا مہینے کا خرچ بتایا، گھر کا کرایہ، اکیلے رہتے تھے۔ کھانے کے اخراجات اور سگریٹ۔

کہتے بس اتنے روپے کی جاب چاہیے۔ تحریر کے شروع میں ایک نوجوان کی تذلیل ہوئی اب ایک پچیس سال تجربہ رکھنے والے کا احوال سن لیں۔ ہمارے ادارے کو ضرورت نہ تھی۔ وہ بار بار مجھے فون کرتے، میں شرمندگی کے مارے کال نہ سنتا کہ انہیں کیا جواب دوں۔ ان کی تین کالز مس ہوئیں۔ اگلے ہی روز موبائل پر میسج آیا وہ فوت ہو گئے تھے۔ ہارٹ اٹیک وجہ بنی اور پریس کلب کی جانب سے اظہار افسوس کی پریس ریلیز جاری کر دی گئی تھی۔ سینئر صحافیوں کی یہ حالت دیکھ دل اچاٹ ہوا اور ہم نے بھی دکھی دل کے ساتھ اس کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا۔

صحافت ان لوگوں کو رسوا کر رہی ہے جو اس کے حقیقی خیر خواہ ہیں۔ اپنے بچوں کے رزق کی خاطر کاغذ و قلم کے دیوانے ریڑھی لگانے پر مجبور ہوئے۔ جب پڑھے لکھے خوار ہو کر کنارہ کش ہونے لگے تو ”ادھ پڑھ“ صحافیوں کو نقب لگانے کا موقع ملا۔ بھوک افلاس نے تہذیب بھلا دی۔ اچھے برے کی تمیز ختم ہو گئی۔ پیسے دو کارڈ لو۔ گاڑی پر پریس لکھوا لو۔ لوٹ سیل لگ گئی۔ شعبہ صحافت میں کثیر تعداد ایسے پڑھے لکھے اور تجربہ کار لوگوں کی بھی ہے جن کی عمر نکل چکی۔ اب کسی اور فیلڈ میں نہیں جا سکتے نہ کہیں اور نوکری کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ میٹھا زہر اپنی مرضی سے پیا اور اب مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ صحافت کے ان قیدیوں کو۔ جو بروقت رہا ہو گئے۔ ان کا سلام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments